محفوظ پاناما کیس کے فیصلے کو کیا گیا ہے یا کسی اور کو؟


تئیس فروری 2017 کو پاناما کیس کی آخری سماعت ہوئی تھی اور فیصلہ محفوظ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ بینچ کے سربراہ عزت مآب جسٹس آصف کھوسہ نے فیصلہ محفوظ ہونے کا حکم جاری کرنے سے قبل کہا کہ ’فیصلہ لکھنے میں کچھ وقت لیں گے، مقدمے کے تمام پہلووں کو مدنظر رکھ کر طویل مشاورت کریں گے، یہ ایسا مقدمہ نہیں ہے کہ جس میں کوئی مختصر فیصلہ سنایا جاتا‘۔

اس کیس کی سماعت کے دوران معزز ججوں نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ یہ صرف ایک کیس کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ عدالتی فیصلے آنے والے وقتوں کے لئے قانون بن جاتے ہیں۔ یہ ریمارکس بھی دیے گئے کہ ’کوئی بھی فریق مکمل سچ کے ساتھ سامنے نہیں آرہا، عدالت کیا کرے؟ آپ کے موکل سے تفصیلی تفتیش کی ضرورت ہے مگریہاں فوجداری نہیں سول مقدمہ سن رہے ہیں‘۔

اس سے قبل شیخ رشید نے ایک برطانوی رکن پارلیمان کی نااہلی کے لئے وہاں کی عدالت کا فیصلہ پیش کیا تو جسٹس آصف کھوسہ نے کہا اس کے بعد ہمارے پاس پڑھنے کے لئے جمع کرائے گئے کاغذات پچیس ہزار سے بڑھ کر چھبیس ہزار ہوگئے ہیں۔ شیخ رشید نے کہا کوئی بات نہیں میرے یہ صفحات رکھ لیں۔ جسٹس کھوسہ بولے کہ مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں ایک ایک لفظ پڑھنا ہے۔

گزشتہ دنوں ہمیں وکیلوں کے ایک استاد مل گئے۔ وجاہت مسعود صاحب کی گواہی ہے کہ لاہور کے وکلا میں سے ایک تہائی تو ان کے شاگرد رہے ہوں گے۔ ان سے سوال کیا کہ بار ثبوت تو الزام لگانے والے کے سر ہوتا ہے اور ملزم کا کام بغیر کسی ثبوت کے صفائی دینا نہیں ہے۔ تو پھر ثبوت پیش کرنا تو عمران خان کا کام ہے، میاں نواز شریف اس کیس میں کیسے پھنس سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جب تک میاں صاحب نے جائیداد کی ملکیت تسلیم نہیں کی تھی، اس وقت تک بارِ ثبوت الزام لگانے والے پر تھا۔ اب میاں صاحب ملکیت مان گئے ہیں تو ان کو ثبوت دینا ہو گا کہ یہ جائیداد جائز طریقے سے بنائی گئی تھی۔

بینچ اپنی الجھن دوران سماعت بیان کر چکا ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے شریف فیملی کے وکیل سلمان اکرم راجہ صحب سے کہا تھا کہ ’عجیب صورتحال سے دوچار ہیں، پیاز کی طرح ایک اتارتے ہیں تو دوسرا چھلکا سامنے ہوتا ہے، معلومات کہاں سے حاصل کریں؟ درخواست گزار کہتا ہے میرے پاس (ثبوت) نہیں، آپ بھی کہتے ہیں کچھ ہیں کچھ نہیں، معاملے کو کیسے سمیٹیں؟ ‘

بادی النظر میں ثبوت ایسے نہیں ہیں کہ غیر قانونی دولت کا الزام قطعیت کے ساتھ مانا جا سکے اور ایسے بھی نہیں ہیں کہ شریف فیملی کو کلین چٹ دی جا سکے۔ اب معاملے کا حل کیا ہے؟ سپریم کورٹ کے لئے حتمی فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ فیصلہ ایسا ہو گا جس میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ پکے ثبوت کی عدم موجودگی میں جو فیصلہ دیا جائے اس سے سپریم کورٹ کی عزت میں کمی نہ آئے۔ شریف فیملی کو سزا دی جاتی ہے تو ڈیڑھ کروڑ ووٹر ناراض ہوتا ہے، عمران خان کا مقدمہ خارج کیا جاتا ہے تو ستر لاکھ ووٹر ناراض ہوتا ہے۔ بظاہر کوئی ثبوت ایسا نہیں ہے کہ حتمیت کے ساتھ ایک فیصلہ دیا جا سکے۔

کچھ باخبر افراد کی رائے میں فیصلے میں لازمی طور پر نواز حکومت کا ’باعزت‘ خاتمہ کر دیا جائے گا۔ یعنی فیصلے میں کہہ دیا جائے گا کہ آپ کو مجرم تو نہیں قرار دے سکتے ہیں، مگر معاملہ شفاف نہیں ہے۔ سپریم کورٹ ایک ٹرائل کورٹ نہیں ہے۔ اس نے فیصلہ دیا تو اس کے بعد اپیل کی گنجائش نہیں بچے گی۔ اس لئے بہتر ہے کہ آپ اخلاقی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے عوام کی عدالت کا رخ کریں۔ یعنی دوبارہ الیکشن کروا دیں۔

اس طریقے میں یہ سقم ہے کہ عوام کی عدالت کے فیصلے کی اخلاقی حیثیت جو بھی ہو، اس کی قانونی حیثیت کوئی نہیں ہے۔ فرض کیا الیکشن ہو گیا، میاں نواز شریف دوبارہ جیت گئے، اب اپوزیشن سے کوئی دوسرا شخص اٹھ کر دوبارہ پاناما کا معاملہ کیوں نہیں اٹھائے گا؟ ایک کیس دوبارہ نہیں سنا جا سکتا ہے۔ مگر ایک کیس اگر بے نتیجہ ہو تو ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کیا جاتا ہے۔

ہمیں تھانے کچہری کا تو زیادہ علم نہیں ہے مگر کرکٹ میچوں میں یہی دیکھا ہے کہ امپائر شک کا فائدہ بیٹسمین کو دیتا ہے، کیس دائر کرنے والے باؤلر کو نہیں۔ کیا سپریم کورٹ کو ایسا فیصلہ دیتے ہوئے شریف فیملی کو تمام الزامات سے بری نہیں کرنا پڑے گا؟ فرض کیا کہ شریف فیملی کو بری کر دیا گیا، تو وہ قانونی طور پر تو انتخابات کرانے کے پابند نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کس قانون کے تحت ان کو قبل از وقت انتخابات کرانے پر مجبور کر سکتی ہے؟

میاں صاحب کے میگا پراجیکٹس مکمل ہونے میں ایک ڈیڑھ سال پڑا ہے۔ اس وقت آدھا لاہور کھدا پڑا ہے اور لوگ شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیا اس وقت میاں صاحب الیکشن کرانا افورڈ کرتے ہیں؟ وہ تو اس وقت ہی انتخابات کرائیں گے جب ان کی اورینج ٹرین بھی چل رہی ہو اور سی پیک کے تحت دو چار موٹر وے اور پانچ دس پاور پراجیکٹس بھی بن چکے ہوں۔

ایسے میں جنرل وحید کاکڑ کا فارمولا ہی بطور گارنٹی چل سکتا ہے۔ لیکن جنرل قمر باجوہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک مسلسل یہی ثابت کیا ہے کہ وہ سیاسی عزائم نہیں رکھتے ہیں اور سیاسی حکومت کو فری ہینڈ دینا چاہتے ہیں۔

یہ پہلو بھی دیکھنا ہو گا کہ اس وقت پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ اس وقت فوج خود کو ہرگز بھی متنازع نہیں بنانا چاہے گی۔ یہ جنگ وہ صرف عوام کی مدد سے جیت سکتی ہے۔ سی پیک کے منصوبوں کو مکمل کرنے کے لئے بھی سیاسی استحکام ضروری ہے۔ اس منصوبے کو عسکری حکام بھی نہایت اہمیت دے رہے ہیں اور اس کی حفاظت کے لئے ایک ڈویژن فوج بھی کھڑی کی جا رہی ہے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے بھی میاں نواز شریف سے بڑھ کر کوئی دوسرا سیاستدان کردار ادا نہیں کر سکتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہونے کے بعد کیا یہ سب کچھ ہو پائے گا؟

ایسے میں، اگر دوبارہ انتخابات ہوتے ہیں اور عمران خان صاحب وزیراعظم بن جاتے ہیں، تو کیا وہ ان منصوبوں کو چلنے دیں گے؟ دہشت گردوں کے خلاف انہوں نے ابھی تک ایک مضبوط سیاسی سٹینڈ نہیں لیا ہے۔ جہاں میاں نواز شریف دلیرانہ فیصلے کرتے دکھائی دیتے ہیں وہاں عمران خان صاحب طالبان سے تعلقات بگاڑتے ہوئے گھبرائے نظر آتے ہیں۔ وہ مل جل کر صلاح مشورے سے فیصلے کرنے کے عادی بھی نہیں ہیں اور سوچے سمجھے بغیر کوئی بڑا اعلان کر دیتے ہیں۔ کیا ملکی اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کو یہ قبول ہو گا؟

فرض کیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت آ جاتی ہے۔ آصف علی زرداری صاحب حکمران بن جاتے ہیں اور فوج کو فری ہینڈ دیتے ہیں کہ جو مرضی کرو۔ لیکن اس وقت فوج میں یہ احساس راسخ ہو چکا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں سیاسی لیڈروں کا فرنٹ پر ہونا ضروری ہے جو عام آدمی کو بھی متحرک کر سکیں اور ان کے فیصلوں کے پیچھے ووٹر کی طاقت بھی ہو۔ آصف زرداری صاحب پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں ایسا کچھ کرنے میں رتی برابر بھی دلچسپی نہیں لیتے تھے۔

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ فوج کو اس وقت سیاسی میدان میں کود کر ایک مستحکم سیاسی منظرنامے میں غیر یقینی پیدا کرنا بالکل بھی وارا نہیں کھاتا ہے۔

تو صاحبو، ہماری رائے میں سپریم کورٹ مشکل میں ہے۔ وہ ایسا کمیشن نہیں بنا سکتی ہے جو خود سے تحقیقات کرے اور فیصلہ دے کیونکہ عمران خان صاحب اور اس کے بعد شریف فیملی نے کمیشن بنانے کی تجویز مسترد کر دی ہے۔ سیاسی پارٹیاں ایک سیاسی معاملے میں سپریم کورٹ کو زبردستی گھسیٹ رہی ہیں۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ اپنے سامنے موججود چھبیس ہزار صفحات کے انبار کو پڑھ کر یہی فیصلہ دے سکتی ہے کہ سینیٹ کے غیر جانبدار ادارے کی کسی بااختیار کمیٹی کے ذریعے اس معاملے کی تحقیقات کرائی جائیں اور وہ معاملہ حل کرے۔

ہمیں تو بال کو واپس سیاستدانوں کے کورٹ میں پھینکنے میں ہی بچت دکھائی دیتی ہے۔ فیصلے کو محفوظ کر کے سپریم کورٹ نے اپنی عزت کو ہی محفوظ کیا ہے۔ اگلے الیکشن سے پہلے نواز شریف صاحب کی حکومت جاتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar