سندھ کو پھر ڈبویا جائے گا
سندھ کو ڈبونے کی تیاری عروج پر ہے، گناہ گار بارشیں ٹھہریں گی، سندھو میں طغیانی کو بھی قصور وار ثابت کر دیا جائے گا، کچھ الزام قدرت کے سر بھی داغے جائیں گے، آبپاشی، ریونیو، اور ڈزاسٹر منیجمنٹ میں بیٹھے فرشتوں متعلقہ منسٹری اور سرکار سلامت کا کوئی قصور نہیں، لیکن مجھ جیسے کچھ مورکھ انہیں نیک لوگوں کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔
یہاں خلق خدا پر موسم حرام کر دیے گئے ہیں، ہم مون سون سے محفوظ نہیں ہو سکتے، بارشوں کا لطف نہیں اٹھا سکتے، انتظامی نا اہلی نے بارشیں ہم پر عذاب کر دی ہیں پچھلے کچھ دنوں سے فیس بک پہ پڑھ رہا ہوں "مولیٰ رحم، مالک غریب کی جھگی کا خیال رکھیو“میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک غریب کے بھوکے بچوں اور جھونپڑی سے اللہ کی کیا دشمنی ہو سکتی ہے، بڑی فنکاری سے اپنی نا اہلی، نالائقی کو اللہ کی آزمائش، امتحان، عذاب یا قہر خدا میں کنورٹ کیا جاتا ہے۔
یہ عذاب یا کوئی امتحان نہیں مس منیجمنٹ ہے۔ یہاں سیلاب آتے نہیں، سیلاب پیدا کیے جاتے ہیں کیوں کہ سیلاب سے ہزاروں لوگوں کی روزی روٹی جڑی ہے، بل بنیں گے تو کچن چلے گا بیرونی ٹور ہوں گے، نئی گاڑیاں بھی تو ضروری ہیں اور پھر حج عمرہ کر کے ثواب بھی کمانا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ بہت سارے انسان سیلابوں کی وجہ سے دربدر ہو جاتے ہیں، بے گھر ہو جاتے ہیں، بھوک و افلاس کا شکار ہو جاتے ہیں، وہ ابھی پچھلے سیلاب کی تباہ کاریوں کے قرض نہیں چکا پائے ہیں کچھ اور سالوں کے لئے مزید مقروض ہوجائیں گے، مگر ان کو پوچھتا کون ہے، وہ ہیں کون، ان کی اوقات کیا ہے، جلسوں میں نظر آنے والی محض ایک بھیڑ۔ بریانی کی پلیٹ پہ نعرے لگانے اور تالیاں بجانے والا ہجوم، امدادی راشن کی لمبی قطاروں کو پر کرنے والی مخلوق، سیٹھ سردار وڈیرے جاگیردار کی خوشامدانہ ریلیوں میں جیے جیے کے فلک شگاف نعرے لگانے والی بے نام خلقت، وہ جب اپنے ہی خیر خواہ نہیں تو کوئی اور ان کا خیر خواہ کیوں کر بنے گا۔وہ بھوک مفلسی، غربت، آفات، تنگدستی بھگتنے کے لئے دنیا میں آتے ہیں اور جاتے وقت اپنے جیسے پانچ سات کو وراثت میں یہ ساری اذیتیں دے جاتے ہیں۔
صحافی حضرات اپنی رپورٹنگ کو سنسنی خیز کرنے کے لئے واقعے کو اس کی حقیقت سے دوگنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں، وہ خبر جب نیوز ڈیسک پر پہنچتی ہے تو اس میں مزید مسالے اور سنسنی بڑھائی جاتی ہے، آخر اخبار نے بکنا بھی ہے، نیوز چینل نے چلنا بھی ہے، کراچی والے 2010 کی وہ رات کبھی نہیں بھول سکتے جو میڈیا کی سنسنی کی وجہ سے آدھے کراچی نے جاگ کر گزاری تھی، جس کے بعد سنجیدہ حلقوں میں الیکٹرانک میڈیا اور ذمے دارانہ صحافت پر بحث چھڑ گئی تھی۔ سب سے پہلے میڈیا اپنی سنسنی خیز خبروں سے سیلاب یا کوئی بھی رونما ہونے والا سانحہ ڈکلیئر کر دیتا ہے، سونے پہ سہاگے کا کام فیس بکی دانشور اور عطائی صحافی کرتے ہیں، جو پانی کے جوہڑوں میں اتر اتر کے رپورٹنگ کے جوہر دکھاتے ہیں، ڈرے ہوئے لوگوں کو مزید ڈراتے ہیں، سیلاب پیدا کرنے والوں کے لئے ماحول بناتے ہیں۔
جب سماں بندھ چکا ہوتا ہے تو باقی بابو صاحبوں اور صاحب لوگوں کو کیا کرنا ہے، فائلیں اور بل ہی تو بنانے ہیں، وہ تو ایسے موقعوں کے انتظار میں ہوتے ہیں آمدنی دگنی جو ہو جاتی ہے، بیرونی امداد کے امکان بڑھ جاتے ہیں، پھر رج کے بل بنتے ہیں، سیلاب اور بارشوں کو دوش دے کے سرکاری قرضے معاف کروائے جاتے ہیں۔ عوامی ریلیف کا برسوں پرانا ناٹک زور و شور سے چلتا ہے، دورے ہوتے ہیں، فوٹو سیشن ہوتے ہیں، تین کلو آٹے کا ایک تھیلا دس صاحب لوگ اپنے دست مبارک سے غریب کے ہاتھ میں دے کر ان کی سات نسلوں پر احسان کرتے ہیں، اور ان کو ہاتھ ملانے کا شرف بخشتے ہیں، پریشان حال مصیبت کے مارے لوگوں کی عزت نفس مجروح کی جاتی ہے۔
فلمی سیٹ کی طرح ریلیف کیمپ کے سیٹ لگتے ہیں جو دورے پہ آئے بڑے صاحبوں کے جاتے ہی اکھاڑ دیے جاتے ہیں، کہ وہ سین ہو چکا نئے سین کی تیاری ہونے لگتی ہے، رات کے اندھیرے میں لگائے گئے شگاف میڈیا اور کیمروں کے سامنے بھرنے کی شاندار اداکاری کی جاتے ہے، ریلیف کے نام پر کیمپوں پہ لائے گئی خلق خدا کو ایک بریانی کی دیگ دے کے ان سے ایسے منہ پھیر لیا جاتا ہے جیسے مصیبت کے ماروں کے دردوں کا درماں ہو چکا۔
پھر فلاحی اداروں کی باری آتی ہے، سیلاب زدگان کی امداد کے کیمپس کھل جاتے ہیں، چندے ہوتے ہیں، نہیں معلوم کہ بے گھر افراد کے نام پے لیا گیا مال سہی سلامت ان تک پہنچتا ہے کہ نہیں، لیکن فوٹو سیشن کے دور بڑے زور و شور سے چلتے ہیں، آپس میں انسانی مسیحائی کے سرٹیفکیٹس بانٹے جاتے ہیں، پھر این جی اوز بھی منظر سے غائب ہو جاتی ہیں، آخر میں دریا کے حفاظتی بندوں اور سرکاری اسکولز میں پڑی وہ مخلوق رہ جاتی ہے جن کے لئے بھوک در در کی ٹھوکریں کھانا کوئی نئی بات نہیں ہوتی۔
یہ کھیل ہر دو تین سال بعد کھیلا جاتا ہے، اگر مان بھی لیا جائے یہ قدرتی آفات ہیں ان میں صاحب لوگوں کا کوئی قصور نہیں ہوتا، تو پھر ان ڈزاسٹرز کو روکنے، یا عوام کو ان سے محفوظ رکھنے کے لئے ایڈوانس کیا تیاری کی جاتی ہے، دریا کے بند فائلوں میں تو دیوار چین سے بھی مضبوط ہیں لیکن سیلاب کا ایک ریلا انہیں اپنے ساتھ کیسے بہا لے جاتا ہے، کچے کی زمین دریا کا حصہ ہے، اس پہ قبضے کس نے کیے ہیں، دریا کے قدرتی راستوں کے آگے بند کس نے باندھے ہیں، جنگلات آبی و جنگلی حیات کو کس نے فنا کیا ہے، متعلقہ اداروں اور منسٹری کی ذمے داری اور کارکردگی کیا ہے؟ ایسے بہت سارے سوال ہیں جن کا کوئی جواب نہیں۔
نا ہی صاحب اقتدار صاحبوں کے پاس مستقبل میں ایسے سیلاب، بارش، موسمی تبدیلی کے اثرات سے بچنے کے لئے کوئی پلاننگ ہے۔
- صرف روماسا جامی ہی کیوں؟ - 18/10/2024
- پِیٹھ پر کھائی لاٹھی کا دکھ - 16/10/2024
- ایک خط علمائے کرام کے نام - 05/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).