تقسیم در تقسیم کا ذمہ دار کون؟


وزیر اعظم نواز شریف نے حالیہ دنوں میں اپنے ایک خطاب میں علما سے اپیل کی ہے کہ وہ قوم کو مذہبی انتہا پسندی سے نکالنے کے لئے نیا بیانیہ دیں۔ مگر انہوں نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ کسی قوم کا بیانیہ بنانے میں کیا کیا عوامل کار فرما ہوتے ہیں؟ کسی قوم یا ریاست کا بیانیہ بنانے میں جہاں دیگر عوامل کار فرما ہوتے ہیں وہاں نصاب یا نظام تعلیم کا بنیادی اور اہم کردار ہوتا ہے۔ نصاب ریاست کا آئیڈلوجیکل آپریٹس ہوتا ہے۔ ریاستیں نصاب ترتیب دیتے وقت اس بات کا خیال رکھتی ہیں کہ کونسی سوچ ریاست کے لئے کارآمد ثابت ہوسکتی ہے تاکہ نصاب کی مدد سے اس سوچ کو فروغ دیا جاسکے۔ نصاب پر عمل درآمد کے لئے ایک نظام تعلیم تشکیل دیا جاتا ہے تا کہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ پاکستان کے نصاب تعلیم میں بڑی تبدیلی ضیا الحق کے دور میں لائی گئی تھی اور اس میں مذہبیت کا عنصر زیادہ شامل کیا گیا تھا۔ جس کا مقصد بڑی تعداد میں جنگجو یا ان کے ہم خیال لوگ پیدا کرنا تھا تاکہ وہ افغانستان اور کشمیر میں لڑنے کے کام آ سکیں۔ تب سے ہمارے نصاب کا مقصد متوازن ذہنیت کے پر امن اور انسان دوست شہری پیدا کرنا نہیں بلکہ جنگجو پیدا کرنا رہا ہے جس کا خمیازہ ہم آج اس صورت میں بھگت رہے ہیں کہ صفورہ چورنگی جیسے واقعات میں نامی گرامی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان ملوث پائے جاتے ہیں۔

ہمارا نصاب اور نظام تعلیم جہاں فرسودہ ہے وہاں یہ ریاست کے تمام شہریوں کے لئے یکساں بھی نہیں ہے۔ ریاست کے اپنے نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کے متوازی کئی دوسرے نظام اور نصاب بھی ملک میں رائج ہیں جو کہ قوم کو تقسیم کرنے کے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس وقت قوم کے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لئے چھ قسم کے سکول یا مدرسے دستیاب ہیں جن میں سے کسی ایک کے انتخا ب کی ہر ایک کو کھلی اجازت ہے۔ قوم کی تقسیم در تقسیم کے عمل میں ذہن سازی کا کام یہی نظام اور نصاب تعلیم کر رہا ہے۔
سب سے پہلے اگر مذہبی مدرسوں کی بات کی جائے توان کی دو اقسام پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ ہیں جن میں صرف کسی خاص فرقے کی تعلیم دی جاتی۔ اس دوران بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ زیر تعلیم بچے کے ذہن میں دیگر مسالک اور مذاہب کے بارے میں نفرت کا زہر بھر دیا جائے۔ ان مدارس میں نہ کسی اور مذہب یا مسلک کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور نہ ان کے بارے میں کوئی مثبت بات کی جاتی ہے۔ایسے مدارس کا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ ان کے مسلک کے علاوہ باقی سب گمراہ ہیں۔ مدرسے کی دوسری قسم وہ ہے جن میں کسی خاص مسلک کی تعلیم تو دی جاتی ہے مگر کچھ کمپیوٹر وغیرہ کا ہنر بھی سکھایا جاتا ہے۔ مگر ان دونوں کا دینی تعلیم کا طریقہ کار ایک جیسا ہوتا ہے فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ موخرالذکر سے فارغ طلبا کو اول الذکر کی نسبت ان کے ہنر کی وجہ سے روزگار ملنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ مگر ہنر سیکھانے والے ان مدرارس کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ان دونوں اقسام کے مدراس سے فارغ التحصیل طلبا زندگی کے تمام معاملات کو اپنے عقیدے کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں اور جن کے خیالات ان کو اپنے عقیدے کے منافی نظر آئیں ان کو وہ دائرہ انسانیت سے خارج کرنا معیوب نہیں سمجھتے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ا ن دونوں قسم کے دینی مدرارس میں زیر تعلیم طلبا وطالبات کی تعداد پینتیس لاکھ ہے۔ ان مدارس سے فارغ ہونے کے بعد قوم کے یہ بچے روزگار کیسے حاصل کریں گے، گھر کی کفالت کیسے کریں گے اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ان کا کردار کیا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کی کھپت کہاں ہوگی اس بارے میں پالیسی ساز اداروں نے آج تک نہیں سوچا۔
دوسرے نمبر پر سرکاری سکول آتے ہیں ان کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک ٹاٹ سرکاری سکول جو کسی دور افتادہ گاﺅں یا دیہات میں قائم ہوتا ہے جہاں محکمہ تعلیم کے حکام کی کبھی نظر نہیں پڑتی۔ وہاں گائے اوربھینسیں بندھی ہوئی ہیں یا طلبا سمیت اساتذہ سارادن غیر ضروری مختلف مشاغل میں مصروف ہوتے ہیں اس بارے میں درست معلومات کا حصول خود محکمہ تعلیم کے لئے بھی ممکن نہیں ہے۔ ان سرکاری سکولوں کی دوسری قسم ماڈل سکول ہوتے ہیں جو کہ کسی ضلعی ہیڈکوارٹر، کسی شہر یا کسی قدرے روشن خیال لوگوں پر مشتمل دیہی آبادی میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں ہیڈ ماسٹر یا آس پاس کے ملازم پیشہ افراد کے بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ ان سکولوں کا معیا ر ٹاٹ سکولوں سے قدرے بہتر ہوتا ہے مگر ذریعہ تعلیم اردو ہی ہوتا ہے۔ یہاں سرکاری نصاب پوری طرح رائج ہوتا ہے اس لئے یہاں سے روایتی قسم کے لوگ پیدا ہوتے ہیں جو اکثر اپنی تحریرو تقریر میں دو قومی نظریہ اور قائداعظم کے چودہ نکات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ کسی موضوع پر بات کرنے کے دوران، ان کے پاس کوئی نہ کوئی مذہبی حوالہ بھی ہوتا ہے۔ ان بچوں کو ایک خاص سانچے میں ڈالا جاتا ہے اس لئے یہ لوگ زیادہ ادھر ادھر کی باتیں نہیں سوچتے ہیں بلکہ روایتی انداز فکر لے کر عملی میدان میں اترتے ہیں مگر بعض دفعہ یہاں سے کچھ لوگ ایسے پیدا ہوتے ہیں جو اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں سسٹم کی ستم ظریفی سے واقف ہوتے ہیں جس کا اظہا ر وہ شعر و شاعری یا تحریر و تقریر میں کرتے ہیں۔
سکولوں کی تیسری قسم غیر سرکاری سکولوں کی ہے۔ ان میں بھی دو قسم کے سکول پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جو گلی کوچوں میں قائم ہوتے ہیں جن میں کم عمر اور کم تعلیم یافتہ خواتین یا مرد تین یا چار ہزار ماہانہ تنخواہ پر پڑھاتے ہیں۔ ان میں سے بعض سکولوں میں سرکاری، بعض میں مذہبی اور بعض سکولوں میں سیکولر نصاب پڑھایا جاتا ہے۔ ان سے نکلنے والے بچے اردو اور انگلش کے درمیان بری طرح پھنسے ہوتے ہیں۔ان کی حالت ’دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا‘ جیسی ہو تی ہے۔غیر سرکاری سکولوں کی ایک قسم ان عالی شان سکولوں کی ہے جو بڑے شہروں میں قائم ہیں ان کو مہنگے اور انگلش میڈیم سکول کہا جاتا ہے۔ یہاں غریبوں کے بچوں کے لئے گنجائش نہیں ہوتی بلکہ اشرافیہ کے بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں۔ یہاں کی زبان ، طرزسخن اور لباس انگریزی ہوتا ہے۔ان کے پاس عام آدمی چند لمحے بیٹھ کر ایک دم محسوس کر لیتا ہے کہ یہ ہم میں سے نہیں ہیں اور یہ خود بھی دن بھر عام پاکستانیوں کی ذہنیت اور طور طریقوں کو کوستے رہتے ہیں۔
