جناب آپ ڈوڈو ہیں!


انسان ایک دو پایہ ہے، جو سائنسی اعتبار سے عام ممالیہ جانور ہی ہے اور سوائے اس کے کہ وہ اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے کچھ خاص آوازوں کو ایک خاص تر تیب سے ادا کر کے، ’زبان‘ نامی کوڈز کا ایک مجموعہ وضع کر چکا ہے، باقی اس میں اور جانوروں میں کچھ خاص فرق نہیں ہے۔

میں اکثر سوچا کرتی ہوں کہ انسان کے پاس نہ تیز ناخن ہیں، نہ ہی دانت، نہ سانپ کا سا زہر اور نہ ہے چیتے کی سی لپک۔ نہ ہاتھی کا ڈیل ڈول ہے اور نہ باز کی سی اڑان بھرنے کی صفت۔ آخر خدا نے اسے اپنے دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے کیا چیز عطا کی ہے؟ کافی عرصے تک غور کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ناطقہ ہی انسان کی وہ صفت ہے جس سے انسان اپنے مخالف کو ختم کر سکتا ہے۔

سائنس ہی کے اصول کے مطابق، جانداروں کا دوسری انواع کے ساتھ ساتھ اپنی نوع سے بھی مقابلہ ہوتا ہے۔ اس مقابلے میں جانور ایک دوسرے کو دعوتِ مبارزت دیتے ہیں اور دلیروں کی طرح خاموشی سے لڑتے ہیں، جو ہار جاتا ہے وہ بہت وقار سے میدان چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔

یہ حیوانی جبلت ہے اور جانور اس کے تحت بڑے آرام سے رہ رہے ہیں، نہ ان کی دنیا میں طویل جنگیں ہوتی ہیں، نہ معاشی بد حالی آتی ہے اور نہ ہی کوئی کسی کو ماں بہن کی گالیاں دیتا ہے۔
جوں جوں انسان کے پاس ذخیرۂ الفاظ بڑھتا گیا، جنگیں کم ہوتی گئیں۔ سیاست کا پورا شعبہ زبان کی بنیاد پہ کھڑا ہے۔ اپنے خیالات کو ایک نظام کی شکل میں لانا، الفاظ کے ذریعے اسے دوسروں تک پہنچانا اور ان کو اپنا ہم خیال بنانا۔ سیاسی عمل انسانوں کو جانوروں سے ممیز کرتا ہے۔ سیاست کے داؤ پیچ انسان کی عقل اور فہم کی برتری کو ثابت کر کے انسان کو واقعی اشرف المخلوقات بناتے ہیں۔
گالی دینا اور غیر مہذب الفاظ مثلاً ’پھٹیچر، ریلو کٹا‘ وغیرہ استعمال کرنا اس بات کا واضح اعلان ہے کہ ہم مہذب نہیں اور سائنس کا اصول یہ بھی ہے کہ کمزور جانور طاقتور جانور سے ہار جاتا ہے۔ آج کے انسان کے پاس صرف اور صرف الفاظ کی طاقت ہے۔ بد زبانی اس وقت کی جاتی ہے جب انسان مقابل کو نقصان پہنچانے کا خواہش مند ہو۔

یوں تو ہمارے ملک کے قریباً سارے ہی لوگ اس نعمت سے مالا مال ہیں مگر ہمارے سیاستدانوں کی بدزبانی کے تو کیا کہنے۔ زبانیں خیر سے کندھے پر پڑی ہیں۔ زبان کے نیچے زبان ہے اور جب یہ زبان پھسلتی ہے تو ایسے پھسلتی ہے جیسے آڑھی گوٹ پہ میرٹھ کی قینچی!

ملکِ عزیز میں سیاست کا گٹر ابلتا میں نے بارہا دیکھا۔ والد صاحب مرحوم کے عملی سیاست سے دست کش ہو کر گوشہ نشین ہونے کے پیچھے ایک ہی وجہ تھی، ان کے اپنوں اور پرایوں کا یکساں معنی خیزی سے کہنا، ’دیکھ لیجیے، آپ بیٹیوں والے ہیں۔ ‘ یہ دھمکی کسی ایسے کنویں سے بلند ہوتی تھی، جہاں زمانہ جاہلیت میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا۔ ان ہی دنوں بے نظیر بھٹو پاکستان واپس آئیں اور خوب اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں رضیہ سلطان کے دور میں کھڑے تھے اور یوں تو ہم اپنے اپنے اب و جد کو کسی کسی علاقے کا ظاہر کرتے ہیں مگر جہالت کا یہ مظاہرہ کرتے ہوئے، رنگ و نسل کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔

سائنس ہی کے مطابق، جانور اپنی ماداؤں کی بلا تفریق حفاظت کرتے ہیں، تاکہ ان کی نسل چلتی رہے۔ جاہل سے جاہل معاشرے میں بھی عورت کی عزت کی جاتی ہے۔ ڈوڈو کی نسل معدوم ہو گئی ہے۔ ڈوڈو کو کم عقل بھی سمجھا جاتا تھا کہ آسانی سے شکاریوں کے دام میں آجاتے تھے۔ مگر میرے خیال میں ایسا نہیں ڈوڈو کم عقل تھے مگر ان کی معدومی کی وجہ کچھ اور تھی۔

ڈوڈو لازمی اپنی ماداؤں سے خوراک کے حصول کے لیے لڑتے ہوں گے۔ اگر ان کے پاس الفاظ ہوتے تو وہ یقیناً ایک دوسرے کی ماداؤں کو، ’ٹریکٹر ٹرالی‘، ’آنا تو ذرا چیمبر میں‘، ’دو نمبر عورت‘ اور ’تم تو فلاں کبوتر کے گھر آتی جاتی ہو‘، کہہ کہہ کے مار دیتے۔ مگر وہ اتنے مہذب نہ تھے۔ چونچیں وونچیں مارا کرتے ہوں گے، جانور کہیں کے۔

عورتوں کے بارے میں گندی زبان استعمال کر کے ثابت کر دیا جاتا ہے کہ کہ حیاتیاتی طور پہ آپ ایک ڈوڈو ہیں اور معدومی کے کنارے پہ کھڑے ہیں۔ کچھ عرصے ہی کی بات ہے، سفید مونچھوں، ذرا سی لمبوتری کھوپڑی اور کھونٹی دار ناک والی یہ کھوپڑیاں کسی میوزیم میں ایسے ہی سجی ہوں گی جیسے ڈوڈو کی باقیات۔ عورتوں پہ زبانی اور جسمانی تشدد کرنے والے تمام صاحبان کو شنید ہو کہ آپ برباد ہونے والے ہیں اور جناب! آپ ڈوڈو ہیں!

بشکریہ بی بی سی اردو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).