خلائی مخلوق کی دنیا میں آمد سے جُڑے نظریات اور ان کی حقیقت کیا ہے؟

ٹونی ملیگن - دا کنورزیشن


اُڑن طشتری، خلائی مخلوق
برطانیہ کی آبادی کا پانچواں حصہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خلائی مخلوق ہمارے سیّارے کا دورہ کر چکی ہے
یہ خیال کہ خلائی مخلوق نے کبھی دُنیا کا چکر لگایا تھا بہت مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ برطانیہ کی آبادی کا پانچواں حصہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ خلائی مخلوق ہمارے سیّارے کا دورہ کر چکی ہے، جبکہ سات فیصد کہتے ہیں کہ انھوں نے اُڑن طشتری کو دیکھا ہے۔

امریکہ میں اس طرح کے خیالات پر یقین رکھنے والوں کی تعداد برطانیہ سے بھی زیادہ ہے۔ وہاں کے شہریوں کا ماننا ہے کہ اُڑن طشتریوں کا دیکھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ زمین سے باہر خلا میں بھی زندگیاں آباد ہے۔

ایسا ماننے والوں کی تعداد امریکہ میں 1996 میں 20 فیصد تھی جو کہ 2022 میں بڑھ کر 34 فیصد ہو گئی۔

تاہم لوگوں کا یہ یقین حقیقت کے برعکس ہے کیونکہ ہم نے آج تک خلائی مخلوق کے وجود کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا۔ زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ لوگ یہ مانتے ہیں کہ خلائی مخلوق کے وجود کی تصدیق صرف ان کے زمین کا چکر لگانے سے ہوسکتی ہے۔

اگر خلائی مخلوق کی موجودگی کا کوئی ثبوت دکھے گا تو وہ کسی دور دراز سیارے سے ہم تک کسی سگنل کے ذریعے پہنچنے کا زیادہ امکان ہے۔

میں نے اس حوالے سے ایک مضمون لکھا تھا جو کہ ’پروسیڈنگز آف دا انٹرنیشنل ایسٹرونومِکل یونین‘ کے جرنل میں شائع ہوا تھا۔ میں نے لکھا تھا کہ خلائی مخلوق کے زمین کا چکر لگانے جیسے نظریات پر یقین اب کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ اب یہ ایک بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے۔

یہ یقین اتنی تیزی سے پختہ ہو رہا ہے کہ کم از کم امریکہ میں سیاستدان اس پر ردِعمل دے رہے ہیں۔

اس حوالے سے امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے ریلیز کی گئی معلومات ملک میں بڑی توجہ کا مرکز رہی ہے۔

لوگوں کا الزام ہے کہ عسکری قوتیں اور کاروباری افراد کا ایک خفیہ گروہ اپنے ذاتی مفادات کے سبب خلائی مخلوق کے حوالے سے سچ کو چھپا رہا ہے۔

خلائی مخلوق کے حوالے سے سچ چھپایا جا رہا ہے؟

خلائی مخلوق کی زمین پر آمد سے زیادہ یقین لوگوں کو اس بات پر ہے کہ ہمارے سیّارے پر ان کے وجود کو چھپایا جا رہا ہے۔

سنہ 2019 میں گیلپ کے سروے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ امریکیوں کا ماننا ہے کہ ’امریکی حکومت اُڑن طشتریوں کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتے ہے لیکن بتا نہیں رہی۔‘

پچھلی کئی دہائیوں میں اس ٹرینڈ میں کمی نہیں بلکہ شدت ہی دیکھنے میں آئی ہے۔

سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے 1976 میں اپنی صدارتی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ خلائی مخلوق کے حوالے سے دستاویزات شائع کریں گے۔ اس سے قبل کئی برس پہلے انھوں نے خود بھی اُڑن طشتری دیکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ہوسکتا ہے جمی کارٹر نے سیارے وینس کو دیکھا ہو جو کہ اکثر نظر آتا ہے۔

سابق سیکریٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی ایک مرتبہ اشارہ دیا تھا کہ وہ خلائی مخلوق کے وجود کے حوالے سے ’پینٹاگون کی فائلوں کو کھولنے‘ کی کوشش کریں گی۔

اُڑن طشتری، خلائی مخلوق

خلائی مخلوق اور اُڑن طشتریوں سے متعلق افواہوں کے سبب حقیقی سائنسی ریسرچ اور کمیونیکیشن پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں

دوسری جانب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ماضی میں یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ سوچیں گے کہ ’روزویل ڈاکیومنٹس‘ کو ڈی کلاسیفائی کیا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔

ان ڈاکیومنٹس میں اُڑن طشتری کے مبینہ کریش اور خلائی مخلوق کی لاشوں کی مبینہ برآمدگی کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ سابق صدر بِل کلنٹن نے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے ایک مرتبہ اپنے چیف آف سٹاف جان پوڈیسٹا کو امریکی فضائیہ کے خفیہ اڈے ایریا 51 بھیجا تھا تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ خلائی مخلوق کی ٹیکنالوجی کے استعمال کی افواہیں سچ ہیں یا جھوٹ۔

واضح رہے جان پوڈیسٹا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو اُڑن طشتریوں سے متعلق ہر چیز کے بارے میں پُرجوش نظر آتے ہیں۔

خلائی مخلوق اور اُڑن طشتریوں کے حوالے سے دستاویزات شائع کرنے کے سب سے بڑے حامی ڈیموکریٹک سینیٹر چک شُمر تھے۔ انھوں نے ہی 2023 میں تین سینیٹرز کے ساتھ مل کر ایک بِل پیش کیا تھا جس کے بعد پینٹاگون نے ’انوملوس فینومینا‘ سے متعلق دستاویزات ریلیز کیے تھے۔

پینٹاگون کی جانب سے ان دستاویزات کو شائع کرنے کا سلسلہ موجود صدر جو بائیڈن کے دور میں شروع ہوا تھا۔ اب تک خلائی مخلوق سے کسی کا سامنا نہیں ہوا اور ان کے قریب سے بھی کوئی نہیں گزرا لیکن اس حوالے سے افواہیں اب بھی پھیلائی جا رہی ہیں۔

معاشرے کو درپیش مسائل

ان تمام افواہوں سے سازشی نظریات کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے، جس کے سبب جمہوری اداروں پر سے لوگوں کا اعتماد متزلزل ہو ریا ہے۔

متعدد مرتبہ ایسے مطالبے سامنے آ چکے ہیں کہ کسی طرح ایریا 51 میں گھسا جائے اور 2021 میں کیپیٹل ہِل میں ڈنڈا بردار جتھوں کے گھس جانے کے بعد ایسا ہونے کے امکانات مزید بڑھ گئے ہیں۔

خلائی مخلوق اور اُڑن طشتریوں سے متعلق افواہوں کے سبب حقیقی سائنسی ریسرچ اور کمیونیکیشن پر بھی منفی اثرات پڑ سکتے ہیں۔

جزوی طور پر ڈزنی کی ملکیت یوٹیوب چینل ’ہسٹری‘ پر تسلسل سے ’قدیم خلائی مخلوق‘ کے حوالے سے شو نشر ہوتا ہے۔ اس شو کا اب 20واں سیزن چل رہا ہے اور اس چینل کے ایک کروڑ 38 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔

دوسری جانب امریکی ادارے ناسا کے آسٹربائیولوجی چینل کے صرف 20 ہزار سبسکرائبرز ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی دلچسپی حقیقی سائنس میں کم ہے اور انٹرٹینمنٹ میں زیادہ۔

اُڑن طشتری، خلائی مخلوق

جزوی طور پر ڈزنی کی ملکیت یوٹیوب چینل ’ہسٹری‘ پر تسلسل سے ’قدیم خلائی مخلوق‘ کے حوالے سے شو نشر ہوتا ہے

قدیم باشندوں کو لاحق خطرات

خلائی مخلوق کا زمین پر چکر لگانے جیسا بیانیہ اکثر تاریخ کو مسخ کرنے کا باعث بھی بنتا ہے اور اس کے سبب دنیا کے قدیم باشندوں کے نظریات کو بھی ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

الیگزینڈر کزانتسو نے 1946 میں فکشن پر مبنی کہاںی ’ایکسپلوژن: دا سٹوری آف آ ہائیوتھیسس‘ لکھی تھی اور کہا جاتا ہے کہ یہی سازشی نظریات کو فروغ دینے کی طرف پہلے قدم تھا۔

اس کہانی میں تنگوسکا میں شہاب ثاقب گرنے کے سبب ہونے والے دھماکے کو خلائی مخلوق کے انجن سے جنم لینے والی سرگرمی کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔

کزانتسو کی اس کہانی میں ایک زندہ بچ جانے والے کردار کا ذکر تھا جس کے پاس بیماروں کو شفا بخشنے والی طاقت آجاتی ہے اور پھر اسے دنیا کے قدیم باشندے اپنے گروہ میں شامل کر لیتے ہیں۔

ناسا اور سپیس سائنس کمیونٹی قدیم اقوام کی جانب سے لیے جانے والے ’نیٹیو سکائی واچرز‘ جیسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد ستاروں سے متعلق کہانیوں کو زندہ رکھنا ہے۔

اس عنوان پر قدیم اقوام نے وسیع ریسرچ کر رکھی ہے۔

لیکن اُڑن طشتریوں کے وجود پر ایمان رکھنے والے افراد اکثر قدیم باشندوں کی کہانیوں کو اُڑن طشتریوں سے منسوب کر دیتے ہیں او اسے کسی چھپائی گئی تاریخ کی طرح پیش کرتے ہیں۔

لیکن موجودہ زمانے میں خلائی مخلوق کی زمین پر آمد جیسے نظریات قدیم اقوام کی طرف سے نہیں پھیلائے گئے، بلکہ یہ خیالات علاقائی تعصب کا شکار یورپ سے سازشی نظریات کی شکل میں آئے ہیں۔ ان نظریات کو یہ ’واضح‘ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کہ یورپی نوآبادیاتی دور سے پہلے بھی جنوبی امریکی جیسے مقامات پر شہری آبادی موجود تھی۔

اس کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ قدیم اقوام کے پاس دہائیوں سے ایڈوانس ٹیکنالوجی موجود ہے۔

ایسے نظریات کے حامل لوگوں کا ماننا ہے کہ ایک وقت تھا جب ہر قدیم آبادی وکانڈا جیسی تھی۔ وکانڈا ایک خیالی ملک ہے جس کا ذکر مارول کی کہانیوں کی کتابوں میں ملتا ہے۔

اگر ان کہانیوں کو صرف انٹرٹینمنٹ کی حد تک رکھا جاتا تو ٹھیک تھا لیکن بات اس سے بہت آگے نکل گئی۔

خلائی مخلوق کی دنیا میں آمد کے بیانیے کے سبب جنت اور جہنم سے متعلق قدیم کہانیوں کو دوبارہ لکھنے یا مسخ کرنے کی کوششیں ہوتی ہیں۔

یہ صرف قدیم اقوام کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر اس شخص کے لیے مسئلہ ہے جو قدیم روایات پر عمل کرتا ہے۔

اس کے سبب ہمارے ماضی کو دھچکا لگتا ہے۔ جب بات ہمارے آباؤ اجداد کی ہوتی ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان سے منسوب کہانیاں بہت انوکھی ہیں، بالکل ویسی ہی جیسی قدیم اقوام کی ستاروں سے متعلق کہانیاں ہوتی ہیں۔

مثال کے طور پر کہکشاں سے منسوب کہانی جو تقریباً پانچ ہزار برس پُرانی ہے۔

خلائی مخلوق کے زمین پر چکر لگانے کی باتوں پر یقین رکھنے والے ان کہانیوں پر اکثر شدید تنقید کرتے ہیں۔

یہ بات مزید واضح ہوتی جا رہی ہے کہ لوگ خلائی مخلوق کی دنیا میں آمد کی کہانیاں صرف لطف لینے کے لیے نہیں گھڑتے بلکہ اس کے ہمیں سنگین اور خطرناک نتائج نظر آ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33845 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments