روہنگیا کی حالت زار اور مسلمانوں کی بے حسی


اقوام متحدہ کی طرف سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر انسانیت سوز مظالم کے بارے میں ایک بار پھر تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ یہ معلومات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کی ایک اعلیٰ عہدیدار ینگ ہی لی نے نشریاتی ادارے بی بی سی کے ساتھ ایک انٹرویو میں فراہم کی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میانمار کی سول حکومت نے انہیں راکھین صوبے میں جانے اور روہنگیا باشندوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ تاہم انہوں نے فوج کے مظالم سے بھاگ کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا خاندانوں سے ملاقاتوں میں جو کہانیاں سنی ہیں اور انہوں نے جو واقعات بیان کئے ہیں، وہ انسانیت سوز ہیں اور انسانیت کے خلاف جرائم کی نوعیت رکھتے ہیں۔ اب ینگ ہی لی اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے اس معاملہ کی تحقیقات کرانے کےلئے درخواست کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ روہنگیا کی فراہم کردہ معلومات کو جھوٹ کہہ کر مسترد کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان واقعات و حقائق کی تصدیق سیٹلائٹ کے ذریعے راکھین کے تباہ شدہ دیہات کی تصویریں سے بھی ہوتی ہے۔ 2015 میں برسر اقتدار آنے والی نوبل امن انعام یافتہ انسانی حقوق کی علمبردار آنگ سوچی نے اس بارے میں سوالوں کے جواب دینے کے لئے بی بی سی کے نمائندے سے ملنے سے انکار کر دیا۔

روہنگیا مسلمانوں کی ابتر اور غیر انسانی صورتحال کے بارے میں عرصہ دراز سے تکلیف دہ معلومات فراہم ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے علاوہ انسانی حقوق کےلئے کام کرنے والے کئی اداروں اور تنظیموں نے اس بارے میں عالمی رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی تک یہ کاوشیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔ اس حوالے سے دنیا کے اہم دارالحکومتوں میں سیمینار منعقد ہوتے ہیں، سیاسی لیڈروں سے ملاقاتیں کی جاتی ہیں، وعدے کئے جاتے ہیں لیکن ان تمام سرگرمیوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ میانمار چھوٹا اور بے وسیلہ ملک ہونے کے باوجود اپنے ہی ملک کے ایک چھوٹے سے اقلیتی گروہ کو نیست و نابود کرنے اور ان سے مکمل طور سے گلو خلاصی کےلئے حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے اور دنیا کا کوئی قانون یا روایت یا انسانی حقوق کے علمبردار ممالک اس پالیسی کو رکوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ میانمار کی پالیسی نسل پرستانہ اور مسلمہ عالمی اصولوں سے متصادم ہے۔ اس کے باوجود اس ملک کی حکومت اس کا دفاع کرنے اور روہنگیا مسلمانوں کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کرنے کےلئے کوئی لچک دکھانے پر آمادہ نہیں ہوتی۔

میانمار یا برما کی سابقہ فوجی حکومتوں نے روہنگیا کو اپنے ملک کا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا تھا کہ انہیں برما میں رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اس اعلان کے بعد روہنگیا کو پاسپورٹ دینے یا سفری سہولتیں فراہم کرنے سے بھی انکار کیا جاتا ہے اور انہیں مخصوص علاقوں یا کیمپوں میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ملک بھر میں ایک چھوٹے اقلیتی گروپ کے خلاف نفرت اور عناد پیدا کر دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اکثریتی عقیدہ کے حامل بدھ باشندوں نے روہنگیا مسلمانوں پر حملے کرنے اور ان کے گھر گرانے اور کاروبار تباہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان کھلم کھلا انسانی حملوں کے خلاف احتجاج کے باوجود ملک کے عوام کے جمہوری حق کےلئے پندرہ برس تک نظر بندی کی صعوبت برداشت کرنے والی آنگ سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف دیگر شہریوں کے تعصبات اور مظالم کو مستر کرنے کا حوصلہ نہیں کیا۔ انہیں اندیشہ رہا ہے کہ ملک کی اکثریتی آبادی کے دل میں اس چھوٹے سے گروہ کے خلاف اس قدر نفرت بھر دی گئی ہے کہ ان کی حمایت میں بولنے کی صورت میں وہ اپنی سیاسی حمایت سے محروم ہو سکتی ہیں۔ اس طرز عمل سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ انسانیت اور جمہوریت کےلئے بلند بانگ دعوے کرنے والے رہنما بھی دراصل سیاسی مقبولیت کو ہی منزل مقصود سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ سوچی کو 2015 میں اقتدار حاصل ہو گیا لیکن وہ برسر اقتدار آنے کے باوجود نہ صرف یہ کہ اس انسانی مسئلہ کو حل کرنے کےلئے کوئی اقدام کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکیں بلکہ روہنگیا کے خلاف فوج کے مظالم کو یک طرفہ پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کرتی رہی ہیں۔ وہ روہنگیا کے خلاف نفرت کو نسلی تعصب کی بجائے ثقافتی تصادم کا نام دیتی ہیں اور فوج کی اس پالیسی پر عمل پیرا ہیں کہ روہنگیا کو برما یا میانمار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

روہنگیا مسلمان ڈیڑھ دو سو سال پہلے مزدوری کے لئے بنگلہ دیش سے برما آئے تھے۔ وہ راکھین صوبے میں ساحلی علاقوں میں آباد ہیں اور محنت مزدوری یا کاشتکاری و ماہی گیری کے ذریعے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ لیکن سرکاری اور عوامی جبر کی وجہ سے انہیں مسلسل اپنے گھروں اور رہائشی علاقوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری اداروں کے دباؤ کی وجہ سے انہیں ناقص کشتیوں میں ملک سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ لیکن روہنگیا کی بدنصیبی یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے علاوہ اس ریجن کے دیگر ممالک تھائی لینڈ ، انڈونیشیا یا ملائشیا بھی انہیں قبول کرنے کےلئے تیار نہیں۔ سمندری راستوں سے ہجرت کے دوران سینکڑوں روہنگیا ہلاک ہو چکے ہیں۔ جو کسمپرسی کے عالم میں کسی ساحل پر پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو انہیں سرحدی محافظ وہاں سے بھگا دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ اس حالت میں بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ کے ساحلوں پر انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے منظم جرائم پیشہ گروہ کثیر معاوضہ لے کر ان مہاجرین کو ملک کے پناہ گزین کیمپوں تک پہنچاتے ہیں۔

گزشتہ ایک برس سے برما کی فوج نے روہنگیا علاقوں میں دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے نام پر کارروائی کی ہے۔ اس دوران روہنگیا باشندوں کو بے دریغ قتل کیا گیا، ان کے دیہات جلا دیئے گئے، فصلوں اور کاروبار کو تاراج کر دیا گیا اور عورتوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان مظالم کے باوجود عالمی اداروں کے دباؤ پر میانمار حکومت نے گزشتہ برس ایک نام نہاد تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں میانمار کی فوج کو بری الذمہ قرار دیا تھا اور روہنگیا کے خلاف مظالم کو فرضی داستانیں بتایا تھا۔ ان دعوؤں کے باوجود میانمار کے حکام غیر ملکی میڈیا، امدادی کارکنوں یا اقوام متحدہ کے نمائندوں کو راکھین جانے اور حالات کا خود مشاہدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ روہنگیا کےلئے آنے والی امداد کو بھی سرکاری ذرائع سے تقسیم کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس طرح ان وسائل کو بھی خورد برد کر لیا جاتا ہے۔

میانمار حکومت اور فوج کے جھوٹے دعوؤں کی قلعی اس جبر سے بھاگ کر بنگلہ دیش پہنچنے والی پناہ گزین کھولتے ہیں۔ وہاں پر قائم روہنگیا کے کیمپوں میں مقیم ہر شخص کے پاس ایک درد ناک کہانی ہے۔ ان مظالم کی تصدیق ان سیٹلائٹ تصاویر سے ہوتی ہے جن میں روہنگیا کے علاقوں میں وسیع و عریض تباہ کاری دیکھی جا سکتی ہے۔ میانمار کی سول حکومت جو طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آئی ہے، اس صورتحال کو قابل غور نہیں سمجھتی۔ آنگ سوچی تو اس معاملہ پر بات کرنے سے ہی گریز کرتی ہیں۔ البتہ ان کی جماعت کے ایک ترجمان نے اقوام متحدہ کی طرف سے روہنگیا کے خلاف مظالم کی اطلاعات کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کیا۔ تاہم صحافی کے سوالوں کے جواب میں انہیں اعتراف کرنا پڑا ہے کہ سول حکومت ملک کی فوج کے خلاف کوئی بات کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ ایسے میں یہ سوال تو ضرور پیدا ہوتا ہے کہ پھر ایسی حکومت جمہوریت پسند اور عوام کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے۔ اگر کوئی جمہوری حکومت ملک کے گروہوں کے درمیان امتیاز اور تعصب کو فروغ دیتی ہے تو وہ جمہوریت کی روح کے متصادم طرز عمل اختیار کرتی ہے۔ آنگ سوچی نے میانمار کےلئے طویل جدوجہد کی ہے۔ اسی لئے انہیں نوبل امن انعام دیا گیا تھا۔ لیکن روہنگیا کے خلاف جنگ کی موجودہ صورتحال میں وہ کسی صورت اس اعزاز کی مستحق نہیں رہیں۔

روہنگیا مسلمانوں کی کل تعداد 10 سے 15 لاکھ کے درمیان ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا کے 50 سے زائد مسلمانوں ملک نہ تو ان مظلوم باشندوں کے خلاف تشدد اور مظالم بند کروانے کےلئے ینگون حکومت پر دباؤ ڈالتے ہیں اور نہ ہی انہوں نے مل کر کوئی ایسا فنڈ قائم کیا ہے جو ان دربدر مسلمانوں کی مدد اور آباد کاری کے کام آ سکے۔ اس وقت سعودی عرب کے شاہ سلمان بن عبدالعزیز ایشیائی ملکوں کے ایک ماہ کے دورہ پر ہیں۔ خبروں کے مطابق وہ 600 سے زائد افراد کے بھاری بھر کم وفد کے ساتھ سفر کر رہے ہیں اور ان کی آسائش کےلئے پونے پانچ سو ٹن ساز و سامان ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کیا جاتا ہے۔ ایک طرف مسلمان حکمران اتنی عیاشی کا سامان فراہم کر سکتے ہیں تو دوسری طرف وہ مل کر بھی روہنگیا مسلمانوں کےلئے کوئی قابل عمل منصوبہ بنانے میں ناکام ہیں۔ اقوام متحدہ گزشتہ برس بھی میانمار حکومت پر روہنگیا کے خلاف مظالم کے سوال پر سخت تنقید کر چکی ہے۔ تاہم اب اس تنقید کو عملی اقدامات کی شکل اختیار کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے مسلمان ملکوں کو کردار ادا کرنے اور میانمار پر دباؤ ڈالنے کےلئے کوششیں کرنا ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali