پاکستان میں پیپر لیس سسٹم کی ضرورت


ڈیجیٹل ترقی کا حقیقی مفہوم سمجھنا اور اسے صحیح طریقے سے اپنانا آج کے دور کی ایک اہم ضرورت ہے، خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں۔ بدقسمتی سے، یہاں عام طور پر ڈیجیٹلائزیشن کا مطلب صرف کمپیوٹر پر کام کرنا اور کاغذی دستاویزات کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں تبدیل کرنا سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ کمپیوٹرائزیشن کا مقصد دستاویزات کو کمپیوٹر پر ٹائپ کر کے پرنٹ نکالنا اور پھر ان کی فوٹو کاپی بنانا ہے۔ لیکن حقیقت میں، ڈیجیٹل ترقی کا اصل مقصد ایک مکمل پیپر لیس سسٹم اپنانا ہے، جہاں کاغذ کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہو اور زیادہ سے زیادہ کام الیکٹرانک طریقے سے مکمل کیا جائے۔

پیپر لیس سسٹم کا اصل مقصد یہ ہے کہ تمام دستاویزات، سرکاری و نیم سرکاری خط و کتابت اور ریکارڈز کو الیکٹرانک فارمیٹ میں محفوظ کیا جائے، تاکہ کاغذ کے استعمال کو کم سے کم کیا جا سکے اور ماحول کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ ہمارے ماحول کے لیے درخت انتہائی اہمیت رکھتے ہیں، اور کاغذ کی تیاری کے لیے ان کی کٹائی ضروری ہوتی ہے۔ اس سے ماحولیاتی توازن بگڑ جاتا ہے۔ درخت آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور فضائی آلودگی کو کم کرتے ہیں، لہٰذا ان کی کمی سے ماحول میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ پیپر لیس سسٹم اپنانے سے ہم نہ صرف درختوں کی کٹائی کو کم کر سکتے ہیں بلکہ ماحول کی بہتری میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔

پیپر لیس سسٹم کے بے شمار فوائد ہیں۔ جب دستاویزات الیکٹرانک فارمیٹ میں ہوں تو انہیں تلاش کرنا اور شیئر کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ آپ کمپیوٹر یا موبائل فون کے ذریعے چند کلکس میں کسی بھی دستاویز تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، جبکہ کاغذی دستاویزات کو تلاش کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ اس کے علاوہ، الیکٹرانک فارمیٹ میں محفوظ دستاویزات کی حفاظت میں بھی اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ انہیں مختلف مقامات پر بیک اپ کیا جا سکتا ہے، اور ان کے ضائع ہونے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ کاغذی دستاویزات کو برباد ہونے، گم ہونے، یا خراب ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ماحولیاتی تحفظ میں مددگار ثابت ہوتا ہے، کیونکہ کاغذ کی کم ضرورت ہونے کی وجہ سے درختوں کی کٹائی میں کمی آتی ہے۔ مزید یہ کہ، پیپر لیس سسٹم اپنانے سے وقت اور پیسے کی بھی بچت ہوتی ہے، کیونکہ کاغذ، پرنٹر، اور اسٹوریج کی لاگت کم ہوتی ہے، اور کاغذی کام کے لیے درکار جگہ بھی کم ہوتی ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں پیپر لیس سسٹم کو کامیابی سے اپنایا جا چکا ہے۔ مثال کے طور پر ، جاپان، سویڈن، اور امریکہ جیسے ممالک میں پیپر لیس سسٹم کا استعمال عام ہے۔ ان ممالک میں تمام سرکاری اور نجی ادارے پیپر لیس سسٹم کو اپنا چکے ہیں، جہاں تمام دستاویزات، معاہدے، اور ریکارڈز الیکٹرانک فارمیٹ میں محفوظ کیے جاتے ہیں۔ اس نظام نے نہ صرف وقت کی بچت کی ہے بلکہ ماحول کی بہتری میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

اگرچہ ترقی یافتہ ممالک کو پیپر لیس سسٹم کی طرف منتقلی میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جیسے کہ کاغذ پر کام کرنے کی عادت کو ترک کرنا اور الیکٹرانک فارمیٹ کو اپنانا، لیکن انہوں نے ان چیلنجز کا سامنا کیا اور کامیابی سے پیپر لیس سسٹم کو اپنایا۔ آج وہ ممالک تکنیکی ترقی میں بھی آگے ہیں اور ماحول کے تحفظ میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان میں پیپر لیس سسٹم کو اپنانے کی اشد ضرورت ہے، لیکن یہاں کے لوگ ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پیپر لیس سسٹم کا مطلب محض کمپیوٹر پر کام کرنا نہیں بلکہ مکمل طور پر کاغذ کا استعمال کم کرنا ہے۔ مزید یہ کہ، ٹیکنالوجی کی عدم دستیابی، اس کی بلند قیمت، اور عملے کی مناسب تربیت کا فقدان بھی اس نظام کے فروغ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں ٹیکنالوجی کی فراہمی مشکل ہے، اور جدید ڈیوائسز کی قیمتیں عام لوگوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ مزید برآں، پیپر لیس سسٹم کو اپنانے کے لیے عملے کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت کی ضرورت ہے، اور بہت سے لوگوں کو اس نظام کی اہمیت کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔

پاکستان میں پیپر لیس سسٹم کو کامیابی سے اپنانے کے لیے کچھ اہم اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹیکنالوجی کی فراہمی کو یقینی بنائے اور اس کی قیمتوں میں کمی کرے تاکہ ہر طبقے کے لوگ اس نظام کو اپنا سکیں۔ اس کے ساتھ ہی، تعلیمی اداروں میں بھی ڈیجیٹلائزیشن کے اصولوں کو شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل اس کی اہمیت کو سمجھ سکے۔ عوامی آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگوں کو پیپر لیس سسٹم کی اہمیت اور ماحول پر اس کے مثبت اثرات کے بارے میں بتایا جا سکے۔ حکومت کو پیپر لیس سسٹم کے فروغ کے لیے موثر پالیسی سازی کرنی چاہیے، اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔

پیپر لیس اور ڈیجیٹل سسٹم کا مقصد یہ ہے کہ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں کے تمام اہم معاملات جیسے پینشن کیسز، ریٹائرمنٹ کیسز، پروموشن، ٹرانسفر پوسٹنگ، اور جوائننگ کو مکمل طور پر آن لائن اور کمپیوٹرائزڈ کر دیا جائے۔ اسی طرح ادارے کے منصوبہ جات، ٹینڈر، ٹھیکہ جات، بجٹ، اور بجٹ کی یوٹیلائزیشن یعنی اس کے استعمال کو بھی آن لائن ہونا چاہیے تاکہ شفافیت کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکے۔ سکول، کالج، اور یونیورسٹیز کی فیس اور داخلہ کے نظام کو بھی آن لائن سسٹم کے ساتھ منسلک کرنا ضروری ہے، تاکہ طلبہ اور والدین کو آسانی ہو۔ اسی طرح اساتذہ کرام کا ڈیٹا بیس بھی آن لائن ہونا چاہیے اور طالب علموں کے ساتھ اساتذہ کا رابطہ بھی ڈیجیٹل طریقہ سے منسلک ہو، تاکہ وہ اپنے وقت کا زیادہ موثر استعمال کر سکیں۔ اس سلسلے میں، پاکستان میں مرہم نامی ایک ایپ پہلے ہی کام کر رہی ہے، جو ڈاکٹرز کے سسٹم کو آن لائن کر کے مختلف بیماریوں کے ماہرین کو تلاش کرنے اور اپنے لوکل ایریا میں ان کی لوکیشن معلوم کرنے میں آسانی فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، داخلہ سسٹم، اے سی آر، اور پرفارمنس ایویلیوشن رپورٹس لکھنے کے طریقہ کار کو بھی ڈیجیٹل کیا جانا چاہیے، تاکہ تمام محکمے اور افسران آپس میں بہتر طریقے سے منسلک ہوں۔ یہاں تک کہ چھٹی کی درخواست کو بھی واٹس ایپ گروپ سسٹم کے ساتھ ایک مرکزی آن لائن ڈیٹا بیس سے منسلک کیا جائے، تاکہ ہر چیز کی نگرانی اور عمل درآمد آسانی سے ہو سکے۔ اس ڈیجیٹل نظام کے ذریعے نہ صرف وقت کی بچت ہوگی بلکہ شفافیت اور تیز رفتار عمل درآمد بھی یقینی بنایا جا سکے گا۔

اگر پاکستان پیپر لیس سسٹم کو کامیابی سے اپنائے تو اس سے نہ صرف دفاتر میں کام کی رفتار میں بہتری آئے گی بلکہ ماحولیاتی تحفظ میں بھی مدد ملے گی۔ پرانے طریقوں کو چھوڑ کر جدید طریقے اپنانے سے ملک میں ڈیجیٹل ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، جو ایک صاف اور بہتر ماحول فراہم کرے گی۔ اس لیے یہ کہنا بجا ہو گا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل ترقی کے تصور کو مکمل طور پر سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اپنے ملک میں بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرح کامیابی سے پیپر لیس سسٹم کو اپنا سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments