’ہم سب‘ کی ویب سائٹ کیوں اتنی زیادہ مقبول ہے؟


آج کل مجاہد حسین صاحب نے ایک بحث چھیڑ رکھی ہے کہ ملک میں دائیں بازو کے افراد کی غالب ترین اکثریت ہونے کے باوجود جدت پسند لکھاریوں کی اکثریت والی ویب سائٹ ’ہم سب‘ کیوں زیادہ پڑھی جاتی ہے اور دائیں بازو کی ویب سائٹس کیوں پیچھے ہیں۔ زیادہ پڑھے جانے کا معیار انہوں نے کسی بھی ویب سائٹ پر دیے گئے درست یا خود ساختہ پیج ویوز کی بجائے مشہور بین الاقوامی کمپنی الیکسا کے اعداد و شمار اور رینکنگ کو بنایا ہے۔

ہماری رائے میں مجاہد حسین سینٹر رائٹ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن ان کی پوسٹ پر زیادہ تر رائٹ کے لوگوں کی ہی رائے موجود تھی۔ لیکن ’ہم سب‘ کو چاہنے والے بھی بہت نکلے۔ ہم نے مختلف افراد کی رائے پڑھ کر خود شناسی کی ایک نئی منزل پائی۔

’ہم سب‘ کی تحریروں کے معیار کو اس حد تک سراہا گیا کہ کئی افراد نے تو یہ بھی کہہ دیا کہ ’ہم سب‘ پر لکھنے والے پروفیشنل ہیں اور دائیں بازو کی ویب سائٹس پر نو آموز لکھاری دست آزمائی کرتے ہیں۔ ہم پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ دوسری ویب سائٹس کو تو رضاکارانہ بنیاد پر چلایا جاتا ہے مگر ’ہم سب‘ کو پروفیشنل (یعنی تنخواہ دار) افراد چلاتے ہیں۔

پڑھنے والوں کی جانب سے ’ہم سب‘ کے مصنفین کی ندرت خیال اور تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا گیا ہے۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ ’ہم سب (پر لکھنے) والے مجھے آزاد پرندوں کی مانند لگتے ہیں، جن کو اگر روایت کے طرف پلٹنا پڑا کسی دلیل پر، تو وہ دیر نہیں لگاتے ہیں۔ جب کہ ترش رویے والے ایسا کبھی نہیں کر پائیں گے۔ ہم سب کے لکھاریوں کو پڑھنا تو دور، سوچ کر ہی راحت ملتی ہے‘۔

عاصم بخشی، عثمان قاضی اور عزیزی اچکزئی کی عالمانہ اور فلفسیانہ بحثوں کو سراہنے والے دکھائی دیے تو حسنین جمال، فرنود عالم، ید بیضا، وقار ملک اور وصی بابا کے انداز تحریر کے قتیل بھی کم نہیں نکلے۔

’ہم سب‘ کے حساس موضوعات پر بحث کرنے اور وسعت خیال اور جدید تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے آزادی افکار کی ترویج کو بھی اس کی کامیابی کی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ ’ہم سب‘ کے مصنفین کے اعتدال اور لکھتے وقت عقل و شعور کو استعمال کرنے کی تعریف کی گئی ہے۔ ’ہم سب‘ کے مصنفین کے موضوعات کے تنوع کو بہت سراہا جاتا ہے۔

’ہم سب‘ کے لکھاریوں کے اتحاد کی تعریف بھی کی گئی کہ ’ہم سب‘ کے مقبول لکھنے والے اس سے جڑے رہے اور الگ ہو کر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بناتے رہے ہیں۔ واقعی۔ روشن خیال لوگ ایسا کیسے کر سکتے ہیں، یہ شغل تو ان کا نہیں ہوا کرتا ہے کہ افتراق کے بیج بوئیں۔

یہ بات چلی ہے تو پھر ایک دوست کا خاص طور پر ذکر ہو جائے۔ ’ہم سب‘ کے ایک مقبول لکھاری انعام رانا صاحب نے الگ ہو کر اپنی ایک کامیاب ویب سائٹ ’مکالمہ‘ کے نام سے بنائی ہے اور اب وہ ایک آن لائن ویب ٹی وی کے قیام کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ ہم دائیں بازو کے برخلاف ان کی اس ویب سائٹ کو اپنا نقصان نہیں بلکہ اپنا فائدہ ہی سمجھتے ہیں۔ جن لکھاریوں کو ہم موقع نہیں دے سکے، وہ رانا صاحب کی ویب سائٹ پر تراشے جا رہے ہیں اور دن بدن بہتر ہو رہے ہیں۔ ’مکالمہ‘ کی انتظامیہ بھی ایک پرامن، روادار اور روشن خیال پاکستان کے لئے جدوجہد کر رہی ہے اور ہم اسے ’ہم سب‘ کا ہم خیال برادر ادارہ ہی جانتے ہیں اور اس کی کامیابی کے لئے دعاگو ہیں۔

دوسری طرف دائیں بازو کے لکھاریوں کے تند و ترش انداز میں ان کی ناکامی دیکھی گئی ہے۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ ’روایتی گروہ نے اپنا سوچ کا دائرہ اس قدر محدود کر رکھا ہے کہ ذرا سی تنقید پہ وہ مشتعل ہو کر وہ مختلف سوچ والے کو دوسری طرف دھکیل دیتے ہیں اس کے علاوہ جدت پسندی کو مقبولیت بھی حاصل ہے ان میں سے بھی بہت سے لوگ جدت پسندی کے قائل ہیں بس یہ طے نہیں کر پاتے کہ وہ کہاں تک جدت پسند ہیں‘۔

مصنفین کے علاوہ ادارتی ٹیم کے حسن انتخاب کی تعریف بھی دکھائی دی۔ ’ہم سب‘ کی پالیسی کو سراہتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مخالفانہ رائے بلا جھجک شائع کی جاتی ہے۔ نئے لکھنے والوں کا تجربہ بھی سامنے آیا کہ ’مضامین لگانے اور نہ لگانے کا پیمانہ عام طور پر لکھنے والے کو ہو جاتا ہے، جب وہ اپنا مضمون بھیج کر اسے دوبارہ پڑھتا ہے‘۔ ادارتی ٹیم کی محنت کو اس طرح سراہا جانا ہمارے لئے باعث مسرت ہے۔

اب ذکر ہو جائے ’ہم سب‘ کی سازشوں کا۔

ایک صاحب نے یہ انکشاف کر کے خوب ہنسایا کہ ”مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جدت پسندوں سے زیادہ روایت پسند اس ویب سائٹ پر یہ دیکھنے کے لئے جاتے ہوں کہ وہاں اسلام و پاکستان کے خلاف کیا ’سازشیں‘ ہورہی ہیں“۔ ہم حیران ہی بیٹھے ہیں کہ روایت پسند پھر روایتی ویب سائٹس پر جا کر ان سازشوں کا توڑ کیوں نہیں دیکھتے ہیں۔ بہرحال ہماری رائے میں دائیں بازو کی غیر مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے جذباتی مجاہدین کو اپنے علاوہ سب ہی اسلام اور پاکستان کے دشمن دکھائی دیتے ہیں اور وہ یہ سوچنے سے بھی قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ مختلف سیاسی یا معاشی نظریہ رکھنے والا بھی پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والا ہو سکتا ہے۔

ایک جگہ سے علم ہوا کہ ایک سازش کے تحت ’ہم سب‘ کی فنڈنگ کی جا رہی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ یہاں خواتین اتنی زیادہ تعداد میں لکھتی ہیں۔ ’ہم سب‘ کے مضامین کے سپانسرڈ ہونے کو سازش قرار دیتے ہوئے اسے ’ہم سب‘ کی کامیابی کی وجہ قرار دیا گیا۔ ’ہم سب‘ والے تو رضاکارانہ بنیادوں پر اپنا تمام خرچہ آپس میں مل بانٹ کر کرتے ہیں اور ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ ’ہم سب‘ کو کسی مذہبی یا سیاسی جماعت نے کبھی بھی ویب سائٹ ہوسٹنگ کی سہولت فراہم نہیں کی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے، اعتراض کرنے والوں کی ویب سائٹس کو بھی سپانسر ہوتے ہم نے اپنی انہیں گنہگار آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔

یہ تو تھیں پڑھنے والوں کی آرا۔ اب ہم اپنی سوچ بیان کرتے ہیں کہ ہم کامیاب کیوں ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہماری انتظامی ٹیم میں مکمل اتفاق رائے اور شخصی احترام پایا جاتا ہے۔ اگر کوئی ایک ممبر بھی درجن بھر دوسرے افراد کے فیصلے کو ویٹو کرنا چاہے تو سب اس کے شخصی احترام میں اس کی بات مانتے ہیں۔ ٹیم میں الحمدللہ سب سے زیادہ خر دماغ اور گرم مزاج خاکسار کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ سب اس عاجز کے ساتھ گزارا کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے پیر و مرشد مان رکھا ہے۔

ایک طرف آتش فشانی کا یہ عالم ہے تو دوجی جانب برف کا ٹکڑا ہے وجاہت مسعود نامی جسے صرف ایک بات پر ہی غصہ آتا ہے۔ باقی ساری دنیا کے معاملات وہ صلح کل کے انداز میں چلانے کی تبلیغ کرتا ہے۔

وصی بابا جیسا پینڈو ٹیم کو دیسی ٹچ دیتا ہے تو ظفر اللہ خان اس میں قومیت کا احساس جگاتا ہے۔ فرنود عالم ہمارا خطیب ہے اور توقع ہے کہ کسی دن وہ خطبہ دے بھی دے گا۔ عاصم بخشی کو سب نہایت احترام سے امام بخشی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور بعید نہیں کہ وہ امامت کر بھی دیں۔ عثمان قاضی اور ظفر عمران ’ہم سب‘ کے لسانی شدت پسند ہیں۔ جب بھی زبان و کلام کا معاملہ درپیش ہو تو انہی کے ذمے ڈال کر باقی سب نچنت ہو جاتے ہیں۔ حاشر ارشاد کو ہم نے ممتحن مقرر کر رکھا ہے اور وہ سب کا امتحان لیتے ہیں۔ وقار ملک سیاح مزاج کے ہیں اور وہ ہمارے سیاحتی دوروں کے نگران ہیں۔ ذیشان ہاشم معاشی امور دیکھتے ہیں تو حسنین جمال کو ہم نے شاعر اور ادیب جان کر ان کے حال پر چھوڑ رکھا ہے۔ ڈاکٹر رامش فاطمہ طبی مشورے دیتی ہیں اور جب بھی ’ہم سب‘ کا پرنٹ ایڈیشن آیا تو وہ ڈاکٹر زبیدہ کے قلمی نام سے ’طبی مشورے‘ اور ’دیسی ٹوٹکے‘ نامی پیجز کی ادارتی نگران ہوں گی۔ لینہ حاشر کو تسلی دلاسے اور خانگی مشورے کے پیج کا انچارج بنایا جائے گا۔ حسن معراج ’ہم سب‘ کے ایمبیسڈر ایٹ لارج ہیں اور آج کل پتہ نہیں کہاں چلے گئے ہیں۔ ان کی ڈیوٹی ادیبوں وغیرہ سے ملنے اور یہ پروپیگنڈا کرنے کی لگائی گئی ہے کہ ’ہم سب‘ ایک اعلی درجے کا میگزین ہے۔

باقی ایک جہان حیرت ہے۔ کس کس کا نام لیں کہ ملک کے گوشے گوشے سے کیسا کیسا اچھا لکھاری ہمیں نصیب ہوا ہے۔ آٹھ سو مصنفین کی فہرست کو بہت مختصر بھی کیا جائے تو کیا حق ادا ہو پائے گا؟ اس لئے جہاں بھی مصنفین کی تعریف کرنے کی ضرورت پیش آئی تو یہ عاجز خود کو ان کا نمائندہ قرار دے کر اسی طرح اپنی ہزار تعریف کر لے گا جیسے پارلیمان والے عوامی نمائندے اپنی مراعات میں اضافہ کر کے اسے عوام کی خدمت قرار دے ڈالتے ہیں۔

شاید ہم بہک رہے ہیں۔ بہرحال ان خواتین و حضرات اور دوسرے مصنفین سے آپ خود ہی رابطہ کر کے پوچھ لیں کہ ان کا اصلی تعارف کیا ہے۔

سوا برس کے اس سفر کے دوران مشکلات بھی پیش آئیں۔ کبھی رجعت پسند حلقوں کی جانب سے ’ہم سب‘ کے بائیکاٹ کی باقاعدہ مہمیں چلائی گئیں تو کبھی بے پناہ مقبولیت کے باعث ٹریفک کے لوڈ کی وجہ سے ہمیں سرور تبدیل کرنا پڑا اور ویب سائٹ کئی دن تک ڈاؤن رہی۔ آج کل بھی ویب سائٹ گاہے بگاہے کھانس رہی ہے اور اسے ایک بہتر سرور کی ضرورت ہے۔ لیکن ان سب مشکلات کے باوجود  ’ہم سب‘ کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔

ہماری کوشش ہوتی ہے کہ اپنے محدود وسائل میں رہتے ہوئے موصول ہونے والے ہر اچھے مضمون کو شائع کیا جائے۔ یہاں لکھنے والے جن مصنفوں کو اب پروفیشنل قرار دیا جا رہا ہے، وہ ایک دن یہاں ایسے ہی نئے مصنف کے طور پر آئے تھے اور اپنے قلم کے زور پر انہوں نے اپنا نام بنایا ہے۔ یہ مصنف علم کے ان زاویوں پر بات کرتے ہیں جو اردو پریس میں عموماً دکھائی نہیں دیتے۔ اس تاریخ کا ذکر کرتے ہیں جسے درسی کتابوں میں چھپایا جاتا ہے۔ ان موضوعات کو چھیڑتے ہیں جو ہمارے پڑھنے والوں کے لئے عام نہیں ہوتے ہیں۔ موضوعات کا یہ تنوع اور افکار کی یہ ندرت ہی ’ہم سب‘ کی طاقت ہے۔

’ہم سب‘ کے لئے فخر کی بات یہ ہے کہ ملک کے سینئر ترین صحافی اسے پڑھتے ہیں، اس میں لکھتے ہیں اور ’ہم سب‘ کے ان ’پروفیشنل‘ لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں جن کو معاوضے میں صرف داد ہی ملتی ہے۔ ہم ان کالم نگاروں کے ممنون ہیں جنہوں نے ’ہم سب‘ کو اپنے کالم شائع کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ جناب سی ایم نعیم اور آصف فرخی صاحب کے شکر گزار ہیں جن کی تعریف پر ہمارا سیروں خون بڑھ جاتا ہے۔ ناجی صاحب جیسے صحافت کے سرخیل کے کالم میں ہم سب کی کئ تحریروں کا حوالہ ہمارے معیار کا ثبوت ہے۔ جب ان کے کالم میں لکھاری کا نام اور ’بشکریہ ہم سب‘ دکھائی دے جائے تو ہمیں دن بھر رشک بھرے پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں۔ نور الہدی شاہ صاحبہ، سلیم الرحمان صاحب اور ڈاکٹر فتح محمد ملک کی تحریر ہمیں موصول ہوتی ہے تو انتظامیہ کو ’ہم سب‘ کی توقیر میں نمایاں اضافہ ہوا دکھائی دیتا ہے۔

یہ عاجز معاصر معاصر ویب سائٹس اور ان کی انتظامیہ کا شکر گزار ہے جو کہ وطن عزیز میں سوچنے سمجھنے اور فکر کے نئے زاویے وا کرنے کے مشن پر بے لوثی سے کام کر رہے ہیں۔ ’ایک روزن‘، ’نیا زمانہ‘، ’حال حوال‘، ’مکالمہ‘، ’لالٹین‘، ’ہم شہری‘ وغیرہ جیسی کتنی ہی ویب سائٹس اور آن لائن میگزین ہیں جو پاکستان کی نئی نسل کے دماغوں کو علم کی روشنی سے منور کر رہے ہیں اور شدت پسندی سے اس کو دور لے جا رہے ہیں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ان سب کی کامیابیوں کا سفر جاری رکھے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar