کامران کی بارہ دری سے دریائے راوی کا پیغام
او چاند اوئے!
سفید داڑھی والے بزرگ نے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر بھونپو بنایا اور آواز لگائی تھی۔ کسی ’چاند‘ کو گلا پھاڑ کر پکارنے کا یہ غیر رومانوی انداز میں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ تعجب ہوا اور ساتھ ہی یہ دیکھنے کا اشتیاق بھی کہ وہ چاند ہے کون؟ سفید داڑھی والے بزرگ کو دو صدائیں مزید لگانی پڑیں تب دور کہیں سے ادھیڑ عمر کا ایک آدمی آتا دکھائی دیا۔ یہی چاند تھا، سانولی رنگت اور مضبوط جسامت والا۔ اسی چاند کی کشتی میں بیٹھ کر ہم نے دریائے راوی کے راستے کامران کی بارہ دری جانا تھا۔ اور واپسی پر راوی نے سننے پڑھنے والوں کے لیے ایک پیغام دینا تھا۔
لاہور کے دریائے راوی کے بجائے بحر ظلمات ہوتا تو میں گھوڑے کی باگیں پکڑے اس میں اتر جاتا۔ لیکن وقت کے ساتھ دستور بھی بدل گئے ہیں۔ اب جنگ جُو گھوڑے دوڑانے کے بجائے کی بورڈ پر انگلیاں دوڑاتے ہیں۔ سرخ لکیر کے اس طرف مصروف کار کو لفافے ملتے ہیں، دوسری جانب والے پر ڈیجیٹل دہشت گرد ہونے کی تہمت لگتی ہے۔ اور یہ سرخ لکیر بھی اپنی وابستگیاں بدلتی رہتی ہے۔
اپنے تو نہ ہاتھ باگ پر تھے نہ پا ہی رکاب میں، بحر ظلمات بھی میسر نہ تھا۔ بس چپو تھے، وہ بھی چاند کے ہاتھ میں، جن کی مدد سے وہ راوی کا سینہ چیرتے بارہ دری کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔ اس روز موسم کی وہی حالت تھی جو اپنے ہاں سیاست کی ہے۔ یعنی دھوپ دھندلی دھندلی تھی اور حبس بے جا۔ راوی بھی سر نیہوڑائے بہتا جا رہا تھا، لگتا تھا اس پر بھی فائر وال لگ چکی ہے۔ دریائے راوی کا پھیلاؤ تو ہمارے اہل اختیار کی اناؤں جیسا دراز ہے، لیکن اس میں پانی کی مقدار بھی ان کے ظرف جتنی ہی ہے۔ یعنی بہت کم۔
سوہنی نے مہینوال کو ملنے کے لیے گھڑے پر چناب پار کیا تھا۔ دریا پار کرتے جب وہ ڈوبنے لگی تب اس کے علم میں آیا کہ گھڑا تو کچا ہے۔ کچے گھڑے نے سوہنی کے پختہ ارادے پانی میں ملا دیے تھے۔ مہینوال کے بجائے اس کی ملاقات موت سے ہو گئی تھی۔ چاند کی خستہ حال کشتی میں بیٹھے بیٹھے بار بار سوہنی اور اس کے کچے گھڑے کا خیال آتا رہا۔ لیکن چونکہ بھارت نے پانی روک رکھا ہے اس لیے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ کچھ یہ بھی سوچا کہ کسی کی جھیل آنکھوں میں ڈوبنے کی خوب مشق ہے، راوی میں ڈوبنے کا امکان ہوا تو ہاتھ پاؤں مار ہی لیں گے۔
ملاح نے جہاں اتارا، وہاں سے کامران کی بارہ دری تک ذرا سی چڑھائی تھی۔ اسے عبور کیا تو سامنے ایک پرشکوہ عمارت کھڑی تھی۔ کہتے ہیں یہ لاہور میں عہد مغلیہ کی تعمیر کردہ ابتدائی شاہی عمارت تھی۔ کبھی یہاں بادشاہ کی اجازت کے بغیر پرندہ بھی پر نہ مار سکتا ہو گا، آج ملک کے طول و عرض سے آنے والوں نے یہاں کی دیواروں پر اپنے آنے کی تاریخ، فون نمبر، اور محبوب سے ہمیشہ ساتھ نبھانے کے وعدے لکھ رکھے ہیں۔
بر صغیر میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد شہنشاہ ظہیر الدین بابر نے رکھی تھی۔ بابر کے بعد بادشاہت ایک بیٹے ہمایوں کے ہاتھ میں آئی تو بابر کا ہی ایک اور بیٹا کامران مرزا لاہور کا حکمران بنا۔ تبھی کامران مرزا نے لاہور سے باہر دریائے راوی کی دوسری جانب ایک باغ لگوایا اور اسی باغ کے وسط میں بارہ دروازوں والی یہ عمارت بنوائی۔
سمندر پار جائیدادیں بنوانے کا چلن تو آج آیا ہے، تب کے شہنشاہ دریا پار جائیدادوں پر ہی گزارا کر لیا کرتے تھے۔ اس بارہ دری میں بیٹھ کر کامران مرزا دریائے راوی کا نظارہ کرتے ہوں گے لیکن اسی بارہ دری نے ایک خوف ناک نظارہ بھی دیکھ رکھا ہے۔
وہ قصہ کہنے سے پہلے کچھ تاریخ۔
ہمایوں کے دور میں کامران مرزا نے یہ بارہ دری بنوائی۔ ہمایوں کے بعد بادشاہت ہمایوں کے بیٹے جلال الدین محمد اکبر کے پاس آئی۔ ستائیس سال کی عمر تک اکبر کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ ان کے کوئی اولاد نہ تھی۔ پھر انہوں نے پیر سلیم چشتی سے دعا کرائی تو شہزادہ سلیم پیدا ہوئے جو شہزادہ جہانگیر بھی کہلائے۔ منتوں سے مانگے گئے اسی بیٹے جہانگیر نے اقتدار کی بھوک میں اپنے باپ اکبر کے خلاف بغاوت بھی کی۔ کئی دفعہ مانگ کر لائے گئے اور نازوں سے پالے گئے بھی باغی ہو جایا کرتے ہیں۔ بغاوت ناکام ہوئی، اس کے باوجود شہزادہ جہانگیر، جلال الدین محمد اکبر کے جلال سے بچ گئے۔ دونوں کے تعلقات بہتر ہوئے تو اکبر نے شہزادہ جہانگیر کو ہی اپنا جانشین نام زد کیا۔ جب اکبر کے بعد جہانگیر بادشاہ بنے تو تاریخ نے خود کو جزوی طور پر دہرایا۔ جزوی طور پر یوں کہ جہانگیر کے بیٹے خسرو نے بھی ان سے بغاوت کر دی۔ لیکن جہانگیر نے خسرو کے ساتھ وہ نہ کیا جو اکبر نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ شاید جہانگیر سیکھ چکے تھے کہ باغیوں کو چھوڑ دینا حماقت ہوا کرتی ہے۔
باغی خسرو کو پکڑا گیا تو ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے اسی بارہ دری لایا گیا۔ بغاوت کی سزا کے طور پر شہنشاہ جہانگیر نے اپنے بیٹے خسرو کی آنکھیں نکالنے کا حکم دیا اور خسرو کے تمام ساتھیوں کو سزائے موت سنائی۔ یہاں شہنشاہ جہانگیر سے ایک جملہ منسوب کیا جاتا ہے۔ اُس وقت کے بادشاہ نے کہا تھا کہ بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔ ہائے! بادشاہت سب کچھ دے دیتی ہے لیکن رشتے چھین لیتی ہے۔ جہانگیر نے اپنے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کو بغاوت کی کڑی سزا دی۔ کہتے ہیں کہ کامران کی بارہ دری سے لے کر لاہور کے قلعہ تک کے راستے میں خسرو کے تین سو ساتھی پھانسی پر لٹکائے گئے۔ انہی کے درمیان سے گھسیٹ کر خسرو کو لاہور قلعہ لے جایا گیا اور نابینا کر دیا گیا۔ بعد میں لاہور کے قلعہ میں ہی خسرو کی موت ہوئی۔ بغاوت کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ کامیاب ہو جائے تو تخت مل جاتا ہے، ناکام ہو تو تختہ۔ اور جو اکبر جیسا باپ مل جائے تو باغی بیٹے کو چھوٹ بھی مل جایا کرتی ہے۔
واپسی پر دریائے راوی نے مجھے ایک پتے کی بات بتائی، اس نے کہا تھا۔ موسم جبر کا ہو یا صبر کا ، آخر کو بدل ہی جایا کرتا ہے۔ اختیار والے چلے جاتے ہیں، پیچھے رہ جانے والی یہ عمارتیں بتاتی ہیں کہ اختیار کی مدت طویل ہو بھی جائے، لامحدود نہیں ہوا کرتی۔
- کامران کی بارہ دری سے دریائے راوی کا پیغام - 27/08/2024
- ہیری بھائی، نہ کریں - 16/01/2020
- لیدر جیکٹ والی میری بیٹی! سلامت رہو - 21/11/2019
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).