ہمارے گناہوں کی سزا کب ختم ہو گی (جوابی کالم)


حال ہی میں مکرمی یاسر پیرزادہ کا کالم پڑھا جو پچھلے دنوں ملک میں ہوئے پے در پے ٹریفک کے حادثات، دہشت گردی کے واقعات اور ان پر مستزاد آئی ایم ایف سے قرض نا ملنے کی روداد، چشم پرنم اور دل پُر غم لیے یہ سوال دہراتے نظر آئے کہ خدایا یہ کون سے گناہوں کی سزا ہے جو ختم ہونے کو نہیں آ رہی۔ میں ان کے زخم دل پر نمک پاشی تو نہیں کرنا چاہتا، لیکن سوچتا ہوں کہ تال سے تال ملے گی تو شاید دھن کا مزہ بھی دو چند ہو جائے یا ہم اور عندلیب جب مل کر آہ وزاریاں کریں تو شاید محبوب کے کان پر بھی کوئی جوں رینگے۔ اسی تناظر میں عرض ہے کہ ایران نے ایک معاہدے کے تحت گیس پائپ لائن نا بچھانے پر پاکستان کے خلاف اٹھارہ ارب ڈالر ہرجانے کا دعوی دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس بابت پچھلے دنوں پاکستان کو باضابطہ طور پر آگاہ بھی کر دیا ہے۔

اب آئیے آپ کو اس گناہ سے متعارف کرائیں جس کی تمام تر تفصیلات تو شاید یہاں ممکن نا ہوں لیکن کچھ مثالیں اس بات کا شافی عندیہ دے دیں گی کہ اس گناہ کی موجودگی میں اس کی سزا بھی تا ابد جاری و ساری رہے گی۔ اس لیے کہ قدرت نے آج تک اپنا قانون کسی قوم کے لیے نہیں بدلا اور نا ہی تا ابد بدلے گی۔ وہ ایک گناہ ہے ریاستی نظم کی عدم فعالیت۔ آپ شاید یہ سوچیں گے کہ ایک تو اتنی پیچیدہ اصطلاح اور پھر یہ ایک گناہ بھی ہے؟ ہمارے گناہوں کی فہرست تو چوری چکاری، ڈاکا زنی یا زنا و ریا سے ہوتی عورت کی بے پردگی پر ختم ہو جاتی ہے یہ کون سا گناہ ہے جس کا نام اتنا پیچیدہ ہے؟ اور یہ کہ ہم نے تو کبھی دیدہ و دانستہ اس کا ارتکاب بھی نہیں کیا۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ گناہوں کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک وہ کہ جن کی سزا آخرت میں ملے گی اور جن کو ہم مزید حقوق اللہ اور حقوق العباد کے نام سے عبارت کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے گناہ وہ ہیں جن کا صلہ اس دنیا ہی میں سامنے آنا لازم ہوتا ہے اور وہ اس لیے کہ وہ کسی قانون فطرت کہ خلاف اقدام یا اس کی موافقت کے لیے عدم اقدام ہوتا ہے اور فطرت اپنے خلاف کسی اقدام یا بوقت ضرورت عدم اقدام پر سزا نا دے، یہ ناممکن ہے۔ اس سے پہلے کہ بحث مزید کسی فلسفیانہ دلدل میں اتر جائے ہم ان گناہوں کو کچھ مثالوں سے واضح کیے دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر ایک انسان یہ نا جانتے ہوئے کہ آگ جلائے گی، جلتی آگ میں ہاتھ ڈال دے تو آگ یہ نہیں پوچھے گی کہ ”حضور آپ جانتے نہیں میرا کام جلانا ہے؟ میں خبردار کرتی ہوں، آئندہ جلا دوں گی“ ۔ بلکہ آگ اپنا فطری کام کرے گی اور جلائے گی۔ یعنی کہ قانون فطرت آپ کی غفلت، لاعلمی یا خطرے کی صورت میں عدم اقدام کا فائدہ کبھی نہیں دے گا۔ اسی طرح سیلاب بلا تخصیص انسانوں اور حیوانوں کو بہائے گا، بارش ہو گی تو پانی آئے گا، اور بارش ہو گی تو اور پانی آئے گا (یہاں آپ بلاول کا مسکراتا چہرہ خود ہی متصور کر لیں) ، بجلی کا شارٹ سرکٹ آگ اور اس سے منسلک ہلاکتوں اور ریکارڈ کی تلفی کا موجب بنے گا، رات کے اندھیرے میں گلی یا سڑک کا کھلا ہوا مین ہول کسی راہگیر کی جان لے گا، گاڑی کی ناکارہ بریک یا گھسا ہوا ٹائر ایکسیڈنٹ کا موجب بنے گا، زلزلہ آئے گا تو کمزور عمارتیں زمین بوس ہوں گی اور ان عمارتوں میں مقیم افراد لقمہ اجل بنیں گے، تعلیم کی کمی جاہلیت کو فروغ دے گی، جاہلیت شدت پسندی پر مائل کرے گی، وسائل کی غیر منصفانہ بندر بانٹ محرومی اور اس سے جڑی نفرت کو جنم دے گی، اسی نفرت کو دشمن اپنے فائدے اور آپ کے نقصان کے لیے استعمال کرے گا، ریاستی اداروں کی بے عملی یا غیر موجودگی افراتفری اور انارکی پیدا کرے گی، اور اس انارکی کا فائدہ اٹھاتے جرائم پیشہ افراد جرائم کا ارتکاب کریں گے، کسی بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری نا کرنے کی صورت میں دوسرا فریق ثالثی عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ لے کر جائے گا، اس کے نتیجے میں آپ کو جرمانہ دینا ہو گا اور اس دوران اقوام عالم میں سبکی و شرمندگی سے واسطہ بھی پڑے گا و علیٰ ہذا القیاس۔

ذیل میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ریاستی نظم کی عدم فعالیت کس طرح حالات کو اس نہج پر پہنچانے کا سبب بنتی ہے کہ جہاں نتائج ٹریفک حادثات، دہشت گردی یا کسی بین الاقوامی ثالثی عدالت میں سبکی و شرمندگی کے ساتھ ساتھ جرمانے تک کی صورت میں دیکھنے پڑتے ہیں۔

سب سے پہلے ٹریفک کے حادثات کو دیکھ لیجیے۔ ترقی یافتہ ملکوں نے ایسے ہی حادثات سے یہ سبق سیکھا کہ کوئی ادارہ ہونا چاہیے جو چھوٹی بڑی گاڑیوں کی تکنیکی انسپیکشن یا جانچ پڑتال کم سے کم سال میں ایک دفعہ کرے اور صرف اسی گاڑی کو سڑک پر آنے کا اجازت نامہ دے جو اس تکنیکی معیار پر پورا اترے۔ پاکستان میں بھی ایک ایسا ہی ادارہ اور اس سے متعلق تمام قوانین موجود ہیں تاہم باقی قوانین کی طرح یہ قانون بھی داخل دفتر ہے اور متعلقہ ادارہ صرف کاغذی خانہ پری میں مصروف ہے۔ حالت یہ ہے کہ اسلام آباد میں آپ چند ہزار روپے دے کر بغیر کسی تکنیکی جانچ پڑتال کے اپنی گاڑی کے لیے یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ چاہے گاڑی کی بریکیں فیل ہونے کو ہوں یا ہو چکی ہوں، یا اس کے ٹائر گھس چکے ہوں، یا اس کی لائٹیں کام نا کر رہی ہوں، کچھ فرق نہیں پڑتا۔ بس ٹوکن فیس بھریں اور موج ماریں۔ کل کلاں جب بریک فیل ہونے یا ٹائر پھٹنے کی وجہ سے ایکسیڈنٹ ہو گا تو ہم کہیں گے کہ بس جی، جو اللہ کی مرضی، موت آنی تھی سو آ گئی وغیرہ وغیرہ۔ اس ادارہ جاتی غفلت کے ساتھ ساتھ عوام بھی کوئی کم قصور وار نہیں۔ یہاں جس کے پاس تھوڑی بڑی گاڑی ہے وہ سڑک کا بادشاہ ہے۔ وہ تمام قوانین سے مبرا اپنی گاڑی کو مصروف سڑک پر پانچویں گیئر میں چلانا اپنا حق سمجھتا ہے۔ جب کہ بہت سے لوگ اب تک سیٹ بیلٹ باندھنے یا ہیلمٹ پہننے کو اپنی ہتک خیال کرتے ہیں۔ نمبر پلیٹ کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ جس کا جو دل کرے، جس رنگ میں چاہے اپنی مرضی کے فونٹ کے ساتھ نمبر پلیٹ بنائے، اور اپنی گاڑی پر لگا لے۔ ریاست کو یا اس کے اداروں کو کوئی پرواہ نہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی بڑی گاڑیوں کی لمبے سفر پر روانگی سے قبل تکنیکی جانچ پڑتال لازم ہے جو ہر ایسی کمپنی، جو اس کاروبار میں ملوث ہے، کے ایس او پیز میں شامل ہے۔ اسی طرح سڑک پر بنی لائنیں یا ٹریفک لائٹس کا نظام، بارش اور طوفان کی صورت میں مسافروں اور ڈرائیور حضرات کو خبردار کرنے کا طریقہ کار۔ سپیڈ کیمرے اور جرمانے ارسال کرنے کے لیے درکار پوسٹل سروس، یہ سب اسی ایک نظام کے مختلف کل پرزے ہیں جس پر روڈ سیفٹی کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ ایسا نہیں کہ میں ترقی یافتہ اقوام کی مثال دے کر آپ کو مرعوب کرنا چاہتا ہوں بلکہ یہاں مدعا یہ ہے کہ ایک قوم جب کسی مسئلہ سے دوچار ہوتی ہے تو وہ اس کا دیر پا حل تلاش کرتی ہے۔ اس حل کے لیے وہ کچھ قوانین بناتی اور ان قوانین کو لاگو کرنے کے لیے متعلقہ ادارے کھڑے کرتی ہے یا دوسرے الفاظ میں نظام بناتی ہے۔ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان قوانین، متعلقہ اداروں اور ان کے نظام میں بہتری لاتی رہتی ہے۔ اور جہاں ضرورت پڑے مزید ادارے بناتی ہے۔ یہ ادارے خود کار طریقے پر کام کرتے ہیں اور ریاست صرف اسی صورت میں مداخلت کرتی ہے جب یہ اپنا کام صحیح طریقے پر انجام نا دے رہے ہوں۔ یہ فطرت کی ضرورت ہے اور یہی ترقی کا راستہ۔ اگر اس راستے کو نہیں دیکھنا، اس پر نہیں چلنا، حادثے کی صورت میں متعلقہ ادارے سے باز پرس نہیں کرنی، نظام کو بہتر نہیں بنانا تو ہر حادثے کے بعد دلی افسوس کا اظہار کرتے، لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کرتے اور ورثا کے لیے امداد کا اعلان کرتے ہوئے دائرے کا سفر جاری رکھیں اور اپنے کیے ہوئے گناہوں کی سزا بھگتتے رہیں۔

زیر نظر دوسرا بڑا مسئلہ دہشت گردی کا عفریت ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس عفریت کو پالنے میں ہم نے پچھلی کئی دہائیاں صرف کی ہیں خواہ وہ روس کی افغانستان میں موجودگی کے دوران ہوں یا افغانستان میں امریکہ کی موجودگی کے دوران۔ تاہم اس کے تانے بانے بھی ہماری ادارہ جاتی بے عملی سے اسی طرح جڑے ہیں جس طرح کسی درخت کی شاخیں اس کے تنے سے جڑی ہوتی ہیں۔ اور وہ ایسے کہ دہشت گردی کے لیے زرخیز زمین ہم نے ملک کے شمال مغربی اور جنوب مغربی علاقوں میں تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات نا پہنچا کر پہلے سے تیار کر رکھی تھی۔ دشمنوں نے تو صرف آ کر بیج بوئے اور وقتاً فوقتاً اس کی آبیاری کرتے رہے کیوں کہ یہ ان کے کرنے کا کام ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ موقع پاتے ہی یہ عفریت سر اٹھاتا اور جزوقتی امن و امان کے قصر کو ، جو ہمارے بڑوں نے صرف باتوں کے زور پر تعمیر کیا ہوتا ہے، ایک لمحے میں زمیں بوس کر دیتا ہے اور پیچھے اس کے کھنڈرات پر مذمت کرتے اقتدار و اختیار کے پجاری اپنے زخم چاٹتے اور ٹسوے بہاتے رہ جاتے ہیں۔ وہ قوم کے ساتھ نئے عہد و پیمان باندھتے اور وعدے وعید سناتے اسی دائرے کے سفر پر پھر سے گامزن ہو جاتے ہیں جو دہشت گردی کے سبب کچھ دیر کو رک گیا ہوتا ہے۔

ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ان علاقوں میں روز اول سے ریاستی عملداری سول سروسز کے اداروں، تعلیم گاہوں، ہسپتالوں، ٹیکس آفس، ڈاکخانوں، پولیس اسٹیشن، عدالتوں اور رابطہ سڑکوں وغیرہ کی تعمیر کے ذریعے فعال کی جاتی مگر یہ ہماری ترجیحات کا کبھی بھی فوکس نہیں رہا۔ یہاں کا ہر کرتا دھرتا یا تو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ان علاقوں کے سرداروں اور وڈیروں کے ہاتھ وہاں کے غریب عوام پر اور مضبوط کرتا قبر میں جا پہنچا اور یا پھر جزوقتی منصوبوں سے تعریف کے ڈونگرے وصول کرتا اقتدار و اختیار سے الگ ہو گیا۔

اسی سے جڑا ایک مسئلہ لوگوں کا ایک شہر سے دوسرے شہر بلا کسی روک ٹوک اور ریکارڈ ہجرت بھی ہے۔ بڑے پیمانے پر یہ ہجرت روس کی افغانستان میں جنگ کے دوران ہوئی جس وقت لاکھوں کی تعداد میں افغان ملک کے طول و عرض میں عوام کے ساتھ یوں گھل مل گئے کہ نا کوئی بندہ رہا اور نا کوئی بندہ نواز۔ ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ان کی رجسٹریشن کا باقاعدہ عمل ہوتا، ان کے رہنے کے مکان، ان کے اتا پتہ اور کاروبار کا ریکارڈ رکھا جاتا وغیرہ وغیرہ۔ مگر جہاں ملک کے اپنے لوگوں کا کوئی ایسا مربوط ریکارڈ نا ہو وہاں باہر سے آنے والوں کا ریکارڈ تو بعید از قیاس ہے۔

یہاں صورتحال یہ ہے آپ آج بھی وفاقی دارالحکومت میں کسی مالک مکان سے معاملات طے کریں، اس سے کرائے پر مکان لیں اور رہنا شروع کر دیں۔ پسند نا آئے تو کچھ ماہ بعد کہیں اور مالک مکان سے معاملات کر لیں۔ یا دل کرے تو کسی جگہ دکان کھول کر یا ریڑھی لگا کر کاروبار کرنے بیٹھ جائیں۔ ریاست اس تمام معاملے سے بے خبر ہے اور بے خبر ہی رہنا چاہتی ہے کیوں کہ اگر اس نے ایسا کرنا ہے تو اس کے لیے سرکاری بابووں کو کوئی نظام بنانے کے لیے کام کرنا پڑے گا جو کہ ظاہر ہے کہ سب سے مشکل کام ہے۔ کہنے کو ایک قانون کرایہ داری موجود ہے مگر آج کل وہ قلم کو ہتھکڑی لگانے کے کام آتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ریاست آج تک ڈاک سروس کو ایک معیار تک پہنچانے اور تمام علاقوں کے گھروں کو ایک مقرر کردہ ایڈریس یا پتے کے فارمیٹ پر منتقل نہیں کر سکی اور نا ہی اس ملک کے کرتا دھرتوں کو ایسے کام کرنے سے کوئی دلچسپی ہے۔ انھیں تو بس ایسے کام کرنے ہیں جن پر تالی بج سکے یا واہ واہ کی آوازیں آئیں یا جس کے لیے اربوں کا بجٹ درکار ہو تا کہ اس میں سے اچھا کمیشن لے کر اپنی یا اپنے جاننے والوں کی چونچ گیلی کر سکیں۔

مکرمی یاسر پیرزادہ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی کو صرف اس بنیاد پر قتل کر دے کہ اسے اس کی قومیت پسند نہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے صرف یہ تصور کریں کہ ایک شخص بلوچستان کے کسی دور دراز علاقے کا باشندہ ہے جہاں نا تو سڑک ہے، نا پانی، نا سکول، نا کوئی ہسپتال اور نا پولیس کا وہاں سے گزر ہوتا ہے۔ یہ شخص اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ ایک کچے مکان میں رہتا ہے۔ اس کے بچے سارا دن ویرانے میں بکریاں چراتے یا اونٹ ہانکتے رہتے ہیں۔ ریاست کس بلا کا نام ہے اور ادارہ کیا اور کیوں ہوتا ہے اسے کچھ معلوم نہیں۔ ریاست کے وجود کا اظہار اداروں کی موجودگی سے ہوتا ہے اور ادارے وہاں موجود نہیں اس لیے ریاست عنقا ہے۔ لہذا یہ شخص ایک آزاد علاقے کا رہائشی ہے۔ اس شخص کو نا تو کبھی ریاست نے اون کیا ہے اور نا ہی وہ اپنی جہالت کے سبب ضمیر کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اسے نا تو یہ علم ہے کہ اللہ نے انسانی جان کو کیا حرمت عطا کر رکھی ہے اور نا ہی وہ مذہب سے کوئی خاص لگاؤ رکھتا ہے۔ اس صورتحال میں کچھ ملک دشمن عناصر اس سے رابطہ کرتے ہیں اور دس بیس لاکھ روپے کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس نے کرنا یہ ہے کہ کسی جگہ پہنچنا ہے اور کچھ افراد کو گاڑیوں سے اتار کر قتل کرنا ہے۔ وہ شخص ایسا کیوں نہیں کرے گا؟ اس سارے معاملے میں رنگ و نسل یا قومیت کا سوائے اس کے کہ وہ اخبارات کا پیٹ بھرنے اور ریاست کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے کام آئے، کوئی کردار نہیں۔

