بلوچستان کی تحصیل بیلہ میں ایف سی کیمپ پر حملہ: ’ماہل بلوچ کو علاقے میں گاڑی چلاتے دیکھا گیا تھا‘

فرحت جاوید - بی بی سی نیوز


ایف سی کیمپ کے سامنے کالج کی عمارت
ایف سی کیمپ کے سامنے کالج کی عمارت جزوی طور پر تباہ ہو گئی ہے
بلوچستان کی تحصیل بیلہ کے رہائشی 21 سالہ سہیل (فرضی نام) سوموار کی رات گھر کے قریب ایک دکان سے کچھ سامان خریدنے گئے تھے۔ ابھی وہ دکان میں ہی تھے کہ ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ کچھ ہی لمحوں میں دوسرا دھماکہ ہوا۔

دھماکے کی آواز اتنی زوردار تھی کہ کئی کلومیٹر دور تک سنی گئی اور پھر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ رات سہیل نے اسی دکان کا شٹر ڈاؤن کر کے وہاں گزاری تھی۔ ان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ وہ اس قدر سکتے میں تھے کہ اگلے 24 گھنٹے وہ کسی سے بات نہیں کر سکے ۔

یہ دھماکے رواں ہفتے 25 اور 26 اگست کی درمیانی شب بیلہ بازار سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر اسی دکان کے قریب ایف سی کے کیمپ اور سابق ہیڈکوارٹر کے گیٹ پر ہوئے تھے۔

کالعدم تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ گروپ نے اس رات صوبے بھر میں دیگر کارروائیاں بھی کیں جن میں کم از کم 39 شہری ہلاک ہوئے۔

26 اگست کو موسیٰ خیل کے علاقے میں ہائی وے بلاک کر کے مسلح افراد نے گاڑیاں رکوائیں اور مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کیے۔ مسلح افراد نے ان میں سے 23 غیر مقامی مسافروں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

قلات ڈسٹرکٹ میں بھی کئی گھنٹے جاری رہنے والی لڑائی میں پانچ افراد ہلاک ہوئے جبکہ ضلع بولان سے بھی پانچ افراد کی لاشیں ملیں جنہیں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔

اسی رات ضلع مستونگ میں مسلح افراد نے ایک پولیس سٹیشن پر کئی گھنٹے قبضہ کیے رکھا اور وہاں موجود سرکاری ریکارڈ اور گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ اسی رات ضلع بولان میں ریلوے کے ایک پل کو دھماکے سے اڑا دیا گیا جس میں دو افراد ہلاک ہوئے۔

ان تمام حملوں کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی اور ایک بیان میں کہا کہ ان کا ہدف سکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔

لیکن ضلع لسبیلہ کی تحصیل بیلہ میں ہونے والا یہ حملہ ایسا تھا جس نے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چونکا دیا بلکہ یہاں کی مقامی آبادی میں بھی شدید خوف پھیل گیا۔

تاہم بیلہ میں ایف سی کے اس کیمپ پر ہونے والے حملے سے متعلق معلومات انتہائی محدود تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ اس واقعے کے گرد خاصی رازاداری رکھی جا رہی ہے۔

لسبیلہ میں اس رات کیا ہوا، یہ جاننے کے لیے ہم بلوچستان کی اس تحصیل پہنچے جہاں خودکش دھماکے اور ایک بڑی فوجی کارروائی کی گئی۔

بیلہ میں ایف سی کا کیمپ خودکش حملے کے بعد جزوی طور پر تباہ ہو گیا ہے

بیلہ میں ایف سی کیمپ کے گیٹ پر خودکش بمبار نے حملہ کیا

’میں سوچ رہا تھا فیملی کو میری لاش کس حالت میں ملے گی‘

ایف سی کا یہ کیمپ بیلہ کے مرکزی بازار سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک کچی سڑک پر واقع ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو گیٹ اور بیرونی دیوار مکمل طور پر تباہ تھی اور یہاں مزدور مرمت کا کام کر رہے تھے۔

ایف سی کیمپ کے اس گیٹ کے بالکل سامنے، سڑک کی دوسری طرف، بیلہ کے بوائز ڈگری کالج کا داخلی دروازہ ہے۔ کالج کی عمارت کے اندر رہائشی کمرے اور گھر بھی ہیں جہاں حملے کے وقت کالج کے پرنسپل سمیت سکیورٹی گارڈز، چند اساتذہ اور ان کے اہلخانہ موجود تھے۔

کالج کے عملے میں سے ایک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس رات حملے اور پھر فوجی کارروائی کے بارے میں بتایا:

’ایک دم زور کا دھماکہ ہوا اور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ کر گِر گئے۔ میں نے آج تک اتنی اونچی آواز نہیں سنی تھی۔ کچھ لمحوں تک میرے کان جیسے پھٹ گئے تھے۔ ابھی یہ سمجھ نہیں آئی تھی کہ ایک اور زوردار دھماکہ ہوا۔ مجھے لگا یہ دھماکے ہمارے کالج میں ہو رہے ہیں اور پھر فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہمارے اوپر سے گولیاں گزر رہی تھیں۔ کھڑکیاں، دروازے، شیشے اور چھت کی سیلنگ سب ٹوٹ کر ہمارے اوپر بکھرے ہوئے تھے۔ میں زمین پر سیدھا لیٹا رہا۔‘

ان کے مطابق وہ ساری رات فائرنگ کی آوازیں سنتے رہے اور ان کے جسم میں حرکت کی ہمت نہیں تھی۔

’مجھے زندہ باہر نکلنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہی میرا آخری وقت ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے بیوی بچوں کو میری لاش کس حالت میں ملے گی۔ مجھے یقین تھا کہ صبح ہونے سے پہلے مجھے کوئی گولی، کوئی راکٹ لگ جائے گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ صبح دس بجے کے قریب پولیس اہلکار کالج کی عمارت میں داخل ہوئے اور ان سمیت کالج کے دیگر عملے اور اساتذہ کے اہلخانہ کو وہاں سے نکالا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

بیلہ بوائز ڈگری کالج میں کلاس رومز کے کھڑکیاں اور دورازے بکھرے پڑے ہیں

دھماکوں کی شدت سے کالج سمیت اردگرد کی تمام عمارتوں میں کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹ گئے

اس کالج میں تمام کلاس رومز اور لیبارٹریز جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ ہر کلاس روم کے فرش پر شیشے بکھرے ہیں جبکہ دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ چکے ہیں۔

جب ہم یہاں پہنچے تو کیمسٹری اور بیالوجی کی لیبارٹریز کے دروازوں کی مرمت کی جا رہی تھی تاکہ یہاں موجود کیمیکلز محفوظ رکھے جا سکیں۔ کالج کا گیٹ اور بیرونی دیوار مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے جبکہ کالج میں تمام کلاسیں غیرمعینہ مدت کے لیے منسوخ کر دی گئی ہیں۔

خودکش حملہ آور کے زیراستعمال گاڑی کا کچھ حصہ ڈگری کالج کے ٹوٹے ہوئے گیٹ کے پاس اب بھی پڑا تھا۔

کالج کے سامنے ایف سی کیمپ کے باہر کی دیوار اور گیٹ بھی تباہ ہو گیا جبکہ کیمپ کے اندر دور تک تباہی کے نشان دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہاں فی الحال میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں جبکہ کیمپ کی بیرونی دیوار کی دوبارہ تعمیر کا کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ لسبیلہ بلوچستان کے قلات ڈویژن کا ضلع ہے اور اس کا شمار صوبے کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں امن و امان کی صورتحال یہاں کے دیگر علاقوں کی نسبت خاصی بہتر رہی ہے۔

سندھ کی سرحد پر ہونے کے باعث یہاں سندھی ثقافت حاوی ہے جبکہ بڑی مقامی زبان بھی سندھی ہی ہے لیکن یہ علاقہ بھی بلوچستان کے دیگر حصوں کی طرح انتہائی پسماندہ ہے۔ لسبیلہ میں لسانی بنیادوں پر تقسیم یا علیحدگی پسند تنظیموں کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

’ہم نے خود یہاں ماہل بلوچ کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھا‘

بیلہ کے اس بازار میں خواتین کم ہی دکھائی دیتی ہیں اور گاڑی چلاتی خاتون تو سرے سے نظر ہی نہیں آتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس بازار میں بہت سے لوگوں کو حملے کی شام گاڑی چلاتی خاتون دیکھ کر حیرت ہوئی تھی۔

تب انھیں اندازہ نہیں تھا کہ گاڑی چلاتی یہ خاتون ایک خودکش حملہ آور ماہل بلوچ ہیں جو کچھ ہی دیر میں ایک بڑا حملہ کریں گی۔

مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار کی شام انھوں نے بازار میں ’دو فور بائی فور گاڑیاں اور درجنوں موٹر سائیکل سواروں کو علاقے میں گردش کرتے دیکھا‘۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک شہری نے بتایا کہ یہاں ان سمیت کئی افراد نے ’ماہل بلوچ کو گاڑی چلاتے ہوئے بھی نوٹ کیا جو اس علاقے میں ایک انھونی سی بات ہے کیونکہ خواتین گاڑیاں نہیں چلاتیں۔‘

خیال رہے کہ ماہل بلوچ ان دو خودکش حملہ آوروں میں شامل تھیں جنھوں نے ایف سی کے اس کیمپ پر حملہ کیا تھا۔

مقامی شہریوں نے بی بی سی کو بتایا کہ گاڑیاں گیٹ سے ٹکڑا کر پھٹیں تو موٹر سائیکلوں پر سوار مسلح افراد کیمپ میں داخل ہوئے۔

’ان میں سے زیادہ تر موٹرسائیکل سوار کچھ دیر میں واپس چلے گئے تاہم کئی مسلح افراد وہیں موجود رہے۔ وہ کیمپ کے اندر چھتوں پر چڑھے اور وہاں سے راکٹ اور ہینڈ گرینیڈ اور فائرنگ کرتے رہے۔‘

خیال رہے کہ مقامی افراد کی جانب سے شیئر کی گئی ان معلومات کی سرکاری اہلکاروں نے تصدیق نہیں کی۔

’ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی بڑی جنگ کے میدان میں تھے‘

ایف سی کا یہ کیمپ اس سے قبل ایک تربیتی مرکز رہا ہے جسے بعد میں خضدار اور دیگر علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ اب یہ کیمپ ’ٹرانزٹ‘ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا جہاں وہ فوجی دستے کچھ دیر کے لیے رکتے ہیں جنھوں نے بلوچستان کے دیگر حصوں میں تعیناتی کے لیے پہنچنا ہو۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہیں موجود ایک اور شہری نے بتایا کہ مسلح افراد نے کئی گھنٹے یہاں قبضہ جمائے رکھا اور یہ کہ کیمپ میں فوجی اہلکاروں کی تعداد زیادہ نہیں تھی تاہم ان کے مطابق یہاں بعض اہلکاروں کے اہلخانہ بھی مقیم تھے۔

’اگلے روز سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بڑی تعداد یہاں پہنچی، بازار تو پہلے ہی بند تھے مگر ہر طرف یہ پیغام دے دیا گیا کہ کوئی بھی اپنے گھروں سے باہر نہ نکلے۔ جب سکیورٹی فورسز آئیں تو پھر دونوں جانب سے فائرنگ ہوتی رہی اور شام تک ایریا کلیئر کر دیا گیا۔‘

یہیں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مقامی سماجی کارکن سردار عبدالرحیم کہتے ہیں کہ وہ دن ان کے لیے ایسا تھا جیسے وہ کسی میدان جنگ میں ہوں۔

’اس رات میں ساڑھے دس بجے دفتر بند کر کے گیا تو ابھی کھانا کھا رہا تھا کہ دھماکوں کی آواز آئی۔ پھر اس کے بعد ہر طرف خوف پھیل گیا۔ بیوی بچے، سب خاندان خوفزدہ تھے۔ ہمارا علاقہ تو بہت امن پسند ہے۔‘

’خوف کا سماں تھا، بازار بند تھے، گلیاں سنسان تھیں۔ جگہ جگہ پولیس، فوج، ایف سی کے لوگ تعینات تھے۔ ابھی لوگوں میں خوف تو ضرور ہے کیونکہ یہاں لوگ بہت پرامن ہیں اور ایسی سرگرمیوں سے بہت دور رہتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’پہلی آواز ایک بڑے زوردار دھماکے کی تھی۔ پھر دوسرا دھماکہ ہوا، پھر تیسرا دھماکہ ہوا۔ تیسرے دھماکے کے بعد پھر فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں، کبھی دھماکے ہوتے جیسے ہینڈ گرینیڈ سے یا راکٹ پھینکنے سے ہوتے ہیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم بیلہ میں نہیں بلکہ کسی بڑی جنگ کے میدان میں تھے۔‘

ان دھماکوں کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ کیمپ کے قریب موجود گھروں میں بھی کھڑکیاں اور دروازے ٹوٹے۔ متعدد شہری زخمی ہوئے۔

یہیں کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ان کے گھر میں ایک خاتون زخمی ہوئی ہیں اور اب انھیں کراچی ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے تاہم انھوں نے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے پر بات نہیں کرنا چاہ رہے۔

ایک طرف جہاں بلوچستان میں بی ایل اے مضبوط ہو رہی ہے اور مقامی آبادی میں ’مزاحمت‘ بڑھ رہی ہے، اب صوبے میں خوف بھی پھیل رہا ہے اور لوگ آواز اٹھانے سے کترا رہے ہیں۔

لسبیلہ میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کئی شہریوں نے کہا کہ وہ ان حملوں سے متعلق کسی بھی قسم کی رائے نہیں دینا چاہتے کیونکہ ’ہم مرنا نہیں چاہتے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں دونوں جانب سے خوف ہے۔ دہشتگرد بھی ہمیں مار سکتے ہیں اور سکیورٹی فورسز بھی مار سکتی ہیں۔ پھر ہم کیوں بات کریں؟ بس ہم یہی کہیں گے کہ اللہ ہم پر رحم کرے اور جو ہو گیا یہاں دوبارہ کبھی نہ ہو۔‘

بیلہ بازار میں اب کاروبارِ زندگی دوبارہ بحال ہو رہا ہے۔ دکانیں کھل گئی ہیں اور ہر طرف موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کا شور ہے۔

یہاں بازار میں بنے کچی دیواروں والے چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کے باہر ایک بار پھر چارپائیوں پر لوگ بیٹھے ہیں۔ ان میں ادھیڑ عمر بزرگ بھی ہیں اور نوجوان بھی، ان کی باتوں کا مرکز فی الحال یہی حملہ ہے اور اس کے ساتھ جڑی طرح طرح کی افواہیں لیکن ایک سوال اور پریشانی سب کے چہرے پر عیاں ہے کہ کیا اب لسبیلہ بھی پرامن نہیں رہا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33788 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments