تمام مذہبی سکالرز کا احترام، فرقہ وارانہ حدود سے بالاتر
میں ذاتی طور پر تمام مذہبی سکالرز کا احترام کرتا ہوں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب / فرقہ سے ہو۔ شرط صرف ان کے سکالر ہونے کی ہے، مذہب شرط نہیں ہے۔ میرا مذہب اسلام ہے، اور آپ کا کوئی بھی مذہب ہو، میرے لیے وہ ایسے ہی محترم ہے جیسے میرے لیے میرا مذہب اسلام ہے۔
میں صرف ان لوگوں کو ناپسند کرتا ہوں جو مذہب کا نام لے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں یا شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں، جیسے کچھ کریانہ مولوی حضرات جو مساجد کو اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یا ٹک ٹاکرز بن چکے ہیں یا وہ جو ایسے ناجائز کام کرتے ہیں کہ جن سے بچوں کے نفسیات پر برا اثر پڑتا ہے۔ ناپسندیدہ کہنا بھی شاید نرم الفاظ ہوں، اصل میں مجھے ان سے نفرت ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک ایک معروف مذہبی سکالر ہیں اور ان کے علم کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جاتا ہے۔ البتہ، ان کے بعض بیانات پر تنقید بھی ہوئی ہے، جو انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ان کی ابتدائی غلطیوں کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، جنہیں ہم مختلف تناظر میں دیکھ سکتے ہیں :
پہلا یہ کہ :
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ اور ایک مستحکم اسلامی قلعہ ہے، جس کی آغوش سے حضرت مولانا مودودی، جناب جاوید غامدی، ڈاکٹر طاہر القادری، مولانا طارق جمیل، پروفیسر احمد رفیق، ڈاکٹر اسرار احمد، مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر فرحت ہاشمی، ڈاکٹر غلام جیلانی برق، مولانا اسحاق اور ڈاکٹر غلام مرتضیٰ جیسے علم و فضل کے مینار پیدا ہوئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں مذہب کی بنیادی فہم پہلے سے ہی نہایت گہرائی کے ساتھ موجود تھی۔ شاید ڈاکٹر صاحب اس حقیقت کو مکمل طور پر سمجھ نہ سکے اور یوں اس فہم کو مس ریڈ کر بیٹھے۔
دوسرا یہ کہ :
وہ بھارت میں رہے ہیں، جو ایک جدید ملک ہے اور وہاں مذہب کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی نسبتاً پاکستان سے کم ہے اور دوسرا پاکستان ایک تیسری دنیا کا ملک ہے، تو اس مزاج کے حساب سے وہ اسے ڈیل کر رہے تھے، بس ذرا مس جج کر گئے کیونکہ ان کی ابتدائی تقاریر میں اس فرق کا اثر محسوس ہوتا تھا، لیکن جیسے جیسے ان کا علمی سفر آگے بڑھا، ان کی سوچ میں نرمی اور فہم کی وسعت پیدا ہوئی۔
مجھے یقین ہے کہ محترمہ کے سوال کا جواب اگر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کسی تفصیلی نشست میں دیا ہوتا تو وہ جواب یقیناً ہم سب کے لیے زیادہ قابل قبول ہوتا۔ تاہم، ہزاروں کے مجمعے میں جواب دینا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے، اور شاید اسی وجہ سے ان کا جواب توقعات کے مطابق نہیں تھا اور دوسرا ٹیم کی ناقص ریسرچ تھی کہ جہاں وہ جا رہے ہیں وہ لوگ مبادیات سے بہت آگے ہیں۔
لیکن ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی بڑے اسلامی سکالر نے ان پر تنقید نہیں کی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم زیادہ تر سماجی رجحانات کے پیروکار ہیں اور بریکنگ نیوز کی طرح جلدی نتیجہ نکالنے کے عادی ہیں۔ یہ رویہ ہمیں فکری گہرائی سے دور رکھتا ہے اور حقائق کو سمجھے بغیر رائے قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا مقام آج بھی میرے دل میں قائم ہے کیونکہ میں نے چھوٹے چھوٹے حصے سب سے سیکھے ہیں۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتابوں ”دو قرآن“ ، ”دو اسلام“ اور ”بھائی بھائی“ کے مطالعے کے ذریعے میں نے حقیقی اسلام کی روح کو سمجھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی ”بیان القرآن“ سے قرآن کی تفسیر کا لطف اٹھایا، جبکہ مولانا مودودی کی ”تفہیم القرآن“ کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پروفیسر احمد رفیق کے اندازِ گفتگو پر سبحان اللہ کہنا پڑتا ہے، اور میں ڈاکٹر جاوید غامدی کو اس دور کا سب سے بڑا سکالر مانتا ہوں۔
جب میں نے ڈاکٹر طاہر القادری کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں کن فیکون پر لیکچر سنا تو مجھے اللہ کا قرب محسوس ہوا، یقین ہوا کہ اللہ میری بات سنتا ہے اور مجھ سے محبت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے بھی بہت متاثر ہوں۔ ان کی علمی کاوشیں اور دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ نے مجھے ان کی قدر کرنے پر مجبور کیا ہے۔
میرے پیارے پیارے میٹھے اسلامی بھائیو، مذہب کا اصل مقصد انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی ہے۔ اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے، لیکن یہ اختلاف علم کے ذریعے ختم ہو سکتا ہے اور اصل مذہبی فلسفے کا درس بھی یہی ہے، اور ہمیں تمام سکالرز کی محنت اور تعلیمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔
- آئین پاکستان میں سود کے خاتمے کی ترمیم کی اصل حقیقت - 23/10/2024
- جائیداد آپ خریدتے ہیں، مالک کوئی اور ہوتا ہے - 20/10/2024
- ڈرامہ دنیا پور اور فن کے نام پر عورت کی تذلیل - 18/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).