آئی ایم ایف اور پاکستان


وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کا امدادی پیکیج منظور ہونے کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ اگر اسی طرح محنت جاری رہی تو انشااللہ یہ عالمی ادارے سے لیا جانے والا آخری پروگرام ثابت ہو گا۔ کسی وزیر اعظم کی طرف سے قرضوں میں گھری ہوئی قوم سے ایسا خوشگوار وعدہ سیاسی ضرورت تو ہو سکتا ہے لیکن اب تک 23 بار آئی ایم ایف کے پاس جانے والے ملک کے بارے میں یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ وہ جلد ہی بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرسکے گا۔

پاکستان پراس وقت لگ بھگ 130 ارب ڈالر کا بیرونی قرض واجب الادا ہے۔ صرف حالیہ مالی سال کے دوران پاکستان کو بیرونی قرض کی اقساط اور سود کی مد میں 26 ارب ڈالر درکار ہوں گے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ حکومت کی آمدنی کا بہت بڑا حصہ بیرونی قرض چکانے پر صرف ہوجاتا ہے۔ پھر بھی اسے قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران میں کوئی بھی پاکستانی حکومت اس معاشی چنگل سے ملک کو نکالنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پاکستان بظاہر ڈیفالٹ سے بچا ہوا ہے لیکن متعدد معاشی ماہرین سمجھتے ہیں کہ قرضوں اور مالی ذمہ داریوں کے بوجھ میں دبا ہوا پاکستان درحقیقت دیوالیہ ہو چکا ہے۔ یہ اصطلاح کسی ایسی معیشت کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کے اخراجات، اس کی آمدنی سے زیادہ ہوں۔ پاکستان اس وقت اسی صورت حال سے دوچار ہے۔ البتہ بیرونی قرضے لے کر کسی بھی طرح ٹیکنیکل ڈیفالٹ سے بچنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔

شہباز شریف کی پہلی حکومت جون 2023 میں پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف سے 9 ماہ پر محیط اسٹینڈ بائی پیکیج لینے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ یہ امداد لینے کے لیے پاکستان کو سخت معاشی اقدامات کرنے پڑے تھے جن کا زیادہ تر بوجھ پاکستان کے غریب اور متوسط عوام کے کاندھوں پر پڑا تھا۔ البتہ اس امداد کی وجہ سے پاکستان ڈیفالٹ سے بھی بچ گیا اور شہباز حکومت کے بعد انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں قائم ہونے والی نگران حکومت کے دور میں سخت معاشی اقدامات کے نتیجے میں معاشی بہتری کے متعدد اشاریے دیکھنے میں آئے۔ ان مثبت تبدیلیوں کا اعتراف عالمی مالی اداروں کی طرف سے بھی کیا جا رہا ہے۔ پاکستان روپے کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے میں کامیاب ہوا ہے اور اب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ میں کمی کا رجحان ختم ہو چکا ہے۔ افراط زر کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 9، 6 پر آ گئی ہے۔ طویل عرصہ کے بعد اسٹیٹ بنک نے شرح سود میں کمی کی ہے جو اس وقت ساڑھے سترہ فیصد ہے۔ یہ مثبت اشاریے ملکی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے کے لیے اہم سمجھے جا رہے ہیں۔

اسی لیے نئے قرض کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جیورجیوا نے ایک پاکستانی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس ایک خوشخبری ہے۔ ہم نے پاکستان کے لیے اپنا ریویو مکمل کر لیا ہے۔ میں حکومتِ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو مبارکباد دیتی ہوں۔ پاکستان نے معاشی اصلاحات کی ہیں جس سے معیشت میں بہتری آئی ہے۔ پاکستان نے مثبت اصلاحات کی ہیں اور اب پیداوار کا گراف اُوپر کی جانب جا رہا ہے جبکہ افراط زر نیچے آ رہی ہے اور معیشت استحکام کے راستے پر گامزن ہے‘ ۔ تاہم آئی ایم ایف نے قرض کی منظوری کے بعد جاری بیان میں کہا ہے کہ ’تین سال پر محیط اس پروگرام کے تحت مناسب اصلاحات اور پالیسیاں اختیار کرنا ضروری ہو گا۔ تاکہ پاکستان معاشی استحکام کا مقصد حاصل کرسکے۔ ان پالیسیوں سے ملک میں مضبوط معاشی پیداواری صلاحیت کا ماحول پیدا کرنا اہم ہے۔ پروگرام کی شرائط میں حکومتی مالیات مستحکم کرنے، زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور سرکاری ملکیت میں چلنے والے اداروں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ یعنی انہیں منافع بخش بنانے کی شرائط شامل ہیں۔

دیکھا جاسکتا ہے کہ دوست ممالک سے قرض لے کر زرمبادلہ کے ذخائر ’مستحکم‘ کرنے اور ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے درآمدات پر سخت پابندیاں عائد کرنے والے ملک کے لیے یہ مقاصد حاصل کرنا آسان نہیں ہو گا۔ تصور کی حد تک پاکستان کی معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے البتہ معاشی ابتری سے نکالنے کے بعد پیداواری صلاحیت میں اضافے کی طرف گامزن کرنے کا سخت اور مشکل کام درپیش ہے۔ دنیا کی تاریخ میں متعدد قوموں نے یہ مقصد حاصل کیا ہے اور تباہ شدہ معیشت کو کامیاب پیداواری مشینری میں تبدیل کر کے اپنے عوام کے لیے خوشحالی کا سامان مہیا کیا ہے۔ پاکستان بھی یہ مقصد حاصل کر سکتا ہے تاہم اس کے لیے عزم و ارادے کے علاوہ سیاسی استحکام اور معاشی ڈسپلن کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے ضرور اس عزم کا اظہار کیا ہے۔ قرض ملنے پر شکر ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے یونہی محنت جاری رکھیں گے۔ پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں اور سرمایہ کاری میں اضافہ خوش آئند اور معاشی ٹیم کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر یونہی محنت جاری رہی تو انشا اللہ یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہو گا‘ ۔

گو کہ امید باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لیے کسی معاشرے میں جو حالات پیدا کرنا ضروری ہے، پاکستان میں اس کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ ابتر معیشت کو بہتری کی طرف لانے اور عوام کی اکثریت کے لیے سود مند بنانے کے عمل میں سیاسی استحکام اور سماجی ارادہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ صرف وزیر اعظم یا حکومت کے اعلان سے کام نہیں چلتا بلکہ ملک کے ہر فرد کو بہتری کے اس عمل میں حصہ دار بننا پڑتا ہے۔ اس کے لیے صبر و حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ پاکستان میں عام طور سے اس کی کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت ایک مشکوک اور متنازعہ انتخابی عمل کے بعد قائم ہوئی ہے۔ ملک میں بدستور اس کی اتھارٹی کے بارے میں مسلسل سوال اٹھایا جاتا ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام اگرچہ موجودہ معاشی حالات میں پاکستان کی معاشی نجات کا واحد راستہ تھا لیکن سیاسی منظر نامہ پر اس پر اختلاف اور نکتہ چینی سے دیکھا جا سکے گا کہ قومی لیڈر اہم معاملات میں بھی گروہی و شخصی مفادات سے بالا نہیں ہوسکتے۔

ایک متنازعہ حکومت معاملہ فہمی اور مصالحانہ رویہ کے ذریعے حالات کو درست اور سیاسی مخالفین کو مطمئن کرنے کا اہتمام کر سکتی ہے۔ البتہ شہباز حکومت نے تحریک انصاف کے خلاف اقدامات کے ذریعے مصالحت کے ذریعے آگے بڑھنے سے مسلسل انکار کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں سانحہ 9 مئی کو بنیاد بنا کر پی ٹی آئی کے لیڈروں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کیا گیا اور پارٹی لیڈروں کی کردار کشی کا کام شروع کیا گیا۔ بانی چیئرمین عمران خان کو مسلسل قید رکھ کر حکومت ایسا ہی سیاسی استحکام حاصل کرنا چاہتی ہے جس میں کسی کو آواز اٹھانے اور خود مختاری سے بات کرنے کی آزادی حاصل نہ ہو۔ اگرچہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے بھی پارلیمانی سیاست کی بجائے مسلسل سازش اور تصادم کی سیاست کا عندیہ دیا ہے۔ لیکن کوئی حکومت محض اس عذر پر آزادی رائے اور سیاسی سرگرمیوں سے انکار نہیں کر سکتی۔ موجودہ حکومت نہ صرف عمران خان کو قید رکھ کر بلکہ تحریک انصاف کو سیاسی جلسے کرنے سے انکار کر کے ملک میں سیاسی عمل میں تصادم اور بے چینی میں اضافہ کا سبب بنی ہے۔ یہ صورت حال پائیدار معاشی اصلاحات کے حوالے سے خوش آئند نہیں ہو سکتی۔

مخصوص نشستوں کے معاملہ پر حکومت نے نہ صرف تحریک انصاف کو اس کا قانونی حق دینے سے انکار کیا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلہ پر عمل درآمد روکنے کے ہتھکنڈے اختیار کر کے براہ راست عدلیہ کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار گیا ہے۔ اس دوران میں آئینی ترامیم کے نام پر عدلیہ کے پر کاٹنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ حکومت اب تک اس مقصد میں تو کامیاب نہیں ہوئی لیکن اس طرز عمل سے عدلیہ کے متعدد ججوں کے ساتھ بدگمانی ضرور پیدا ہوئی ہے اور اداروں کا اعتبار بھی متاثر ہوا ہے۔ آئینی ترامیم اور ملک کے آئندہ چیف جسٹس کا معاملہ چونکہ ابھی تک طے نہیں ہوسکا، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ ملک میں معاشی ترقی کے مقصد سے درکار استحکام کیسے حاصل کیا جا سکے گا۔ کسی ملک کے ادارے آئینی حدود کا احترام کر کے ہی معاشرے میں اطمینان کی قابل قبول صورت حال پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی معاملات میں عسکری مداخلت کا قصہ عام ہونے کے بعد عدالتی فیصلوں میں بھی سیاسی جھکاؤ دکھائی دینے لگا ہے اور ججوں کا باہمی اختلاف اب فیصلوں میں تحریر کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں شہباز حکومت عسکری قیادت کے ساتھ ’ایک پیج‘ کی حکمت عملی اختیار کر کے عدلیہ پر وار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ بے یقینی معاشی ترقی کے ان عزائم کے لیے نقصان دہ ہے جس کا ارادہ وزیر اعظم ظاہر کر رہے ہیں۔

آئی ایم ایف کا پیکیج ملکی معیشت کے لیے اس حد تک اچھی خبر ہے کہ اب ان دوست ملکوں سے سرمایہ کاری کا امکان پیدا ہو گا جو اس سلسلہ میں وعدے کرتے رہے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری آنے سے ملک میں روزگار کی صورت حال بہتر ہوگی اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہو گا۔ اس طرح حکومت کی آمدنی بھی بڑھے گی۔ البتہ حکومت کو یہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام اور سماجی اطمینان کے مقصد سے کام کرنا ہو گا۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے اشارہ دیا ہے کہ پاکستانی حکومت غریبوں کو ریلیف دینے اور امرا پر مصارف کا بوجھ بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ حکومت نے ضرور اس حوالے سے کچھ اقدامات کیے ہیں تاہم سرکاری مصارف کم کرنے، غیر ضروری طور سے وسائل کے ضیاع اور نوکر شاہی پر کنٹرول کے متعدد اور دیرپا اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ اس امدادی پیکیج سے ملک میں اطمینان محسوس کیا جائے گا لیکن اس کے ثمرات سمیٹنے کے لیے سخت محنت اور قومی ہم آہنگی ضروری ہوگی۔

اس حوالے سے البتہ آئی ایم ایف کے امدادی پیکیج کے سفارتی اثرات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ عالمی مالیاتی ادارے کے بورڈ توثیق سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عالمی برادری یا کم از کم بڑی طاقتیں ملک کی موجودہ حکومت کے ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہیں۔ اسلام آباد حکومت کے بارے میں عالمی سطح پر بے اعتمادی موجود نہیں ہے۔ یہ اشارہ ملک کی خارجہ پالیسی پر بھی مثبت طور سے اثر انداز ہو گا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات پر بھی اس کا اثر پڑنا چاہیے۔ اب ملک کے ان سیاسی عناصر کو بھی اپنا طرز عمل تبدیل کرنا چاہیے جو عالمی سطح پر موجودہ حکومت کو بدنام کرنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اس طرح داخلی سیاسی ماحول میں بہتری کا امکان روشن ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2903 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments