پارلیمنٹ و عدلیہ بھائی بھائی


اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں پاکستان کی عدلیہ کسی خاص شخص و ادارے کے ہاتھوں استعمال ہوئی ہے، بھٹو پھانسی ایک سیاہ دھبہ سپریم کورٹ کی ساکھ پر لگا ہوا ہے جس کو دھونے کی کوشش بھی کی گئی، عدلیہ جانبدار و متنازعہ فیصلے کرتی رہی ہے اور کچھ جج صاحبان تاریخ کا حصہ رہے ہیں جنہوں نے اپنی وفاداری آئین پاکستان کی بجائے کسی طاقتور شخصیت کے ساتھ ثابت کی ہے اور آئین کی تشریح کی مد میں آئین کو ری رائٹ کرنے کی کوشش کی۔

افسوس تو یہ ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ بھی گروپ بندی سے نہ بچ سکی، ججز کا آئینی حدود میں رہ کر اختلاف ہو سکتا ہے لیکن سیاست نہیں۔ حالیہ چند فیصلے سپریم کورٹ میں تقسیم اور سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہیں جیسا کہ مخصوص نشستوں پر اختلافی نوٹ او ر بعد میں تفصیلی فیصلے میں اختلافی نوٹ دینے والے ججوں کا ذکر، پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس کے آنے کے بعد فوراً جسٹس منیب اختر کو ہٹا کر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو نظر انداز کر کے جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی کا تیسرا رکن بنانا اور اگلے چیف جسٹس اور کمیٹی کے دوسرے رکن جسٹس سید منصور علی شاہ کی کمیٹی میں عدم موجودگی میں 63۔ اے نظرثانی کے لئے پانچ رکنی بینچ تشکیل دے کر 0۔ 5 سے فیصلہ آنا۔ یہ ایک الگ موضوع بحث ہے کہ 63۔ اے کے فیصلے کی ٹائمنگ کو نظر انداز کیا گیا یا اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی۔

لیکن عدلیہ پر تنقید کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر یہ فرض کیا جائے کہ عدلیہ میں جج نہیں سیاستدان ہیں تو ان سیاستدانوں کو سیاست سکھائی کس نے یہ سیاستدان تو قانون کی اعلی ڈگریاں اور آئین پاکستان کے تحفظ کا حلف اٹھا کر یہاں تک پہنچے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں کا چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو لکھے جانے والا خط اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ڈنڈا عدلیہ کی تاریخ میں اثر انداز رہا ہے۔ پارلیمنٹ کا کام قانون سازی کرنا ہے لیکن پارلیمنٹ نے بھی قانون سازی کی آڑ میں سپریم کورٹ کو سیاست کرنے کے لئے گراؤنڈ مہیا کی ہے اور پھر ان سیاستدانوں کی مدد سے اپنے مخالفین کو کھڈے لائن لگانے کی کوشش کی ہے پی ڈی ایم 1 نے سپریم کورٹ میں ون مین شو کو ختم کرنے کے لئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ کیا اور اب جب دیکھا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور منیب اختر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی دال نہیں گلنے دے رہے تب پی ڈی ایم 2 نے آرڈیننس لاکر دوبارہ ون مین شو کو پروموٹ کیا۔

26 آئینی ترمیم ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے لئے بد قسمتی سے ملک کی بقا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت جوڈیشل ریفارم لانا چاہتی ہے تو 25 اکتوبر سے پہلے ہی کیوں اگر سیاست دان عدلیہ کو سیاست سے دور کرنا چاہتے ہیں تو ان کو جسٹس منصور علی شاہ کے چیف جسٹس بننے پر اتنا کیوں اعتراض ہے اور کیوں اپنا من پسند چیف جسٹس لانا چاہتے ہیں۔ فوج میں آرمی چیف وزیر اعظم کی مرضی سے لگتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیبلیشمنٹ سیاست کرنے لگی اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ یہ تجربہ ناکام ہے اور سنیارٹی کا اصول ہی بہتر ہے۔

پی ڈی ایم کو چاہیے کہ جیسے تیسے بھی وہ اگر حکومت میں آ ہی گئے ہیں تو اخلاقیات کا مظاہرہ کرے اور عدلیہ سے جو بھی تحفظات ہیں ان کو مفاہمت کے ساتھ حل کیا جائے، اگر حکمران پارٹیوں میں اتنی اخلاقی جرات نہیں، تو پھر ان کو یقین رکھنا چاہیے کہ جو طاقتیں ان کو 8 فروری کو حکومت میں لے کر آئیں تھے وہ پھر جسٹس شاہ سے آپ کو معافی لے دیں گی اگر آپ ان کی امیدوں پر پورا اترتے رہے۔

میری ناقص رائے یہ ہے کہ اب بہت ہو گیا، انتشار اور غیر اخلاقی رسومات کو سیاست سے نکال دینا چاہیے، موجودہ حکومت کے پاس تو پہلے ہی اخلاقی جواز نہیں، تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر پارلیمنٹ و عدلیہ ان دونوں بھائیوں کی صلح کروانی چاہیے اور ان دونوں بھائیوں کو بھی خیال کرنا چاہیے کہ ہمارے درمیان ایک دیوار ہے ہمیں اپنے اپنے گھر تک رہنا چاہیے ایک دوسرے کے گھر پتھر نہیں مارنے چاہئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments