کوئی حد تو ہو نفرتوں کی، تقسیم کی!


یار کسی طریقے سے یہ کرپشن والا معاملہ نمٹ جائے تو جان چھوٹے۔ بھائی کوئی مسئلہ نہیں، کل صبح کام ہو جائے گا، کامران صاحب اپنے عزیز ہیں اور برادری بھی ایک ہی ہے۔ وہ ہر دم حاضر ہیں ویسے بھی اپنی ذات، برادری والوں کے ہر کام کے لیے۔ آپ فکر مت کریں، بس ہو جائے گا۔ یہ پہلا رویہ تھا۔

اوئے ہندوستوڑے! میاں کہاں مٹر گشت ہو رہی اس وقت؟ ابے تجھے اٹھا کر لے جائیں گے اور کوئی پتا بھی نہیں چلے گا کہ بھیا کہاں گئے۔ بوری میں بند ٹکڑے آئیں گے تیرے۔ یہ ایک عام سا دوسرا منظر ہے۔

اوئے یہ تو پنجابی ہے، انہوں نے ہی تو سارا ملک لوٹ کر کھا لیا۔ پانی پہلے ہمارے حصے کا بھی نہیں آنے دیتے اوپر سے کالا باغ ڈیم کے خواب، پنجاب نے ملک کو برباد کر دیا۔ یہ تیسرا سین چلتا ہے۔

سندھو دیش، بن کر رھے گا۔ ہمارا سندھو دیش سب سے الگ اور آزاد بنے گا! ارے جاؤ جاؤ، بہت دیکھے ہیں ایسے نعرے، اٹھاؤ ڈالو اس کو گاڑی میں۔ یہ چوتھا رویہ ہے۔

یہ سب وہ ڈائیلاگ ہیں جو ہم لوگ اپنے آس پاس ہر روز ہی سن رہے ہوتے ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ان سب علیحدگیوں کے بعد کیا عوام کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا بننے والے سندھو دیش کی وجہ سے یہ جاگیردارانہ نظام، جہالت اور غربت ختم ہو جائے گی؟ کیا تھر کے گھر گھر میں فلٹر پانی فراہم ہونا شروع جائے گا؟ ہاں، اردو بولنے والوں کی جگہ اس سندھو دیش میں کہاں ہو گی؟ بلوچستان آزاد ہو گا تو کیا ان کے سردار ان پر اسی طرح مسلط نہیں رہیں گے؟ پختونوں کو ان کے حقوق کب اور کہاں ملیں گے؟

کچھ بات سیاسی جماعتوں کی ہو جائے۔ اے این پی والے پختون نیشنل ازم کے داعی ہیں، ٹھیک ہے، تو جب سوویت یونین نے افغانستان میں پختونوں کا قتل عام کیا تب کہاں تھے آپ کے راہنما؟ پی پی والوں کی سندھ میں کیا کارکردگی رہی؟ تھر کی خشک سالی سے مرنے والے 300 سے زائد بچے کون بھول سکتا ہے۔ ن لیگ نے کیا کیا اب تک جنوبی پنجاب کے لیے؟ فقط لاہور میں ہی سارا پنجاب کیوں نظر آتا ہے انہیں؟ پی ٹی آئی ٹائیگرز کو تو کیا کیا یاد کرایا جائے، اکوڑہ خٹک کا مدرسہ؟ وہ اے پی ایس؟ وہ دھاندلی؟ یاد آتا ہے کچھ؟

شیعہ، دیوبندی، بریلوی، سرائیکی، سندھی، بلوچ، پشتون، پنجابی، سید، ملک، خان، رانا، مہاجر، راجپوت، رانگڑ، آرائیں، چانڈیو، لغاری، یوسفزئی اور تقسیم در تقسیم کے اس لامتناہی عمل نے ہمارے ملک کو ایسا نقصان پہنچایا ہے کہ ازالہ کرنے کے لیے کئی برس درکار ہیں۔ ہم تباہی کے پاتال میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔

تقسیم کا عمل انفرادی شناخت سے شروع ہو کر کسی مخصوص گروہ یا طبقہ یا ہم خیالوں کے اجتماع پر منتج ہوتا ہے۔ یہ تقسیم مذہب، زبان، نسل، ذات، سیاست، علاقے، رنگ یا نظریات کسی بھی بنا پر پھیلائی جا سکتی ہے۔ تقسیم اور تفریق قدرت کے بخشے ہوئے ایک منفی جذبے ’غرور یا فخر‘ کو جنم دیتی ہے اور پھر معاشرے میں اپنا نفرت انگیز کردار ادا کرتی ہے۔ عالمگیریت کے اس دور میں اگرچہ دنیا ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے پھر بھی وطن عزیز میں ہر انسان، طبقے اور گروہ کی ایک خاص شناخت موجود ہے اور یہ ہماری انسانیت تک کو بانٹے ہوئے ہے۔ ہم انفرادی شناخت سے شروع ہو کر مجموعی شناخت کا سفر کرتے ہیں جو قبائلی اور نسلی تفاخر پر جا کر ختم ہوتی ہے اور جس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

قومی یکجتی پر خاک ڈال کر علاقائی اور صوبائی تعصب کو فروغ دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ ملک کی ترقی کو پس پشت ڈال کر قوم ایک بکھرا اور بپھرا ہوا ہجوم بن چکی ہے۔ یہ سب باتیں کوئی نئی نہیں ہیں۔ تمام لوگ ان باتوں سے بھرپور واقف ہیں۔ شناخت اور تقسیم سے جڑی ان معاشرتی برائیوں اور نفسیاتی بیماریوں نے برادری سسٹم کو فروغ دے کر عدل و انصاف کے تمام دروازوں کو دیواروں میں بدل دیا ہے۔ ہم اس قدر تقسیم ہو چکے ہیں کہ کسی دوسرے کو اپنے برابر دیکھنا تو کیا سمجھنا تک گوارا نہیں کرتے۔ فقط حقوق ہمارے ہیں، باقی سب کے ذمے صرف فرائض ہیں۔ ہم سب سے برتر ہیں، باقی سب محکوموں سے بھی بدتر۔

بات چلی ایک نوٹس سے جو کھ میرے ملک میں بستے پختون بھائیوں کے حلیہ کے بارے منافرت اور تعصب پھیلانے کا سبب بن رہا تھا جو حفظ ماتقدم کے تحت حلیہ کی بنا پر دہشتگردوں کے ناپاک عزائم کو روکنے کے لئے جاری کیا گیا۔ جس میں بہت ساری خامیاں نمایاں تھیں اور بلا وجہ کی نفرت اور صوبائی فساد اس سے جڑا تھا۔ اس نوٹس کو رد کرنے اور اس کیاصلاح کرنے کے بےشمار سہل اور عام فہم طریقے موجود تھے۔ یہ اتنا خام تھا کہ بعد میں اس کی تردید بھی شائع کرنا پڑی۔ مگر ہمارے بھرپور منفی رویے کی تشہیر تو ہر حال میں ہونا تھی سو بنا کچھ سوچے سمجھے سوشل میڈیا ہو الیکٹرانک میڈیا، نام نہاد لبرلز ہوں یا مذہبی حلقوں کے نمائندے، کامریڈز ہوں، سماجی کارکن ہوں، خود ساختہ سیاسی لیڈر اور سیاسی راہنماؤں کے چمچہ گیر ہوں، سب یک زبان ہو کر اس پراپیگنڈے کا شکار ہو گئے اور ایک دوسرے پر لعن طعن کرنا شروع ہو گئے۔ گالم گلوچ اور نفرتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا ایسا سلسلہ شروع ہو گیا جس کا نہ تو کوئی سر تھا نہ پاوں۔ کوئی پنجاب کا پانی بند کرنے پر مصر تھا، تو کسی نے پنجابیوں کو جیل میں ڈالنے کی ویڈیوز شیئر کیں۔ کوئی اردو بولنے والوں کو دشمن اور غدار کہنے میں مصروف تھا تو کوئی سندھی اور بلوچیوں کو علیحدگی پسند اور ملک دشمن گرداننے میں ماہر، بغض کبھی امن پر منتج نھیں ہو سکتا، تعصب کبھی ترقی کا سبب نھیں ہونسکتا، تقسیم کبھی یکجہتی کو فروغ نہیں دے سکتی، نفرت کبھی بھی محبت کی داعی نہیں ہو سکتی۔ انتشار اور بگاڑ کبھی سکون اور طمانیت کو جنم نہیں دیتے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ نفرت کے لیے ہی دلیلیں کیوں ڈھونڈتے ہیں؟ آئیں محبت کی بات کریں، آئیں یکجہتی کی بات کریں، آئیں تعصبات کو کچلنے اور فقط پاکستانیت کو فروغ دینے کی بات کریں۔ کیونکہ انسان ہونے کے بعد ہماری اصل پہچان اور شناخت صرف اور صرف پاکستان ہے۔

بلوچ دستار ہو، یا سندھی ٹوپی، پنجابی پگ ہو یا چترالی کیپ، سندھی اجرک ہو، سرائیکی سجرک ہو، یا پشاوری دھسہ، نوروزی کھیڑی ہو، یا کھسہ، یا پشاوری چپل، اتن ہو، بھنگڑا ہو، لڈی ہو، یا پائل، ستار ہو، ڈھول ہو، یہ سب ہماری زمین کے مختلف رنگ ہیں، اور ان رنگوں کی دھنک پاکستان ہے۔ ہمیں بس ان رنگوں کو اکھٹا رکھنا ہے۔ رنگوں کو بکھرنے سے بچائیے، نفرت اور تقسیم مٹا کر پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیے۔ رنگ بکھر گئے تو نہایت بدنما اور ملجگا روپ دھاریں گے۔ نسل پرستی اور قوم پرستی کے فرق کو پہچانیں۔ بطور پاکستانی، ایک بے ترتیب ہجوم کی نسبت ایک قوم کی صورت ڈھل جانے میں ہی ہم سب کی بہتری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).