گویا سکولوں کی مذکورہ چھ اقسام سے چھ قسم کی ذہنیت کے لوگ پیدا ہوتے ہیں جن کا سوچنا سمجھنا، مشاہدہ اور طرز فکر ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ معاشرے کی تقسیم در تقسیم کے عمل میں ان سکولوں اور ان میں پڑھائے جانے والے نصاب کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ محمد بن قاسم ، خالد بن ولید اورمحمود غزنوی کو اپنا ہیرو مانتے ہیں، کچھ بوعلی سینا، سرسید احمد خان، قائد اعظم اور سر آغاخان کو، کچھ آئن سٹائن اور نیوٹن کو، کچھ کارل مارکس ، لینن اور ماﺅزے تنگ کو، کچھ گاندھی، مدر ٹریسا، ایدھی، ملالہ وغیرہ کو انسانیت کے محسن سمجھتے ہیں، کچھ امریکہ سے متاثر ہیں، کچھ چین اور جاپان سے، کچھ ایران اور سعودیہ سے متاثر ہیں اور کچھ بھارت کو بہترین دوست قرار دیتے ہیں۔ کچھ افغانستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ تصور کرتے ہیں اور کچھ ہماری داخلی اور خارجہ پالیسی کا رونا روتے ہیں۔ کچھ دہشت گردی کی وجہ ہماری پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں اور کچھ اس کو ہماری امریکہ سے دوستی کا نتیجہ اور کچھ اس کی وجہ اچھے اور برے طالبان کا ہمارا قومی فارمولا قرار دیتے ہیں۔ کچھ قادری کو درست سمجھتے ہیں اور کچھ سلمان تاثیر کے مداح ہیں۔ کچھ کو قندیل بلوچ پر ترس آتا ہے اور کچھ اس کے کے بھیانک انجام کا حوالہ دے کر عورتوں کو ڈراتے ہیں۔ کچھ عورت کو اپنی پراپرٹی سمجھتے ہیں اور کچھ اس کو انسان ہونے کے ناتے مردوں کے برابر درجہ دینے پر تکرار کرتے ہیں۔ کچھ کلین شیو انتہا پسند ہوتے ہیں اور کچھ باریش، کچھ کو میوزک، ڈانس اور مخلوط نظام تعلیم اچھا لگتا ہے اور کچھ صوم و صلوٰة کے پابند ہوتے ہیں جبکہ میوزک، ڈانس، تصویر وغیرہ بنانے کو کفر گردانتے ہیں۔
تقسیم در تقسیم کا یہ سلسلہ صرف انتہا پسندانہ خیالات کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ عملا ًبھی اس اختلاف کا اظہار ہوتا ہے۔ کبھی گالم گلوچ کی شکل میں، کبھی ماردھاڑ، کبھی جلاؤ گھیراﺅ کی شکل میں، کبھی بم دھماکوں، کبھی دھرنوں اور کبھی مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مگر ریاست آج بھی یہ ماننے کے لئے تیا ر نہیں ہے کہ یہ سب ہماری تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔ ہمارے نصاب اور نظام تعلیم کا مقصد پر امن اور انسان دوست شہری پیدا کرنا نہیں ہے، ہمارے نصاب تعلیم کا مقصد تمام شہریوں کی یکساں تربیت نہیں ہے ، ہمارے نظام و نصاب تعلیم میں مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی نہیں ہے، ہمارے نظام و نصاب تعلیم میں سوچ کی ہم آہنگی کا اہتمام نہیں ہے تو ہم بحیثیت قوم ایک کیسے سوچ سکتے ہیں اور متحد کیسے ہوسکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم موجودہ فرسودہ نظام تعلیم اور نصاب سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر سائنس، ٹیکنالوجی اور تحقیق میں دنیا کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟ اور ان سب سے بڑھ کر ہم انتہا پسندی کے مقابلے میں نیا بیانیہ کیسے دے سکتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ڈھونڈے بغیر ہم تقسیم در تقسیم اور انتہا پسندی کا رونا روتے رہیں گے مگر ایک متحد، مہذب اور ترقی پسند قوم کبھی نہیں بن سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).