افسانہ: ”شک“
بہت دنوں سے سوچ رہی ہوں کہانی لکھوں، مگر ادھر اُدھر کی مصروفیت سے رات، دن میں اور دن، رات میں ڈھل جاتے اور کہانی میرے ذہن میں الجھن کی طرح ذہنی سکون خراب کرنے میں تلی ہوئی ہے۔
اب دل چاہ رہا ہے کہ وہ لکھ ہی ڈالوں جو دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے۔ ویسے بڑا ہی کٹھن ہوتا ہے نہ، ان کہانیوں کو لفظوں کے پیرائے میں صفحات پر اتارنا، جو ہمارے اندر چل رہی ہوتیں ہیں۔
کہاں سے شروع کروں اور کیسے شروع کروں کبھی کبھی تو سمجھ سے باہر ہو جاتا ہے۔ کہانی ایسی لڑکی کی ہے۔ جس کا تعلق مڈل کلاس سے ہے۔ جو لاڈوں سے پالی گئی۔ جس کے چہرے پر مسکراہٹ ہی مسکراہٹ ہے۔ جو اپنے ماں باپ کی ایک ہی بیٹی ہے۔ جس پر ماں باپ بھی اعتبار کرتے ہیں اور بھائی بھی۔ جس لڑکی کی خوشی ہی اس کی اپنی فیملی ہے اور اسی طرح وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ سکون کی زندگی بسر کرتی زندگی کی تئیس بہاریں دیکھ چکی ہوتی ہے۔
اب عمر کا وہ حصہ آن پہنچا ہے کہ جہاں ہر ماں باپ کو اپنی بیٹی کی شادی کی فکر لگی رہتی ہے۔ لہٰذا سارہ کے ماں باپ بھی انھی میں سے ایک تھے جنہیں اپنی بیٹی کے بیاہنے کی خواہش پیدا ہوئی اور وہ اس کے لیے ایک اچھا جیون ساتھی تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ بل آخر ایک رشتہ پسند آ گیا۔ لڑکے والے بھی لڑکی کو پسند کر گئے اور لڑکی کی ہتھیلی پر کچھ پیسے رکھ گے جو اس بات کی نشانی ہے کہ لڑکی اب ہماری ہوئی۔
جاتے جاتے لڑکے کی ماں کہنے لگی: ”ہم تو اپنے بیٹے کی جلدی شادی کرنا چاہتے ہیں۔ کسی دن نکاح کی تاریخ لینے آ جائے گے۔“
لڑکی کے ماں باپ نے بھی سوچا کہ نیک کام میں دیر کیسی، لہٰذا چند ہی ملاقاتوں میں اجنبیت ختم ہو گئی اور نکاح کا دن بھی آن پہنچا۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
آج یہ مصرعہ سارہ پر خوب جچ رہا تھا۔
مانا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو ان کے نکاح پر کچھ زیادہ ہی روپ چڑھتا ہے۔ پھر سارہ تو ویسے بھی خوب صورت تھی۔ تو حسن دوبالا ہو گیا۔ جب سارہ دلہن کے جوڑے میں اپنے بابا کے سامنے آئی۔
تو اس کے بابا کہتے ہیں : ”چشم بدور، چند مہتاب، میری بیٹی کو کسی کی نظر نہ لگے میری بھی نہیں
اور پھر افسردہ لہجے میں بولے : ”کتنا عجیب رسم و رواج ہے کہ ایک گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ کسی دوسرے گھر جانے کے لیے۔ بابل کا گھر تو ان کے لیے پرایا ہوتا ہے۔ کاش یہ رسم و رواج نہ ہوتے تو کوئی بھی باپ اپنی بیٹی کو اپنے سے جدا نہ کرتا۔“
یہ کہتے اور ساتھ آنسو صاف کرتے جاتے۔ مگر رسم دنیا بھی نبھانی پڑتی ہے۔ جو ہر ماں باپ نبھاتے ہیں۔
مہمانوں کو دیکھنے سارہ کی ماں اور باپ دنوں کمرے سے چلے جاتے ہیں اور سارہ اپنے دل میں خوشی اور غم کے جذبات لیے خود کو آئینے میں دیکھتی ہے
اور خود سے کہتی ہے : ”کیسے کوئی اچانک ہماری زندگی میں ایک خاص جگہ لیے داخل ہو جاتا ہے اور ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔“
تھوڑی دیر بعد ڈھول بجانے کی آواز سارہ کے کانوں میں پڑی۔ ساتھ ہی کمرے کا دروازہ کھلا سارہ کی دوست کمرے میں داخل ہوئی اور سارہ کے گلے ملی۔
سارہ کی دوست بولی: ”میں نے سن رکھا تھا کہ لڑکی کو اس کی شادی پر بڑا روپ آتا ہے آج اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیا۔ ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت خوب صورت لگ رہی ہے میری دوست، اللّٰہ ہر نظر سے بچائے۔ سارہ میڈم باہر آپ کے ہونے والے وہ آئے ہیں ہاہاہاہا۔“
سارہ بولی: ”او یار تنگ تو نہ کر۔“
سارہ کی دوست کہنے لگی: ”لو جی میں اپنی دوست کو تنگ نہ کروں تو اور کس کو کروں۔ چلوں چلوں نکاح کے لیے قاضی صاحب آنے والے ہوں گے بیٹھ جاؤ اب۔“
کچھ ہی لمحوں میں، کیا آپ کو قبول ہے؟ کی آوازیں آنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سارہ اپنے پیا کی ہو گئی۔
کیسے لمحوں میں وقت بدل جاتا ہے اور نام بھی بدل جاتے ہیں۔ آج سارہ اکبر، سارہ فیصل بن گئی۔
اور یوں نکاح کو کوئی دو، تین ہفتے گزر گئے۔ نکاح تو خیر سے ہو گیا تھا اب شادی کی تقریب کے انتظامات کی فکر پڑ گئی۔
خاص خاص لوگوں کو شادی کی دعوت بھیج دی گئی اور ہاں جس معاشرے میں ہم جی رہے ہیں وہاں جہیز جیسی لعنت نہ ہو، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر لڑکا چاہے جیسا بھی کیوں نہ ہو۔ جہیز کے بغیر تو لڑکی لینا لڑکے والے اپنی توہین سمجھتے ہیں اور لڑکی والے بھی دیے بغیر نہیں بھیجتے۔ تاکہ بیٹی کو کوئی طعنے سننے کو نہ ملیں اور وہ خوشی سے اپنی اگلی زندگی جی سکے۔
وہ گھڑی بھی آن پہنچی جس کا انتظار تھا رخصتی کا وقت آ گیا اور سارہ اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہو گئی۔ سسرال پہنچی تو دلہن کا خوب استقبال کیا گیا۔ سارہ کو چند رسموں کے بعد اس کی نند اور ساس اسے فیصل کے کمرے میں بیٹھا آئی۔ جب فیصل کمرے میں داخل ہوا تو سارہ تھوڑی ڈر گئی۔ مگر جب فیصل نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بوسہ دیا۔ سارہ نے اپنے شوہر کا پیار دیکھا۔ تو دلی سکون محسوس ہوا۔ دونوں میں جینے مرنے کے وعدے ہوئے اور شب وصل خوب گزری۔
اگلی صبح لڑکی کے گھر سے ناشتہ آ گیا۔ اسی رات ولیمہ تھا تو سب اس تیاری میں مصروف ہو گئے۔ ساری تقریبات اچھے سے انجام پائی۔ سارہ اور فیصل دونوں میں پیار بھی خوب ہو گیا اور یوں چند ماہ اچھے سے گزر گے مگر آہستہ آہستہ سارہ نے محسوس کرنا شروع کیا کہ اس کا شوہر اور اس کے سسرال والے اس پر شکی مزاج رکھتے ہیں۔ جب بھی کسی کا فون آئے تو اس سے پوچھتے ہیں کہ فون کس کا آیا ہے؟ اگر کسی سے مسکرا کر بات کر لے تو کہتے ہیں کہ اس کا کہیں چکر تو نہیں چل رہا۔
زندگی ہمیں خوشیوں کا ذائقہ تو دیتی ہے۔ لیکن وہ زندگی ہی کیا جس میں غم کا مزہ ہی نہ ہو۔ سارہ کی شادی شدہ زندگی جس کے چھ، سات ماہ تو بہت ہی خوبصورت اور پیار محبت میں گزرے تھے۔ اب تو جیسے کسی کی نظر لگنے لگی تھی۔ شوہر کبھی تو بہت پیار کرتا اور کبھی اپنی ماں کی باتوں میں آ کر بیوی پر ہاتھ اٹھا دیتا۔ سارہ جب بھی یہ سب باتیں اپنی ماں سے کرتی۔
تو اس کی ماں اسے کہتی: ”بیٹی میں نے بھی ایسا وقت دیکھا ہے شروع شروع میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ بعد میں سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ گھر بنانے کے لیے یہ سب لڑکی کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ تم بس خاموش رہا کرو۔ اپنے شوہر سے زبان نہ چلانا۔ ورنہ گھر نہیں بنتے۔ اب تمہارا وہی گھر ہے۔ تم نے ہی ادھر رہنا ہے برداشت کیا کرو اور اپنے شوہر کی بات مانا کرو۔ پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے بھی ایسے ہی اپنا گھر بسایا ہے جب بچہ ہو گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
سارہ ماں کی باتیں سن کر خاموش ہو گئی اور وقت گزارنے لگی۔ اسی طرح سارہ کے رشتے داروں میں سے اس سے ملنے اس کے ماموں اور خالہ کے بیٹے اور بیٹیاں سارہ کے بھائی کے ساتھ اس کے سسرال آئے۔ سارہ بھی شادی کے بعد سے ان سب سے نہیں ملی تھی۔ سب کو دیکھ کر تو جیسے اس کی جان میں جان آ گئی ہو اور وہ پھر سے چڑیا کی طرح چہکنے لگی۔ سب سارہ کے بچپن کے ساتھی تھے۔ اکثر وہ سب ساتھ کھیلتے اور ہنسی مزاح کرتے تھے۔ اس روز بھی سب میں خوب ہنسی مزاح ہوا لوڈو کی بازی ساتھ ساتھ چلی۔ یہ رونق ان کے جانے تک قائم رہی۔ سارہ اس روز بہت خوش نظر آ رہی تھی۔ فیصل گھر نہیں تھا مگر جب گھر آیا تو اس کے ماں نے اپنے بیٹے کے کان بھرنے میں مصروف عمل نظر آئی۔
فضل سے اس کی ماں کہنے لگی: ”سارہ کے کزن آئے تھے اور سب ہی ہی ہو ہو لگے رہے۔ لڑکیاں لڑکے سارے ہی ایک کمرے میں بیٹھے رہے ہیں اور پتہ نہیں کیا کیا باتیں کرتے رہے ہیں۔“
فیصل غصے میں اپنے کمرے میں داخل ہوا اور جب اپنی بیوی کو مسکراتے دیکھا تو اس کا غصہ اور بھڑک اٹھا اسی غصے کی حالت میں اس نے سارہ کو مارا اس کے کردار پر الزام لگائے۔
عورت ہر ظلم و زیادتی برداشت کر سکتی ہے۔ ہر درد سہ سکتی ہے۔ یہاں تک کہ عورت کو ہر کام کے بعد شوہر کے دو محبت کے بول اس کی تھکن دور کر دیتے ہیں۔ مگر عورت اپنے کردار پر کی گئی بات برداشت نہیں کرتی پھر سامنے والا شوہر، باپ یا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن جس سماج میں ہم رہتے ہیں۔ وہاں شاید بیٹی کی زبان بھی کاٹ دی جاتی ہے۔
”سارہ اپنے شوہر سے کہتی رہی مجھے نہ مارو میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔“
مگر فیصل اس کو طلاق دے کر گھر سے باہر نکل دیتا ہے۔ طلاق کے الفاظ سن کر سارہ کے جسم میں جان تو جیسے نکل ہی گئی اور وہ ساکت ہو گئی اب تو نہ رونے کی آواز تھی اور نہ ہچکیاں۔
بس ایک سال پہلے والا نکاح کا وہی دن تھا کہ جب وہ ایک اجنبی شخص کی دلہن بنی تھی جس کو اس کے ماں باپ نے اس کے لیے منتخب کیا تھا۔ سارہ آئینے کے سامنے خوشی اور غم کے ملے جلے جذبات کے ساتھ خود کو آئینے میں دیکھتی ہے
اور کہتی ہے : ”کیسے کوئی اچانک ہماری زندگی میں ایک خاص جگہ لیے داخل ہوتا ہے اور ہم دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔“
جب کہ وہ خاص بننے کے قابل بھی نہیں ہوتا۔
- افسانہ: ”شک“ - 26/09/2024
- جمیلہ آپا - 16/09/2024
- پاکستان ایک خواب - 08/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).