چاند باؤلی: جہاں ایک ہزار سال پرانا کنواں اب بھی موجود ہے
چاند باؤلی: ایک ہزار سال پرانا کنواں، راوات بھاٹا بھارت کے ایٹم بجلی گھر، منڈل قلعہ جس کی اپنی ہی شان ہے
مجھے 1999 میں بھارت کا یک طویل سفر کرنے کا موقع ملا۔ اس سفر میں جو دیکھا اس کا احوال پیش خدمت ہے۔
اس علاقے کی تاریخ پڑھتے ہوئے یہ جانا کہ یہاں ایک ایسا قصبہ بھی موجود ہے جو کوٹہ سے زیادہ دور نہیں ہے وہاں پر ایک ہزار سال پرانا ایک کنواں پایا جاتا ہے۔ اس قصبے کا نام چاند باؤلی ہے۔ انگریزی میں اسے Baori لکھا جاتا ہے۔ لیکن عام بول چال میں اسے باؤلی ہی لکھتے ہیں۔ اس طرح کے کئی کنویں پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر ایسا ان علاقوں میں کیا جاتا ہے جہاں پانی کی شدید قلت ہوتی ہے۔
میں نے چاند باؤلی کے بارے میں تمام تر معلومات ادیتی سنگھ اورسوما اے مشرا کے لکھے ہوئے ایک مضمون Study of Ancient Stepwells in India سے حاصل کی ہیں 1۔
چاند باؤلی نام اس وقت کے ایک مقامی حکمران راجہ چندا کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس علاقے کی مصّدقہ تاریخ کا علم تو نہیں لیکن یہاں پر موجود چھتوں والے مندروں کے طرزِ تعمیر اور نقش و نگار کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ بارہ سو سال پرانا ہے۔ ہندوستان بھر میں ایسے بے شمار کنویں پائے جاتے ہیں جو بہت ہی گہرے ہیں۔ ان کی گہرائی کئی سو فٹ تک ہوتی ہے۔ پرانے وقتوں میں ان کی گہرائی تک جانے کے لیے سیڑھیاں بنائی جاتی تھیں۔
سیڑھیوں کی تعداد پانی کی گہرائی پر منحصر ہوتی ہے۔ چاند باوری ان چند کنوؤں میں سے ایک ہے جن میں پانی تک جانے کے لیے سیڑھیاں موجود ہیں۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کنواں اور اس کے ارد گرد موجود محل آٹھویں صدی میں بنایا گیا۔ یہ جگہ چوہان حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مغل حکمران بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ یہ صرف ایک کنواں نہیں ہے اس کے ارد گرد بے شمار عمارتیں بھی موجود ہیں۔ اس کی تصویروں سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ نہایت خوبصورت عمارت ہے۔ یہاں درمیان میں کنواں، چاروں اطراف اترتی سیڑھیاں اور اردگرد بہت خوبصورت رہائش گاہیں اور اس کے ساتھ ایک مندر بھی موجود ہے۔
مختلف کتابوں میں مغلوں سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بہت سے مندروں کو تباہ کیا، وہیں پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مختلف مندروں کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی بے شمار کام کیے لیکن میں ایسے کسی مندر کو نہیں جانتا جس کی تعمیر و ترقی میں مغلوں نے کوئی کردار ادا کیا ہو۔ جب میں نے چاند باؤلی کے بارے پڑھا تو پتہ چلا کہ اٹھارہویں صدی میں مغل حکمران اس علاقے میں آئے یہاں رہائش اختیار کی اور اس کنویں کے ارد گرد کئی منزلیں تعمیر کیں، جس سے اس کی خوبصورتی میں بے حد اضافہ ہوا یہ کہا جاتا ہے اس وقت یہ کنواں خستہ حال ہو چکا تھا لیکن مغلوں نے اسے دوبارہ سے آباد کیا۔
اگر آپ کو بھی اس کی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہو تو آپ یہ دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے کہ کس طرح کئی سو سیڑھیاں اتر کر پانی تک پہنچ جاتا ہے۔ میں نے کچھ ایسی ویڈیوز بھی دیکھی ہیں جن میں کچھ لوگ اوپر سے چھلانگ لگا کر پانی میں جا گرتے ہیں۔ ایسا کرنے کے لیے بہت حوصلہ چاہیے۔ ہندوستان بھر کا یہ سب سے زیادہ گہرا کنواں ہے۔ چاند باؤلی تیرہ منزلوں پر مشتمل کنواں ہے جس کی چھ منزلیں زمین کے اندر ایک سو فٹ تک گہری ہیں۔ یاد رہے راجستھان جیسے انتہائی خشک علاقے میں ایسا کنواں بنانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ پانی کو محفوظ کرنا تھا۔ گہرائی زیادہ ہونے کی وجہ سے کنویں کے نچلے حصے میں خاصی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ لوگ گرمیوں میں نچلے حصے میں جاکر آرام کرتے تھے۔ اس کے نچلے حصے میں کچھ کمرے بھی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اُس وقت کے حکمران گرمی سے بچنے کے لیے وہاں پر آرام کرتے تھے۔
چاند باؤلی کے منفرد طرزِ تعمیر کی وجہ سے یہاں پر کئی ہندی اور انگریزی فلمیں بھی فلمائی گئیں ہیں جن میں بھومی، دی فال، بھول بھلیاں، پہیلی اور دی ڈارک نائٹ رائزز وغیرہ شامل ہیں۔ اس کنویں کے عجیب و غریب طرزِ تعمیر کے تصور نے مجھے نیند سے کوسوں دور رکھا۔
راوت بھاٹا: جہاں بھارت کے کئی ایٹمی بجلی گھر واقع ہیں
راوت بھاٹا، کوٹا سے پچاس کلومیٹر دوری پر واقع ہے۔ اس شہر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پر آٹھ ایٹمی بجلی گھر موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک ایٹمی فیول کمپلیکس بھی زیر تعمیر ہے۔ راوت بھاٹا میں رانا پرتاپ ساگر ڈیم بھی ہے جو راجستھان کا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ اس ڈیم سے قریباً دو سو میگاواٹ قریب بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس علاقے میں ہندوؤں کا ایک انتہائی مقدس مندر بار ولی بھی موجود ہے۔ یہ مندر دسویں صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا۔ اس علاقے میں ایک قدرتی آبشار بھی پائی جاتی ہے۔ یہ آبشار بھی سیاحوں کے لیے بے حد کشش رکھتی ہے۔
قلعہ منڈل گڑھ
اس علاقے میں منڈل گڑھ نام کا ایک قصبہ بھی موجود ہے جس پر کبھی برہما بادشاہوں کا راج تھا۔ اس کا آخری برہما بادشاہ منڈیا برہما تھا۔ اسی وجہ سے اسے منڈل گڑھ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس علاقے پر قبضے کے لیے مسلمان بادشاہوں اور ہندو راجاؤں کے درمیان کئی بار جنگیں ہوئی۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پندرہویں صدی کے وسط میں سلطان محمود خلجی نے اس علاقے پر دو دفعہ چڑھائی کی۔ اس علاقے پر سلاطین دلی اور مقامی راجپوتوں نے باری باری حکمرانی کی۔ اس طرح یہ علاقہ کئی صدیوں تک میدانِ جنگ بنا رہا۔
اس علاقے اور یہاں کے قلعے کی تاریخ پرتاب سنگھ مہتا نے اپنی کتاب Guns and Glories: Rajputana Chronicles میں تفصیل سے لکھی ہے۔
مغل بھی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ سترہویں صدی کے وسط میں شاہ جہاں نے کشن گڑھ کے راجہ روپ سنگھ کو ایک بڑی جاگیر عطا کی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مغل حکمرانوں نے راجپوتوں کے ساتھ ہمیشہ سے ہی دوستی رکھی اور یہ بات صرف اکبر تک ہی محدود نہیں ہے۔ روپ سنگھ نے یہاں ایک محل بھی تعمیر کیا۔ جسے پر رانا راج سنگھ نے قبضہ کر لیا اورنگزیب نے یہ قبضہ واپس لیا اور یوں ایک مرتبہ پھر یہ علاقہ مغل حکمرانوں کے زیرِ تحت آ گیا۔
مغل سلطنت کے زوال کے بعد بھی یہ علاقہ مقامی رانا خاندان کے ماتحت ہی رہا۔ میں نے اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی کہ اس علاقے میں انگریزوں نے کب عمل دخل شروع کیا لیکن مجھے ایسی کوئی معلومات حاصل نہ ہو سکیں جس سے مجھے یہ پتہ چلے کہ تقسیم ہند تک یہ لوگ آزاد ہی رہے اور کسی بھی طرح انگریزوں کی غلامی میں نہ آئے۔ یہ میرا علم ہے ممکن ہے کہ درست نہ ہو۔
پرتاب سنگھ مہتا کی کتاب ( صفحہ 74 ) پر لکھتے ہیں کہ 1761 ء میں مہتا اگر چند جو مہتا پرتھوی راج کا بیٹا اور مہاراجہ رانا اری سنگھ کا مشیر تھا کو منڈل گڑھ قلعے کا پہلا قلعہ دار مقرر کیا گیا۔ مہاراجہ رانا اری سنگھ نے مہتا اگر چند کو ایک خط لکھا جو اس علاقے کی تاریخ سمجھنے کے لیے بے حد مفید ہے۔ اس خط میں یہ لکھا گیا کہ ضلع منڈل گڑھ باغی ہو گیا ہے اور اس ضلع کو بہتر حالت میں لانے کے لیے آپ لوگوں کی رہائش کے لیے مکانات بنائیں اور کسانوں کو مراعات دیں۔ مہتا اگر چند نے اس علاقے کی بہتری کے لیے کئی کام کیے جو آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔
ہماری گاڑی کو تقریباً ًساڑھے تین بجے کے قریب کوٹہ پہنچنا تھا۔ یہاں ہماری گاڑی کا سٹاپ بھی تھا۔ مجھے اب تک راجستھان کے کسی سٹیشن پر اترنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ ہم کافی دیر سے راجستھان کے علاقے میں سفر کر رہے تھے۔ رات کا وقت ہونے کی وجہ سے میں زیادہ علاقے نہ دیکھ سکا۔ کوٹہ کے بارے میں مجھے علم تھا کہ وہ راجستھان میں ہمارا آخری سٹاپ ہو گا۔ راجستھان کا ذکر کیے بغیر ہندوستان کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی اور یہاں سے گزرتے ہوئے یہ نہیں چاہتا تھا کہ مجھے اس کی سر زمین پر قدم رکھنے کا موقع نہ ملے۔ اس لیے میں نے کوشش کی کہ کسی طرح اپنی نیند کی قربانی دے کر چند منٹ کے لیے راجستھان کی دھرتی پر اتروں۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ میں کوٹہ کے مشرق میں مدھیہ پردیش کی اسٹیٹ میں واقع ایک انتہائی اہم شہر اشوک نگر سے متعلق کچھ دلچسپ معلومات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اشوک نگر مدھیہ پردیش کا ایک اہم شہر ہے۔ اس علاقے میں پیدا ہونے والی گندم کی ایک خاص قسم ”شربتی گیہوں“ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ایک منفرد نوعیت کی گندم ہے۔ یہ بات بھی مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوئی کہ اس علاقے میں ایک چھوٹا دریا بہتا ہے اور اس کا نام بھی دریائے سندھ ہے۔ دریائے سندھ بعد میں یمنا دریا میں جا گرتا ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).