اب بتایے کہ اوپر دی گئی مثال میں کیا چیز خلاف فطرت ہے؟ سب کچھ فطری قوانین کے عین مطابق ہو رہا ہے۔ ملک دشمن اپنے کرنے کا کام کر رہے ہیں اور ایک مقامی کسی بھی ذاتی مفاد یا قومی عناد کی تسکین کے لیے ان کا آلہ کار بن کر معصوم لوگوں کو قتل کر رہا ہے۔ ریاست کے کرنے کام یہ تھا کہ اپنے تمام علاقوں میں اپنی ادارہ جاتی عملداری کو سڑکوں، سکولوں، ہسپتالوں ڈاکخانوں، پولیس سٹیشن، عدالتوں اور دوسرے فعال اداروں کے ذریعے یقینی بناتی اور کسی فرد کو لاوارث نا چھوڑتی مگر ریاست اپنا کام نا کر کے اسی فطرت کے خلاف ہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار کرتی رہی جو اپنے خلاف اقدام یا اس صورت میں عدم اقدام کبھی معاف نہیں کرتی۔ اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور وہی قیمت ہم ادا کرتے جا رہے ہیں۔ صورتحال تبھی تبدیل ہو گی جب ریاست اپنی ذمہ داری پورے اور احسن طریقے سے نبھانے پر جُت جائے گی۔ اور یہ ذمہ داری اوپر بیان کیے گئے ادارے بنانے اور مملکت کے ایک ایک فرد کو اون کرنے سے پوری ہو گی نا کہ چیک پوسٹس قائم کرنے اور رینجرز یا فوج کی تعیناتی سے۔

میری خواہش تھی کہ تیسرے معاملے یعنی پاک ایران گیس پائپ لائن پر بھی تفصیلی خامہ فرسائی کروں تاہم اوپر بیان کی گئی وجوہات، اس معاملے کی تفصیلات سے قطع نظر عین اپنی بنیادی نوعیت میں واضح ہیں۔ پائپ لائن کا معاملہ دہرا پیچیدہ اس لیے ہو گیا کہ ایک تو بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں ریاست اپنی عملداری کو یقینی نہیں بنا سکی اور دوسرا ایران اور امریکہ کی مخاصمت میں پاکستان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت تھی۔ تاہم یہ ناممکن نہیں تھا۔ آخر کو بھارت بھی تو چابہار میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ ہمارے جن کرتوں دھرتوں نے آج تک تمام بلوچستان میں سرکاری عملداری کو یقینی نہیں بنایا کہ اس کے لیے کام کرنا پڑے گا، ادارے بنانے پڑیں گے اور انھیں اختیارات دینے پڑیں گے اور عوام کو سہولیات دینی پڑیں گی، گیس پائپ لائن کے معاملے پر انھیں دو بہانے ہاتھ آ گئے۔ یعنی ریاستی عملداری کی عدم موجودگی اور پائپ لائن نا بچھانے کے لیے امریکی دباؤ۔ وہ کیا ہے کہ یک نا شد دو شد یا اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں۔

غرض نا تو اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے، نا کسی بیرونی سازش کی ریشہ دوانیاں، اور نا کسی کالے جادو کا اثر۔ جو وجوہات ہیں وہ واضح ہیں اور ان تمام مسائل کا حل بھی واضح ہے۔ مگر جس قوم کو دائروں میں سفر کی عادت ہو جائے، وقت کے بھنور میں غرقابی ہی اس کا مقدر ہے۔

ا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments