ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی، مرزا فرحت اللہ بیگ کی زبانی


مولانا محمد حُسین آزاد کی آبِ حیات کے بارے میں محمود الحسن سے ہمکلام ہوتے ہوئے انتظار حُسین صاحب نے کہا تھا ”میں اسے ناول کہتا ہوں۔ اس میں پورا عہد جیتا جاگتا نظر آتا ہے۔ شاعر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں، لڑتے بھڑتے دکھائی دیتے ہیں، محفلیں تصویریں بن کر سامنے آ جاتی ہیں۔ اس میں ناول کے امکانات نظر آتے ہیں۔“ کہنے کو ڈپٹی نذیر احمد کی کہانی ادب کی فارم کے مطابق خاکہ ہے اور بیشتر نقاد اس بات پر متفق ہیں کہ یہ اُردو کا پہلا مکمل خاکہ ہے، پڑھنے والے مجھ سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر مجھے تو یہ مرزا فرحت اللہ بیگ صاحب کا لکھا ہوا ناولٹ معلوم ہوتا ہے جہاں بیسویں صدی کے اوائل کی دلی ہے۔ اِسی شہر کی معاشرت کا بیان ہے، نذیر احمد اور مرزا فرحت اللہ بیگ مرکزی کردار ہیں، ڈپٹی نذیر احمد کے شاگرد ہیں، احباب ہیں، الغرض اس میں ڈپٹی نذیر احمد کی سماجی اور ذاتی زندگی کا بیان ہے۔

یہ خاکہ پڑھتے ہوئے بار بار ایک حسرت دل میں جاگنے لگتی ہے، آپ پڑھنے کو عربی پڑھیں اور پڑھانے کو اُستاد ڈپٹی نذیر احمد ہوں، مگر اِس خواہش پر حقیقت ہنستے ہوئے کہتی ہے میاں ایک صدی میں صرف وقت نہیں گُزرا بہت سی روایات بھی بدل گئی ہیں۔ اب نہ تو مرزا فرحت اللہ بیگ جیسے شاگرد رہے اور نہ ہی ڈپٹی نذیر احمد جیسے مخلص اور علم دوست اُستاد رہے۔ آوازِ دوست والے مختار مسعود کی بات رہ رہ کر یاد آتی رہی کہ ”حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال۔ زندگی کے تعاقب میں رہنے والے قحط سے زیادہ قحط الرجال کا غم کھاتے ہیں۔“ ایک شخص جو عربی زبان کا معلم ہو، جس نے قُرآن مجید کا ترجمہ کر رکھا ہو، حافظِ قرآن بھی ہو، ترجمہ و تالیف کا کام کرتا ہو، زندگی کے وہ رُخ جہاں سنجیدگی کو ہی فوقیت حاصل ہے، وہاں مولوی نذیر احمد جیسا شخص اپنے سے چھوٹوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا ہے۔

مرزا فرحت اللہ بیگ اور ڈپٹی نذیر احمد کی شخصیت میں ایک قدر مشترک ہے۔ کسی سے کوئی بھی اختلاف ہے تو لگی لپٹی رکھے بنا برملا اظہار کرنے کا وصف ہے۔ فرحت اللہ بیگ کو اپنے اُستاد کے طرزِ تحریر پر اعتراض ہے جس میں جا بجا محاوروں کی کثرت ہے، اردو کی عبارت میں عربی الفاظ کا در آنا ہے، انہیں مرزا فرحت روڑے نہیں بلکہ پہاڑ رکھ دینے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ مرزا لکھتے ہیں محاوروں کی بھرمار کے متعلق اکثر مجھ سے اُن کا جھگڑا ہوا کرتا تھا۔ ایک روز مولوی صاحب کہنے لگے کلامِ مجید کے ترجمے میں میاں سچ کہنا، کیسا محاورے کی جگہ محاورہ بٹھایا ہے۔ ہم نے کہا: مولوی صاحب بٹھایا نہیں، ٹھونسا ہے۔ جہاں یہ فقرہ کہا اور مولوی صاحب اُچھل پڑے۔ یہی بات مولوی نذیر احمد کی شخصیت میں بھی ہے۔ تمام عُمر انگریز سرکار کے نوکر رہے، اپنے ناولوں پر سرکار سے انعامات پائے مگر جہاں اختلاف رائے ہوا، اپنی روایات اور ہندوستانیت پر بات آئی وہاں کسی خوف اور مصلحت کے بغیر سرکار پر تنقید کر دی۔ اسی سے متعلق ایک واقعہ خاکے میں درج ہے جہاں مولوی نذیر احمد کالج کے سالانہ جلسے میں لارڈ کرزن اور لارڈ لیفرائے پر تنقید کرتے ہیں اور کالج کے منتظمین کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں۔

ڈیڑھ دو صدی قبل اُساتذہ کا کیا معیار تھا، نذیر احمد کی زبانی سُن لیں :

ارے بھئی! ایک ہی مضمون کی تکمیل کرنا دشوار ہے۔ آج کل پڑھاتے نہیں، لادتے ہیں۔ آج پڑھا کل بھولے۔ ہم کو اُس زمانے میں ایک مضمون پڑھاتے تھے مگر اُس میں کامل کر دیتے تھے۔ پڑھانے والے بھی ایرے غیرے پنچ کلیان نہیں ہوتے تھے۔ ایسے ایسے کو چھانٹا جاتا تھا جن کے سامنے آج کل کے عالم محض کاٹھ کے الو ہیں۔

ڈپٹی صاحب اسی روایت کے پاسدار ہیں مگر طالبعلم کو علم منتقل کرنے سے پہلے اُن کا بھی ایک معیار ہے۔ ہندو کالج کا ایک طالب علم مسٹر رضا، مرزا فرحت سے گزارش کر کے نذیر احمد سے عربی پڑھنے کے لئے وہاں پہنچتا ہے۔ آگے کا حال مرزا فرحت کی زبانی سُنیں :

رضا نے صفحہ پوچھا اور پڑھنا شروع کیا۔ اگر اعراب کی غلطیاں مجھ سے کم کیں تو نظم کو نثر میاں دانی سے زیادہ بنا دیا۔ ایک آدھ شعر تک تو مولوی صاحب چپکے سُنتے رہے۔ اُس کے بعد کہنے لگے : واہ بھئی واہ! ہم کو بھی عجب نمونے کے شاگرد ملے ہیں۔ میاں رضا اگر ہم تم کو ایک نیک صلاح دیں تو مانو گے؟ رضا نے نہایت شرمیلی آواز میں، گردن جُھکا کر کہا: بہ سر و چشم۔ مولوی صاحب نے کہا: دیکھو اپنے وعدے سے پھر نہ جانا! اُنہوں نے کہا: جی نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا: اچھا تو میری صلاح یہ ہے کہ کل سے تم میرے ہاں نہ آنا۔ یہ سُن کر وہ بِچارے کچھ پژمردہ سے ہو گئے۔ مولوی صاحب نے کہا: بھئی رضا! میں یہ نہیں کہتا کہ میرے ہاں آنا ہی چھوڑ دو ۔ میں تم کو بھی ضرور پڑھاؤں گا مگر دس پندرہ روز شام کے وقت کالی جان کے ہاں تعلیم میں ہو آیا کرو (کالی جان مشہور طوائف تھی جس کے ہاں گانے میں لفظ و تلفظ کی درستی کا بہت خیال رکھا جاتا تھا) ۔ اتنے دنوں کے آنے جانے میں تمہارے کانوں کو نظم اور نثر کا فرق معلوم ہونے لگے گا۔ بھئی مجھ سے تو شعروں کے گلے پر چھری پھیرتے دیکھا نہیں جاتا۔

یہ خاکہ اس اہمیت کا متقاضی تھا کہ اسے علیحدہ سے کتابی صورت میں شائع کیا جائے۔ بُک کارنر نے اسے سال 2020 میں شائع کیا اور حافظ صفوان محمد چوہان نے مرتب کرتے ہوئے جس نسخے کو بنیاد بنایا وہ رشید حسن خاں صاحب کا مرتب کردہ 1992 والا ایڈیشن ہے جس میں خاکے کے اختتام پر فرہنگ بھی درج ہیں۔ بک کارنر کے اس ایڈیشن میں جو عکسی خطوط درج ہیں وہ علی گڑھ سے شائع کردہ 1952 والے ایڈیشن میں موجود ہیں۔ حافظ صفوان نے اچھا کام اول تو یہ کیا ہے کہ اس میں 1952 والے ایڈیشن کا مولوی عبد الحق صاحب اور 1992 والے رشید حسن خاں کے ایڈیشن میں شامل مقدمے اس کتاب کا حصہ بنا دیے ہیں، دوئم انہوں نے بہت سی اصطلاحوں، شخصیات اور الفاظ کے تفصیلی حواشی لکھے ہیں جو پڑھنے والے کے لئے انتہائی مددگار ثابت ہوئے ہیں۔

یہ کتاب 130 صفحات پر مشتمل ہے، اس ایڈیشن کی موجودہ قیمت صرف تین سو روپے ہے اور کریم پیپر پر شائع کردہ ہے۔ میرے خیال میں اس کتاب کی اہمیت اور کوالٹی کے لحاظ سے پڑھنے والوں کے لئے یہ کتاب ایک طرح سے بک کارنر والے مفت میں دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments