آفتاب اقبال شمیم کی یاد میں
کوئی آٹھ برس پہلے، جس روز میرے گھر کتب خانے میں جڑواں شہر کے چنیدہ تخلیق کار آفتاب اقبال شمیم کے کلیات ”نادریافتہ“ کے استقبال کو موجود تھے اور ان کے فن کی تحسین کر رہے تھے تو کون کہہ سکتا تھا کہ ایسا موقع ان کی زندگی میں پھر نہ آئے گا کہ ہم سب یوں جمع ہو کر بات کر پائیں۔ یہ موقع کہیں اب جاکر نکلا ہے ؛ جی اُن کے چل بسنے کے بعد ؛ کاش زندگی میں نکل پاتا۔ ہم جو کہتے وہ سن پاتے۔ اُن کے من میں جو ہوتا ہم تک پہنچتا۔
وہ اپنی عمر کے آخری برسوں میں اکیلے ہو گئے تھے۔ خیر، اُن کا تخلیقی مزاج ہی کچھ ایسا تھا کہ لوگوں میں ہو کر بھی اکیلے رہے۔ شعری دانش کا جو علاقہ ان کی توفیقات کا حصہ ہوا تھا؛ وہ انہیں کچھ یوں زندہ وجود کی صورت رکھتا تھا جو بہ حیثیت انسان کائنات سے بے دخل نہیں ہوا تھا۔ اپنے منصب کے مطابق ذمہ داریاں نبھانے کی تاہنگ میں مبتلا تھا اور اسی ابتلا نے انہیں اکیلا اور منفرد بھی بنا دیا تھا۔
جس زمانے میں انہوں نے لکھنا آغاز کیا تب تک ترقی پسندوں کے ہاں تھکن کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے مگر آفتاب اقبال شمیم نے تازہ دم رہ کر اسی فکر سے وابستہ رہنے کا راستہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ تب جدید ہونے کی جھونک میں اپنی شعری روایت سے کٹ کر چلنا فیشن میں تھا۔ نظم کو نئی لسانی تشکیل سے نیا بنا لینے کے جتن ہو رہے تھے۔ آفتاب اقبال شمیم ان کے ساتھ چلے مگر ذرا ہٹ کر اپنی راہ بنائی۔ ترقی پسندی ان کا فکری علاقہ رہا کہ یہی مرغوب تھا، تیکنیک نئی نظم کی لے لی اور لسانی آہنگ میں اردو شاعری کی مستحکم روایت کے گہرے شعور کو گوندھ لیا۔ ایسا کرنے سے ان کے موضوعات میں اور بات کہنے کے ڈھنگ میں کئی نئی طرفیں اور تہیں ایزاد ہوتی گئیں ؛کہیں کہیں ایک طلسمی فضا بنتی، کہیں عصری آگہی اور تاریخی شعور کلام کرتا اور کہیں کائناتی معاملہ انسانی وجود کا مسئلہ ہو کر آتا۔
اپنی تخلیقی زندگی کے آغاز ہی میں انہوں نے زید نامی کردار تخلیق کر لیا تھا۔ یہ شاعر جیسا ہی ایک کردار تھا؛ دوسرا شخص نہیں، شاعر کے وجود کا پر تو اور زماں و مکاں میں مقید ایک فرد۔ یہ فرد اپنے آپ سے الجھتا تھا اور بے معنویت کے جال کو کاٹ کر آگے نکلنے کی تاہنگ میں رہا۔ اپنی نظم کا مزاج بنانے کے لیے انہوں نے لسانی ابہام پر تخلیقی ابہام کو ترجیح دی لہذا ان کی نظم پہیلی نہیں بنی جیسا کہ بالعموم نئی نظم نے وتیرہ کیا ہوا تھا۔
وہ اپنے فن پارے کی جمالیات متشکل کرتے ہوئے ایک مہین جالی جیسی دھند کا اہتمام کرتے کہ پشکن کے مطابق ننگی حسین نہیں ہوتی کھٹکتی تھی۔ سو اس مہین سی دھند میں قاری کے تصور کو تحرک ملتا رہتا ہے۔ اور ہاں کہیں مکالمہ تھا، کہیں ایپی لاگ، کہیں طویل نظم میں ایک تکرار کی صورت، کہیں سرگوشی اور کہیں کوئی اور قرینہ۔ یہیں سے وہ سب سے الگ ہوئے اور متن کے اندر تھیں بنا کر بہت کچھ عطا کرتے گئے۔ فکشن نگار ہو کر سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے انہوں نے علامتی اور بیانیہ اسلوب کو بہم کر کے تاثیر کو کئی گنا بڑھا لیا تھا۔
”نادریافتہ“ میں آفتاب اقبال شمیم کے چھ شعری مجموعے ہیں ؛ ”فردا نژاد“ ، ”زید سے مکالمہ“ ، ”گم سمندر“ ، ”میں نظم لکھتا ہوں“ ، ”ممنوعہ مسافتیں“ اور ”سایہ نورد“ ۔ انہوں نے نظمیں بھی لکھیں وہ اس کلیات کا حصہ نہ ہو سکیں۔ ”فردا نژاد“ کے پیش لفظ میں انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ان کی روشنی کے علاقے ان کے وجود کے اندر باہر اور اس کے مضافات میں پڑتے تھے۔ یہ کہیں کہیں تھے جن کے بیچ میں خلا ہی خلا تھا۔ یہ علاقے نا دریافت شدہ اسرار کے سمندر میں تیرتے ہوئے، اوجھل ہوتے ہوئے، ابھرتے ہوئے جزیرے تھے جو اُن کے خیال میں زندگی کی اپنی پہچان کو مٹا کر اسے پھر بنا رہے تھے۔ آفتاب اقبال شمیم جس تخلیقی فضا میں تھے وہاں بار بار زندگی کا ایک ہی نقش بنتا تھا اور وہ تھا زندگی کے جو ہر کا ایک لا تعلق خارجی حقیقت سے دست و گریباں ہونا۔
اپنے اس احساس کے ساتھ وہ اپنی محبوب صنف نئی نظم کی طرف آئے تو اس میں اپنے لیے کچھ ایسی گنجائشیں نکالیں کہ دھج ہی الگ ہو گئی۔ اب وہ محض نظم لکھنے کو نظم نہیں لکھ رہے تھے، نہ ہی کچھ الگ لکھ کر کسی کو چونکانا اور مرعوب کرنا مقصود تھا کہ نظم کا تخلیقی عمل ان کا وجودی مسئلہ ہو گیا تھا اور عین اسی لمحے ان کی فکر کی تخلیقی تطہیر کی واحد ممکنہ صورت بھی۔ ایک لامتناہی جنگ ان کے سامنے ہو رہی تھی۔ اور وہ اس گھمسان کے معرکے میں لاتعلق ہو کر نہیں رہنا چاہتے تھے۔
ان کی نظم نے بھی ان کے وجود کو لاتعلق نہیں رکھا۔ وہ ایک تسلسل کے ساتھ زندگی کے حق میں گواہی دیتے ملیں گے۔ یہ الگ بات کہ تاریخ کا جبر ایسا رہا ہے کہ انہیں اپنے آپ کو رد کر کے نئے سرے سے دریافت کرنا پڑ رہا تھا اور اس مہم میں نادریافتہ ہی رہنا ان کا مقدر ہوا تھا۔ ان کا بھی اور بحیثیت آدم زاد ہم سب کا بھی۔ اپنی نظم ”آدم زاد“ میں وہ دعا کرتے ملتے ہیں :
”زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر / کہ سجدہ کر سکوں /یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں / اور گرتا جا رہا ہوں اپنی فطرت کے نشیبوں میں۔“ (آدم زاد)
یہ دعا کو ہاتھ اٹھانے والا کسی ایک زمینی پارچے، کسی خاص علاقے اور کسی ایک گروہ کا فرد نہیں ہے۔ یہ وہ آدم زاد ہے جسے غیر مشروط آزادی اور حقیقی امن کی تاہنگ میں ہے :
”خداوندا! /مجھے طائر، شجر، پربت بنا دے /یا مجھے ڈھا دے /کہ دوبارہ جنم لوں اپنی بے مشروط آزادی کی خواہش سے۔“ (آدم زاد)
یہ ان کی تخلیقی زندگی کے آغاز کا زمانہ تھا مگر آپ ان کے غیر مطبوعہ آخری مجموعے ”ممنوعہ مسافتیں“ تک چلے آئیں جسے مرتب کر کے نظم نگار سعید احمد نے آفتاب اقبال شمیم کے کلیات ”نادریافتہ“ کا حصہ بنا دیا ہے یا پھر ان کی غزلوں کا اکلوتا مجموعہ ”سایہ نورد“ دیکھ لیں ؛ انسانی توقیر، حقیقی امن اور غیر مشروط آزادی کی دعائیہ بھنبھناہٹ حرف حرف سے سنائی دیتی ملے گی اور شاعر نے اسے کچھ یوں شعار کیا کہ یہی ان کا زندگی بِتانے کا آہنگ اور پیشہ ہو گیا۔ دیکھیے ان کی غیر مطبوعہ نظمیہ مجموعے کی آخری مطبوعہ نظم:
”سو یہ بافندگی میرا پیشہ بنی/ اور نظموں کے یہ پارچے اس تمنا کی تائید میں /بنتا رہتا ہوں /شاید کہ دنیا کی عریانیاں میں دکھا بھی سکوں / اور چھپا بھی سکوں۔“ (میں جُلاہا)
کچھ سال پہلے سڈنی سے جب ان کے اکلوتے بیٹے ثبات کی موت کی خبر ملی تھی تو اس کے بعد مجھے لگا تھا جیسے وہ باتیں کرنا بھول گئے تھے۔ کم گو تو وہ پہلے سے تھے مگر اب گنے چنے جملے کہہ کر خاموش ہو جاتے۔ وہ سڈنی چلے گئے۔ وہاں دِل نہ لگا تو لوٹ آئے۔ ان کی بیگم کی سانسوں کی نقدی ختم ہوئی تو وہ بھی چل دیں۔ تنہائی کی چادر اور دبیز ہو گئی اور جیسے سفر ِواپسیں آغاز ہو گیا تھا۔ آفتاب اقبال شمیم کی وفات سے کچھ دِن ہی پہلے میں میرا اکادمی ادبیات آنا ہوا، اکادمی کے ڈی جی سلطان ناصر سے ملاقات ہوئی تو اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ کاش احباب اکٹھے ہوں اور ایک نشست آفتاب اقبال شمیم کے ساتھ ہو جائے۔
میں نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ یہ تقریب ان کے گھر کے باہر شامیانہ لگا کر ہو سکتی تھی کہ ان کا گھر سے نکل کر کہیں اور جانا ممکن نہ ہوتا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جلد کوئی پروگرام بنائیں گے مگر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کا وقت آ پہنچا تھا اور ہم ان کے گھر کے سامنے شامیانے تلے انہیں اپنے کندھوں پر اٹھانے اور آخری منزل کو لے جانے کے لیے جا بیٹھے تھے۔
یہ جاہ ِدُنیا کروں گا کیا میں
تمہی سنبھالو اِسے، چلا میں
- آفتاب اقبال شمیم کی یاد میں - 05/09/2024
- اظہار الحق: نئی زمینیں اور نئے آسماں - 19/07/2024
- ترکیہ اور پاکستان :ادبی اور ثقافتی رشتے - 29/06/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).