سنسر شپ کی اس فضا میں متبادل بیانیہ کی باتیں دھوکہ ہیں


سب سے پہلا شخص جس نے سرکاری سنسر شپ کی پالیسی کے خلاف اور آزادی اظہار رائے کے حق میں پرزور آواز بلند کی وہ مشہور شاعر جان ملٹن تھا۔ سترہویں صدی کے تقریبا ًوسط میں حکومت نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کی رو سے حکومت کسی بھی علمی مواد کو سنسر کر سکتی تھی یوں ہر پرنٹنگ پریس کے لئے لازمی قرار پایا تھا کہ وہ حکومت سے لائسنس لے اور حکومتی ضوابط کی پابندی کرے ۔ ملٹن اس پارلیمانی بل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے ایک کتابچہ Areopagitica لکھا جس میں اس نے اس قانون کو غیر منصفانہ قرار دیا۔ اس قانون کی مخالفت میں اس نے درج ذیل دلائل دیئے ۔

1۔ نیکی کی اس وقت تک صحیح شناخت ممکن نہیں جب تک کہ بدی کی بھی پہچان نہ ہوجائے۔ قارئین اس وقت تک صحیح بات تک نہیں پہنچ سکتے جب کہ وہ تمام متعلقہ آراءسے واقف نہ ہو جائیں ۔

2۔ سنسر شپ کی طاقت و اختیار ریاستی بیوروکریسی کے پاس ہوتا ہے۔ یہ بیوروکریسی کیا اس بات کا دعویٰ کر سکتی ہے کہ وہ ’عالم کل‘ ہے جو پہچان کر سکتی ہے کہ کون سا مواد صحیح ہے اور کون سا غلط ؟ علم پر کلی دسترس کی صلاحیت کسی بھی فرد کے پاس نہیں اس لئے سنسر شپ کا اختیار کسی کو بھی نہیں دیا جا سکتا۔

3۔ سچائی جمود کا شکار ہو جاتی ہے جب اسے ارتقا کے لئے حکمرانوں سے اجازت طلب کرنی پڑ جائے۔

4۔ ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ جس چیز کو غلط سمجھے اس کا انکار کرے اور خاموش نہ رہے ، یوں سنسر شپ آزادی اظہار رائے پر حملہ ہے اور محض اس دعویٰ پر قائم ہے کہ صرف وہی بات صحیح ہے جسے حکومتی طاقت و اختیار صحیح سمجھے ۔

5۔ گورنمنٹ حسن نیت کے باوجود بھی سچائی کو سنسر کر بیٹھتی ہے حالانکہ اس کا دعویٰ محض برائی کو سنسر کرنے کا ہوتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس ایسی کوئی خدائی طاقت نہیں ہوتی جس سے وہ سچائی و جھوٹ کو صحیح صحیح چھانٹ سکے ۔

ملٹن کے بعد آزادی اظہار رائے کے حق میں سب سے موثر آواز جان لاک کی تھی جس نے اپنی کتاب A Letter Concerning Toleration میں اسے موضوع بنایا۔ لاک لکھتا ہے کہ مذہبی عقائد کا تحفظ جبر سے ممکن نہیں۔ آپ جبر سے لوگوں کے خیالات اور عقائد بدل نہیں سکتے کیونکہ ان کا تعلق فرد کے شعور اور ارادے سے ہوتا ہے۔ جبر کی فضا میں منافقت کا چلن عام ہوتا ہے اور آزادی کی فضا میں آدمی ویسا ہی خود کو ظاہر کرتا ہے جیسا وہ اصل میں ہوتا ہے۔ آدمی جس چیز کو سچائی سمجھتا ہے وہ اس وقت تک اس پر قائم رہتا ہے جب تک وہ چیز اسے سچائی لگتی ہے۔ کسی کو بذریعہ جبر اپنی رائے بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔

وطن عزیز میں پہلے سائبر لاءمتعارف کروایا گیا جس کی رو سے ریاست نے اپنے ذمہ یہ کام لیا کہ وہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ مواد پر بطور نگران اپنی بالادستی قائم رکھے گی جب اس سے بات نہ بن سکی تو اب سوشل میڈیا پر شب خون مارنے کی تیاری ہے مگر دوسری طرف وزیراعظم پاکستان نے جامعہ نعیمیہ میں نئے بیانیہ کی آرزو کا بھی اظہار کر دیا ہے ۔

آزادی اظہار رائے اور مکالمہ میں تحمل و برداشت کی ثقافت کے اعتبار سے میں یہی سمجھنے لگا ہوں کہ جہاں مغرب سترہویں صدی میں تھا ہم آج اکیسویں صدی میں وہاں کھڑے حکومت سے التجا کر رہے ہیں کہ وہ خود سے بیانیہ دینے اور لینے کی بحث سے نکلے اور بیانیہ کو آزاد مکالمہ سے سوسائتی میں خودبخود develop ہونے دے … نیز یہ کہ سنسر شپ یا نظریاتی جبر کی اس فضا میں سوسائٹی میں نئے بیانیہ کے جنم کا خواب ایسا ہی ہے جیسے کوئی کرفیو لگا کر یہ امید لگائے کہ آج بازار میں خوب خریدوفروخت ہو گی۔ حکومت و ریاست کا کام انتظامی ہے علمی و فکری نہیں کہ وہ بیانیہ کی بحثوں میں خود سے کودے اور انہیں سنسر یا پروموٹ کرے ۔ کیا ریاست سچائی پر اجارہ داری رکھتی ہے یا وہ عالم کل ہے کہ جسے سچ سمجھے گی یا جس سچ کی سر پرستی کرے گی وہی سچ ہوگا؟

ہمیں آزادی اظہار رائے اور آزاد سول سوسائٹی کی ضرورت ہے۔ ایک سماج میں ایک سے زیادہ بیانیے پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں لبرل بھی ہیں ، سوشلسٹ بھی ، سیاسی اسلام کے پرچار کرنے والے بھی ہیں اور تصوف پسند بھی ، لسانی بنیادوں پر بیانیہ ترتیب دینے والے بھی ہیں اور تاریخی جغرافیہ کو مرکزی اہمیت دینے والے بھی۔ کسی ایک بیانیہ کا جبر یا ریاستی سرپرستی سوشل کنٹریکٹ کے بنیادی تصور کے خلاف ہے ۔ ریاست اگر کچھ کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تو انسانی جانوں کا تحفظ یقینی بنائے تاکہ اختلاف رائے یا بیانیہ میں اختلاف کی بنیاد پر کوئی گولی کا نشانہ نہ بن سکے۔ جب ملک میں آئین موجود ہے جو ریاست کی ذمہ داریوں اور شہریوں کے حقوق کا تعین کرتا ہے اور اس پر تقریباً تمام شہریوں کا اتفاق رائے موجود ہے (یقینا کچھ شقیں ایسی ہیں جن پر کچھ کو اعتراض ہے اور کچھ کو نہیں مگر آئین کو بنیادی طور پر سب تسلیم کرتے ہیں ) ملک میں جمہوریت موجود ہے اور عوام کو حق انتخاب حاصل ہے کہ وہ جس بیانیہ کو اپنی سیاسی سماجی اور معاشی بہتری کے لئے موزوں سمجھیں اسے اکثریتی ووٹ سے منتخب کریں …. تو ریاست کو اور کس چیز کی ضرورت ہے ؟ ریاست اپنا کام کرے اور سول سوسائٹی کو اپنا کام کرنے دے ۔ ہم ریاست کی سچائی یا برائی پر اجارہ داری کے دعوے یا سنسر شپ کی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہیں۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan