ماضی کی سہانی یاد والی پرانی ہٹ فلمیں انڈین سنیما پر پھر سے کیسے دھوم مچا رہی ہیں؟

میرل سباستن اور شرنیہ رشی کیش - بی بی سی نیوز


26 سالہ ذکیہ رفیقی نے جب یہ سنا کہ سنہ 2018 کی بالی وڈ کی فلم لیلیٰ مجنوں رواں ماہ پھر سے سنیما پر ریلیز کی جا رہی ہے تو وہ یہ جانتی تھیں کہ وہ دوبارہ اس فلم کو دیکھیں گی۔

ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2018 میں سنیما میں اس فلم کو دیکھنے کے لیے چند لوگ ہی موجود تھے مگر اس بار پہلے سے کہیں زیادہ لوگ اس فلم کو دیکھنے کے لیے سینیما ہال میں موجود تھے۔

ذکیہ رفیقی جو اپنی بہن کے ساتھ نئی دہلی کے ایک سنیما میں اس فلم کو دیکھنے گئی تھیں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ اس فلم کو دیکھ کر ہنس رہے تھے اور چلا رہے تھے۔

ذکیہ رفیقی کا کہنا ہے کہ ان کا اس فلم جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں محبت کی ایک کہانی پر مبنی ہے کے ساتھ جذباتی لگاؤ ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ایک بڑی سکرین پر اپنے گھر کا ایک حصہ دیکھنا بہت اچھا لگا۔ جب وہ کشمیر کی گلیوں سے گزر رہے تھے تو آپ کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ آپ بھی وہیں ہیں۔

لیلیٰ مجنوں فلم کی کہانی معروف فلم میکر امتیاز علی کی ہے۔ جب پہلی بار یہ فلم ریلیز ہوئی تو باکس آفس پر بمشکل ہی یہ کوئی سنسنی پیدا کر سکی مگر دوبارہ ریلیز پر اس فلم نے اچھا بزنس کیا۔

یہ انڈیا کی ان درجنوں فلموں میں سے ایک ہے جن میں سے کچھ دو دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے قبل بنائی گئی ہیں اور اب انھیں نئی پہچان مل رہی ہے کہ لوگ اب سنیما پر ان کو دیکھ رہے ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے جب سنیما کئی ماہ تک ٹھپ ہو گئے تو دنیا بھر کی طرح انڈیا کی فلم انڈسٹری میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا۔ اس عرصے میں فلم دیکھنے کے لیے لوگوں کی بڑی تعداد نے سٹریمنگ سروسز کا رخ کیا۔ اب تک لوگ پھر سے اپنے معمول پر واپس نہیں آئے۔

تجزیہ کار کومل نہتا کہتے ہیں کہ یہ سال نئی بالی وڈ فلموں کے لیے برا ثابت ہوا ہے۔

بالی وڈ میں زیادہ ہندی فلموں کا راج ہے۔ اب باقاعدگی سے بالی وڈ کی نئی نئی فلمیں آ رہی ہیں مگر لوگوں کو یہ کہتے سننا اب ایک عام سی بات ہے کہ ہم بجائے سنیما جانے کے کچھ انتظار کے بعد اس فلم کو نیٹ فلکس اور ایمازون پرائم ویڈیو پر دیکھ لیں گے۔

کچھ فلمیں ابھی بھی سنیما پر خوب دیکھی جا رہی ہیں۔ ہندی کی ایک ’ہورر-کامیڈی‘ فلم ستری ٹو اس وقت سنیماؤں کی زینت بنی ہوئی ہے جس نے چار ارب روپے کا کاروبار کیا ہے۔ ابھی تک مقامی طور پر یہ انڈیا کی سب سے زیادہ بزنس کرنے والی فلم بن چکی ہے۔

مجموعی طور پر کالکی 2898 اے ڈی، جس میں انڈیا کے بڑے سٹارز نے کام کیا، کے بعد یہ یہ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ہٹ فلم تھی۔

اس سال باکس آفس پر بڑے سٹارز کے ساتھ انتہائی متوقع فلمیں دیکھنے کو ملی ہیں جو اس صنعت کے نایاب روشن باب کو ظاہر کرتی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا کی فلم انڈسٹری میں فلم دیکھنے کے رواج یا عادت میں تبدیلی کے ساتھ مسلسل تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس سال اب تک کی ٹاپ 10 فلموں میں جنوبی ریاست کیرالہ کی تین فلمیں شامل ہیں، جہاں بجٹ نسبتاً کم ہوتا ہے۔

لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ فلم کے ’ڈسٹریبیوٹرز‘ اور ’ویورز‘ دونوں ہی اپنی آسانی تلاش کر رہے ہیں۔

دوبارہ ریلیز ہونے والی فلموں کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ان فلموں کے انتخاب کے پیچھے کوئی واضح فارمولا نہیں ہے۔

اس برس بالی وڈ نے جو فلمیں ریلیز کی ہیں ان کا تعلق مختلف جنریشنز سے ہے۔ اس میں 90 کی دہائی بظاہر ایک فیورٹ دہائی کے طور پر دیکھی جا رہی ہے جس میں محبت کی کہانی پر مبنی رومانوی فلمیں ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ اور ’ہم آپ کے ہیں کون‘ اور ایکشن فلمیں ’میں کھلاڑی تو اناڑی‘ اور ’بازی گر‘ کو بھی پھر سے ریلیز کیا گیا۔

حالیہ برسوں میں ہٹ فلموں میں ’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘ اور ’جب وی میٹ‘ بھی دوبارہ لوگوں کا رخ سنیما کی طرف کر رہی ہیں۔

تیلگو

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لیلیٰ مجنوں کی کامیابی ایک بہت بڑی حیرت والی بات تھی۔ فلم میکرز کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر اس بات پر خوش ہیں کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ناظرین اب اس فلم کو سنیما پر دیکھ سکیں گے، جہاں سنیما ہال 2022 میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے کے بعد کھلے ہیں۔

کومل نہتا کا کہنا ہے کہ اس فلم نے ابھی اپنی قیمت پوری کر لی ہے یا اپنے خسارے کو کم کر دیا ہے جو دوسروں کے لیے اب ایک پیغام ہے کہ وہ دیکھیں کہ کیا وہ بھی اپنی پرانی فلمیں دوبارہ ریلیز کر کے منافع کما سکتے ہیں۔

بالی وڈ کے ایک تجزیہ کار تارن ادارش کا کہنا ہے کہ یہ دوبارہ ریلیز نئی فلموں کی کمی اور باکس آفس پر ناقص کارکردگی کو پورا کر رہی ہیں۔

ان کے مطابق دوبارہ ریلیز میں بہت کم یا کوئی پروموشن نہیں ہوتی۔ پوسٹرز صرف ٹکٹ بکنگ سائٹس پر سامنے آ جاتے ہیں یا سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہیں۔ ’یہ خالصتاً پرانی سہانی یادوں یا ایک ایسی فلم کے لیے سامعین کی محبت کی وجہ سے دیکھی جا رہیں۔

تامل اور تیلگو فلموں کی دوبارہ ریلیز زیادہ سٹارز پر مبنی رہی ہیں۔

حالیہ ویڈیوز میں تیلگو سپر سٹار چرن جیوی کے مداحوں کو سنیما گھروں میں ان کی 2002 کی ہٹ فلم اندرا کے ایک ہٹ گانے پر رقص کرتے دکھایا گیا ہے۔ پون کلیان کی فلم گبر سنگھ 2012 اگلے ہفتے ریلیز ہونے والی ہے۔ تامل میں وجے کی ’گلی‘ 2004 اپریل میں کھچا کھچ بھرے ہالوں میں دیکھی گئی۔

جنوبی انڈیا کی فلمی صنعتوں پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار سریدھر پِلائی کا کہنا ہے کہ ’یہ عام طور پر کسی سپر سٹار کی فلم ہوتی ہے جس کا ستارہ 20 سال پہلے ہی ابھر رہا ہو یا ایسی فلم جو پہلے ہی ہٹ ہو چکی ہو۔‘

ان کے مطابق ’اس کی بنیاد ماضی کی یادیں اور ایک ایسے اداکار سے ہے جو آج ایک بڑا سٹار ہو۔ ملیالم سپر سٹار موہن لال کے پاس ایسی دو فلمیں ہیں۔۔ ’دیودوتھن‘ 2000 اور ’مانی چتھراتھازو‘ 1993 فی الحال کیرالہ میں سنیما گھروں میں چل رہی ہیں۔ اتفاق سے دونوں ہی ’ہورر‘ یعنی ڈراؤنی فلمیں ہیں۔‘

سریدھر پِلائی کا کہنا ہے کہ مانیچتھراتھازو نے پہلی بار ریلیز ہوتے ہی باکس آفس کے ریکارڈ توڑ دیے تھے، شاید جنوبی انڈیا میں دوبارہ ریلیز ہونے والی یہ سب سے بڑی ’کامیابی کی کہانی‘ ہے۔ یہ ایک مشہور فلم ہے۔ جب اسے ریلیز کیا گیا تھا تو پھر اس کی خوب دھوم مچی اور اب یہ نوجوانوں کی توجہ بھی حاصل کر رہی ہے۔ ان کے مطابق ایسا بھی ہوتا ہے کہ سیکوئل کا امکان پہلی فلم میں دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔

کومل نہتا کا کہنا ہے کہ پچھلے سال 2001 کی فلم ’غدر: ایک پریم کتھا‘ نے سنیما گھروں میں خوب دھوم مچائی اور اس کا سیکوئل غدر 2 زبردست ہٹ ہوا۔ لیکن اس سال کمل ہاسن کی فلم ’انڈین‘ کی دوبارہ ریلیز میں ایسی کامیابی نہ مل سکی کیونکہ اس کا سیکوئل انڈین ٹو اچھی پرفارمنس نہیں دکھا سکا۔

اس سوال تو یہی ہے کہ لوگ ایسی پرانی فلموں پر پیسے کیوں خرچ کر رہے جو اب سٹریمنگ پلیٹ فارمز پر بھی دستیاب ہیں۔

تارن ادارش کا کہنا ہے کہ ’آپ آن لائن فلم دیکھنے کا موازنہ تھیٹر میں فلم دیکھنے سے نہیں کر سکتے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ گھروں سے نکل کر اس طرف کا رخ کرتے ہیں۔‘

شروتی زیند بھی اس بات سے متفق ہیں۔ پونے سے تعلق رکھنے والی 30 برس کی شروتی نے گذشتہ برس سے دوبارہ ریلیز ہونے والی دو فلمیں دیکھ لی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ محض فلم کو اس کی کہانی کے لیے دیکھنے کے بجائے آپ ایک گروپ کی صورت میں ایسے لوگوں کے ساتھ ایسی فلموں کو دیکھتے ہیں جو ان سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق لوگ کسی سین یا ڈائیلاگ آنے سے قبل ہی اپنا ردعمل دینا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہوتا کہ اب آگے کیا آنے والا ہے۔

شروتی اب تیلگو سپرسٹار نگرجونا کی 2004 کی فلم ’ماس‘ کو اب بڑے سکرین پر دیکھنے کے لیے بیتاب ہیں۔

لیکن دوبارہ ریلیز کے بارے میں ان کی حتمی رائے پریشان فلم سازوں کو امید دلائے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں سال میں ایک یا دو دوبارہ ریلیز ہونے والی فلمیں دیکھ سکتی ہوں۔ لیکن اس کے بعد میں ایک نئی فلم دیکھنا چاہوں گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33788 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments