صاحب! یہ جنسی ہراسانی ہے ویلنٹائین نہیں


اس عاصمہ جہانگیر کو ذرا دیکھو پاکستانی نوجوان لڑکوں کو یہ تربیت اور ترغیب دیتی ہیں کہ وہ لڑکیوں کو جنسی طور پر ہراساں کریں۔ اسی لئے وہ ویلنٹائین ڈے منانے کی حمایت بھی کرتی ہیں تاکہ ان کے تربیت یافتہ بے راہرو لڑکے ویلنٹائین کے بہانے عاصمہ جہانگیر سے حاصل شدہ جنسی ہراسانی (sexual harassment) کرنے کے نالج کو سڑکوں پر عملی طور پر آزما سکیں۔ کوئی حد ہوتی ہے بے حیائی کی بھی۔

آپ نے بھی ضرور دیکھا ہو گا جو اس ویلنٹائین کے دن لاہور میں ہوا۔ اور اگر نہیں دیکھا تو یوٹیوب پر جا کر ابھی دیکھ لیں۔ لاہور کی شاہراہوں پر کئی جگہ نوجوان لڑکے کھڑے تھے۔ انہوں نے ہاتھوں میں سرخ گلاب کے درجنوں پھول اٹھا رکھے تھے۔ وہ لڑکے عاصمہ جہانگیر کے کہنے میں آ کر ویلنٹائین ڈے منا رہے تھے۔ اس لئے وہاں سے گذرنے والی ہر اجنبی لڑکی کو پھول دینے کی کوشش کرتے تھے۔ اور وہاں سے گذرنے والی لڑکیاں اتنی بدتمیز تھیں کہ اجنبی لڑکوں سے پھول لینے پر راضی ہی نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن لڑکے بھی چونکہ عاصمہ جہانگیر کے تربیت یافتہ تھے اور ان کی طرح ہی ضدی اور خود سر تھے اس لئے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے اور لڑکیوں کو زبردستی پھول دینے پر بضد تھے۔

ادھر سے گذرنے والی لڑکیوں نے بہت برا منایا۔ اپنی طاقت کے مطابق احتجاج کیا۔ کچھ تو تھک ہار کر رونے بھی لگیں اور مدد کو بھی پکارا لیکن کون ان کی مدد کو آتا، سب لوگ تو عاصمہ جہانگیر کے حکم پر ویلنٹائین منانے پر تلے ہوئے تھے۔ سب دیکھنے والوں کو اب خیال آ رہا تھا کہ یہ ویلنٹائین ڈے منانا کتنا خراب ہے اور اس سے ہمارے معاشرے میں بے حیائی کتنی تیزی سے پھیل جائے گی۔ بات اتنی بڑہ گئی کہ اس ملک میں غیرت اور حیا کے رکھوالوں کو بیچ میں آنا پڑا۔

ایک ٹی وی چینل کے لوگ آئے انہوں نے آ کر اجنبی لڑکیوں کو چوراہوں پر پھول دینے والے لڑکوں سے پوچھا کہ تم کون ہو اور کس نے تمہیں ویلنٹائین منانے کی ترغیب دی ہے؟ ان سب لڑکوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے انہیں ایسا کرنے کو کہا ہے۔ ٹی وی والوں نے پوچھا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے تو انہوں نے ”ویلنٹائین ڈے منانے کا تربیتی کورس“ کامیابی سے پاس کرنے کی اسناد دکھائیں۔ ان اسناد پر عاصمہ جہانگیر کے دستخط موجود تھے۔ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ ساتھ ماروی سرمد، فرزانہ باری اور فوزیہ سعید کے نام بھی تربیت کاروں میں موجود تھے۔ اس طرح سے معاشرے کے خلاف ان عورتوں کی اس سازش کا بھانڈہ چوراہے میں پھوٹ گیا جو انہوں نے ویلنٹائین ڈے کے روپ میں مچا رکھی تھی۔

با حیا لوگ اور ان کا نجی ٹی وی چینل جو پاکستانی معاشرے کو اس سازش سے بچانا چاہتا تھا انہوں نے عاصمہ جہانگیر اور اس قماش کی دوسری سازشی اور خود سر عورتوں سے رابطہ کیا اور اپنے ہی معاشرے کے خلاف اس سازش کے متعلق ان سے پوچھا۔ لیکن کہاں جناب یہ چالاک خواتین ہیں بات کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں اور اصل موضوع کی طرف آتی ہی نہیں ہیں۔

کہنے لگیں یہ لڑکے جو کچھ کر رہے تھے وہ ویلنٹائین ڈے کا اظہار محبت نہیں بلکہ جنسی ہراسانی کہلاتا ہے اور یہ عورتوں کے خلاف ایک گھناؤنا جرم ہے۔ اب دیکھو سازش پکڑے جانے پر شرمندہ ہونے کی بجائے انہوں نے موضوع بدل لیا اور جو کچھ وہ لڑکے کر رہے تھے اس کو ویلنٹائین ہی کہنے سے انکار کر دیا۔ کہنے لگیں کہ ویلنٹائین ڈے منانے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سڑکوں اور چوراہوں پر اجنبی لڑکیوں کو پھول دینے کی کوشش کریں۔ اب آپ ہی بتائیں اگر یہ ویلنٹائین نہیں تو پھر ویلنٹائین اور کیا ہوتا ہے؟

کہنے لگیں ویلنٹائین کا مطلب ہے کہ آپ اپنی محبت کو گلاب کا سرخ پھول دیں اور اظہار محبت کریں۔ وہ محبت آپ کی بیوی، میاں، منگیتر یا کوئی بھی آپ کا دوست مرد یا عورت ہو سکتا جس کے لئے آپ کے دل میں ایک خاص جگہ ہو اور وہ بھی آپ کو پسند کرتا یا کرتی ہو اور آپ کی ویلنٹائین ہونے کی خواہش رکھتی ہو اور اس بات سے آپ کو آگاہ بھی کر رکھا ہو۔ آپ خود ہی دیکھیں ان کی بات کتنی عجیب بلکہ بھونڈی ہے۔

میاں بیوی کا تو ایک دوسرے کو پھول دینا بنتا ہی نہیں۔ بیویوں کا گھروں سے باہر جا کر پھول خریدنا غلط ہے اور میاں کو اپنی بیوی کے ساتھ اس طرح کے لاڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس سے بیوی بگڑ جاتی ہے اور گھر کے حالات خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔

رہی بات ان کی طرف سے بیان کیے گئے دوسرے رشتوں کی تو اول تو وہ بے حیائی میں آتے ہیں اور ہمارے جیسے با حیا معاشرے میں ان کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ بہت سے لوگوں کو وہ عیاشی میسر ہی نہیں ہے۔ اس طرح وہ لوگ کہاں جائیں جو خود تو بے چارے بہت سی لڑکیوں سے دل سے پیار کرتے ہیں لیکن ابھی تک انہیں کوئی مثبت جواب نہیں مل سکا ہے۔ ہم سے یہ امتیازی سلوک برداشت نہیں ہو گا۔ ہم ویلنٹائین ڈے منانے کے اس طریقے سے بالکل متفق نہیں ہیں۔

ہم عاصمہ جہانگیر اور اس قماش کے دوسرے لبرل خواتین و حضرات کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ پہلے بھی آپ دو بالغ انسانوں کے درمیان مرضی سے قائم کردہ جنسی رشتے کو ریپ سے الگ کرنے کا واویلا کرتے رہتے ہیں تاکہ عورتیں ریپ کا ڈھنڈورا پیٹ کر بیچارے مردوں کو ڈراتی رہیں۔ اور مرد بے چارے ذرا سی زبردستی پر جیلیں کاٹتے پھریں۔ حالانکہ وہ زبردستی ہوتی عورتوں کی دعوت پر ہی ہے۔

اسی طرح سے اب آپ چوراہوں کے بیچ اجنبی لڑکیوں کو زبردستی پھول دینے کے عمل کو جنسی ہراسانی کہہ کر ایک نیا شوشا چھوڑ رہی ہیں۔ جبکہ یہ جنسی ہراسانی تو سراسر مغرب زدہ لڑکیوں کا ایک ڈرامہ ہے اور ہمارے معاشرے میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik