نریندر مودی نے اپنی مقبولیت ثابت کر دی


آج انڈیا کی پانچ ریاستوں کے الیکشن کے نتیجے آگئے، اگرچہ یہ صرف ریاستوں کے الیکشن تھے مگر اسے پرائم منسٹر مودی اور ان کی پالیسیز کے لیے ایک ریفرینڈم کے طور پر بھی لیا جا رہا تھا۔ ان پانچ ریاستوں میں اتر پردیش، جہاں لوک سبھا کی سب سے زیادہ سیٹیں ہیں اور یہاں بی جے پی نے 2014 میں 80 سی 73 سیٹس لی تھی، وہاں آج  بی جے پی نے 403 میں نے 324 سیٹس جیتی۔ جو نہ صرف انڈیا بلکہ پوری دنیا میں ایک بہت بڑا سرپرائز مانا جا رہا ہے۔

بی جے پی نے نہ صرف اتر پردیش جیتا بلکے اترا کھنڈ، گوا اور منی پور میں بھی سرکار بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ کانگریس کے ہاتھ صرف پنجاب آیا جہاں بی جے پی اور اکالی دل کا اتحاد اور سرکار ناکام ہوئے، اور کانگریس دس سال کے بعد پنجاب میں سرکار بنائے گی۔

رام مندر یو پی کے الیکشن میں مدعا تھا مگر بی جے پی نے اسے زیادہ اچھالا نہیں، اس الیکشن میں کرپشن، ترقی، ایماندار اچھی شہرت کی حامل قیادت کے نام پر الیکشن لڑا اور جیتا۔ اتر پردیش کے انتخابات نے کئی نئے بیانیہ بھی پیش کیے، انڈین الیکشن میں یہ کہا جاتا تھا کے “الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہیں ہوتے، کاسٹ کو ووٹ ملتے ہیں” یہ مفروضہ آج بی جے پی نے اتر پردیش میں دفن کر دیا ہے۔ آج بی جے پی نے کلاس اور کاسٹ سے نکل کر کرپشن اور ترقی کے نام پر الیکشن کھیلا اور جیتا۔ وہیں مایاوتی کی بہوجن سماج وادی پارٹی جو دلت اور مسلم ووٹ پر انحصار کر رہی تھی اور 100 سے زیادہ سیٹس مسلمانوں کی دی وہ صرف 19 سیٹس ہی جیت سکی، یہی صورت حال سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے ساتھ بھی رہی، انہوں نے  یادو اور مسلمانوں کے ووٹ پر انحصار کیا اور یہ اتحاد صرف 56 سیٹس ہی جیت سکا،۔

اور دوسری طرف بی جے پی جس نے ایک بھی مسلم امیدوار کو سیٹ نہیں دی (یاد رہے اتر پردیش کی 20 فیصد آبادی مسلم ہے) اور تاریخی کامیابی حاصل کی۔ ان کا نعرہ “سب کا ساتھ سب کا وکاس (ترقی)” کامیاب رہا۔ بی جے پی نے اپر اور لوئر کلاس سب کا ووٹ حاصل کیا جس میں 90% اپر کلاس جاٹوں اور 65% یادو ووٹ بھی شامل ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں نے بھی بی جے پی کو ووٹ دیا۔ یہاں یہ کہنا بجا ہوگا کہ بی جے پی کو کاسٹ سسٹم سے بالاتر ووٹ ملے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ 2014 کی مودی لہر آج بھی کسی حد تک برقرار ہے اور برانڈ مودی ایک بار پھر کام دکھا گیا اور نوٹ بندی کو عوام نے ایک مثبت قدم کے طور پر لیا ہے۔ یہ اتر پردیش کی سیاست میں ایک نیا آغاز ہے۔  

اب سوال یہ ہے کہ اب آگے کیا ہوگا، ان الیکشن کی جیت بی جے پی اور آر ایس ایس کو ایک نیا جوش اور ولولہ دے گی۔ اب مودی سرکار زیادہ پرزور طریقے سے اپنے ایجنڈا پر عمل کرے گی۔ جس میں کرپشن، معاشی ترقی اور کاروباری اصلایحات، دہشت گردی اور پاکستان کے خلاف بھرپور مہم، غریبوں کے لئے مراعات، ملک سے کانگریس کا مکمل صفایا (جس میں جناب راہول گاندھی مسٹر مودی کا بھرپور ساتھ دیں گے) اور انڈین سماج کو اپنے حق میں مکمل تبدیلی شامل ہیں۔    

پاکستان کے لیے صورت حال کچھ بہتر نہیں ہوگی، پر اعتماد مودی سرکار پر پاکستان کو سبق سکھانے کا زیادہ پریشر ہوگا، مستقبل میں کسی بھی سانحے کے بعد صرف سرجیکل سٹرائیک کا غلغلہ نہیں ہوگا بلکہ بات اس سے آگے جائے گی، اب ہم یہ جان گئے ہیں کہ مسٹر مودی بڑے سے بڑا رسک لینے سے نہیں گھبراتے (نوٹ بندی اس کی واضح مثال ہے)۔ پاکستان اگر اپنے پتے صحیح کھیلتا ہے تو مسٹر مودی وہ بھی دے سکتے ہیں جو جناب باجپائی نہ دے سکے۔ مسٹر مودی بڑے کام اور ہر کسی کو سرپرائز کرنے والے لیڈر ہیں، شاید پاکستان اور کشمیر کے لئے بھی کوئی اچھا سرپرائز ہو۔

انڈیا کی موجودہ صورت حال کو جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبدالله نے اس طرح پیش کیا “اس وقت انڈیا بھر میں نریندر مودی کی ٹکر کا ایک بھی لیڈر نہیں ہے، اور سیاسی جماعتوں کو 2019 کا الیکشن بھول جانا چاہیے اور 2024 کے الیکشن کی تیاری کرنی چاہیے۔” آج ہم مودی کا انڈیا دیکھ رہے ہیں، جہاں ایک چائے والے نے انڈین سماج کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).