حسین حقانی کا مضمون اور ہماری منافقت


حسین حقانی نے، جیسا کہ ہمارے وزیر ِ دفاع ہمیں بتاتے ہیں، ایک بار پھر ہماری قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ، اور اس مرتبہ موصوف نے محض اخبار (واشنگٹن پوسٹ) میں ایک مضمون لکھ کر ایسا کردیا ہے ۔ محب ِوطن حلقے حسین حقانی کے جس انکشاف پر مشتعل ہیں، وہ یہ ہے کہ اوباما انتظامیہ اسامہ بن لادن کی تلاش کے لئے پاکستان میں اپنے انٹیلی جنس ذرائع اتارنا چاہتی تھی، اور صدر زرداری کی حکومت نے اس کی اجازت دے دی، اور پھر مسٹر حقانی کا اس بات پر زور دینا کہ پاکستان کے علم میں لائے بغیر وہ انٹیلی جنس ذرائع وہ مقصد حاصل نہ کرپاتے جن کی معلومات کی بنیا د پر امریکی کمانڈوز نے ایبٹ آباد آپریشن میں بن لادن کوہلاک کیا۔ حسین حقانی کے مضمون میں کیے گئے انکشاف سے تاثر ملتا ہے کہ اپنے دور کے اختتام کے قریب صدر مشرف امریکیوں کا اعتماد کھو بیٹھے تھے ۔ امریکیوں کو شک تھا کہ وہ اُن کے ساتھ دہرا کھیل کھیل رہے ہیں۔ دوسری طرف زرداری حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس کے افغانستان میں مقاصد کے حصول کے لئے تعاون کرنے میں سنجیدہ تھی ۔ سویلین حکومت اور امریکی انتظامیہ کے درمیان تعلق ، جسے آگے بڑھانے میں حسین حقانی معاون ثابت ہوئے تھے ، کی وجہ سے پاکستان کو کیری لوگر فنڈز ملے ، اور ا س کے بدلے پاکستان نے فوج کی مدد کے بغیر اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکہ کو سہولت فراہم کی ۔

اس مضمون میں حقیقی پریشان کن بات اس سے ابھرنے والا یہ تاثر ہے کہ ماضی میںہماری اسٹیبلشمنٹ طالبان اور اسلامی انتہا پسندوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی تھی، چنانچہ اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قابل ِ اعتماد حلیف نہ سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ (حسین حقانی کے مطابق) اوباما انتظامیہ نے ایبٹ آباد آپریشن کے دوران اس خدشے کے تحت ہمارے عسکری ذرائع سے رابطہ نہ کیا کہ کہیں اس کی اطلاع بن لادن کو نہ مل جائے اور وہ فرار نہ ہوجائے ۔ یقینا بن لادن کا ہماری سرزمین سے ملنا، اور ہلاک کردیا جانا ہمارے لئے انتہائی خطرناک لمحہ تھا۔ ریاست کے سامنے دوآپشن تھے کہ یا تو اپنی نااہلی کا اعتراف کرلے یا پھر یہ مان لے کہ وہ جان بوجھ کر دنیا کے مطلوبہ ترین شخص کو پناہ دئیے ہوئے تھی۔ ہم نے پہلے آپشن کو ترجیح دی۔ ہم نے دنیا کے سامنے وضاحت پیش کی کہ بہترین انٹیلی جنس ایجنسیوں سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ اس کے لئے ہم نے نائن الیون کی مثال بھی پیش کی،لیکن دنیا کے دل سے یہ شک نہ نکال سکے کہ ہوسکتا ہے کہ اس میں نااہلی کی کارفرمائی بھی ہو لیکن کسی نہ کسی سطح پر اغماض کا پہلو بھی موجود تھا۔دوسرے الفاظ میں دنیا کو شک ہے کہ ہماری ریاست غیر ریاستی عناصر سے کسی نہ کسی سطح پر تعلق رکھتی تھی ۔

اب انڈیا بھی ہم پر یہی الزام لگاتا ہے ، افغانستان کی طرف سے بھی اسی الزام کی باز گشت سنائی دیتی ہے ۔ پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دینے کے لئے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ یہ خطے میں اپنے سیکورٹی اہداف کے حصول کے لئے غیر ریاستی عناصر کو استعمال کرتا ہے ۔ اب اس وقت جب ٹرمپ انتظامیہ جنوبی ایشیا کے بارے میں کوئی پالیسی وضع کرنے اور افغانستان میں امریکی اہداف کے حصول کا کوئی طریقہ تلاش کرنے کی کوشش میں ہے ، مسٹر حقانی نے واشنگٹن کو ماضی کے شکوک یاد دلانابوجوہ ضروری سمجھاکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ اس مضمون کا سب سے قابل ِ اعتراض پہلو یہی ہے ۔

تاہم حسین حقانی کے مضمون پر ہمارا رد عمل اس بات کوایک مرتبہ پھر واضح کرتا ہے کہ ہم سچ جاننے کی خواہش نہیں رکھتے اور نہ ہی ہمیں یہ برداشت ہے ۔ جب کبھی ہماراسچ سے سامنا ہوجاتا ہے ، تو ہم حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے قاصد کو ہی شوٹ کرنا بہتر سمجھتے ہیں ۔ہم نے تاریخ کو مسخ کرنے، غلط معلومات کو حقائق اور دروغ گوئی کو ایک فن کا درجہ دینے میں مہارت حاصل کررکھی ہے ۔ ہم خود کو یقین دلاتے رہتے ہیں کہ اگر ہم کوئی سچا معلوم ہونے والا بیانیہ تراشنے میں کامیاب ہوجائیں اور اگر حقانی جیسے ’’غدار ‘‘ بیچ میں ٹانگ نہ اڑائیں تو دنیا ہماری بات پر یقین کرلے گی ۔ دوسری بات یہ کہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ریاست کے ساتھ وفاداری اور مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرتے ہوئے کچھ تزویراتی اہداف کے حصول میںکوئی حرج نہیں، جیسا کہ اداروں کے درمیان بالادستی کی کشمکش اور بیرونی ریاستوں کے ساتھ نمٹنا۔ اور ایسا کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کو فراموش کردیتے ہیں کہ عوامی اشتعال کو ابھارنا بہت آسان ، اسے دبانا بہت مشکل ہوتا ہے ، نیز عوامی اشتعال ، غیر ملکیوں سے نفرت اور انتہا پسندی معاشرے کو تقسیم کردیتی ہے اور ریاست کو تعمیر و ترقی سے محروم کرسکتی ہے ۔

ہمارے ہاں وقفے وقفے سے امریکہ کے خلاف نفرت کا طوفان کیوں کھڑا ہوجاتا ہے،اور پھر دائیں بازوکی جماعتیں ’’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے ، غدار ہے ‘‘، کے نعروں سے زمین آسمان کیوں ایک کردیتی ہیں؟لیاقت علی خان کے سیٹو اور سینٹو سے لے کر ایوب خان کے ’’فرینڈزناٹ ماسٹرز‘‘، ضیا کے انکل سام کو گلے لگا نے، مشرف کی روشن خیالی تک، اوران کے درمیان قائم ہونے والی ہر سویلین حکومت کی کیا یہ متفق پالیسی نہیں رہی کہ امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات میں ہی ہمارا مفاد ہے ؟اگر امریکہ کے ساتھ تعلقات میں ہمارا مفاد ہے تو پھر رائے عامہ کو اس کے خلاف کیوں بھڑکایا جاتا ہے ؟اگر ایوب خان نے مغربی فنڈنگ کے ذریعے ملک میں بھاری بھرکم ترقیاتی منصوبے بنائے ، اگر سرد جنگ میں پاکستان کو امریکہ کا معاون بنادیا گیا، اگر مشرف نے ایئربیس امریکہ کے حوالے کردئیے (اس کا ہمیں اُس وقت پتہ چلا جب سینیٹر فینسٹن نے پاکستان کی طرف سے ڈرون حملے کی مخالفت پر حیرت کا اظہار کیا کیونکہ اُن کے مطابق یہ طیارے پاکستان سے ہی پرواز کرتے تھے )تو پھر پی پی پی نے امریکی افسروں کو اسامہ بن لادن کی تلاش میں پاکستان آنے کی اجازت دے کر کون سا جرم کیا؟کیا ہم اسامہ بن لادن کو دنیا سے چھپانا چاہتے تھے ؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں اس کی تلاش کے لئے امریکیوں کی کوشش پر اعتراض کیوں ؟کیا ہماری ریاست ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اس بات پر آگ بگولہ تھی کہ ایک اتحادی نے ہماری خودمختاری کی پامالی کی اور ہمیں دنیا کے سامنے شرمندہ کیا ؟یا پھرکیا ہم نہیں چاہتے تھے کہ اسامہ پکڑا جائے ؟ یا کم از کم جب تک ہم نہیں چاہتے ؟کیا حسین حقانی کے الفاظ اور افعال نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان عدم اعتماد کی فضا کو بڑھایا ہے ، یا صرف اس کی نشاندہی کی ہے ؟جب ہم حسین حقانی کو ’’غدار ‘‘ قرار دیتے ہیں ، یا شکیل آفریدی کو سزاد یتے ہیں تو ہم لاشعوری طور پر دنیا کو اپنے عزائم پر ابہام میں مبتلا کردیتے ہیںکہ کیا ہم دہشت گردوں کی طرف ہیں یا مہذب دنیا کے ساتھ کھڑے ہیں؟

پاکستان کو دہشت گردی کے مسئلے کا سامنا ہے ۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ مسام دار سرحدوں یا غیرفعال حکومت کی وجہ سے دہشت گرد ہمارے ہاں سرایت کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، یا اگر ہمارے دشمن خود کش بمباروں کو رقوم فراہم کرنا بند کردیں تو یہ مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ ہر گزنہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کا حقیقی ’’ٹھکانہ ‘‘ معاشرے کے ایک دھڑے کا انتہا پسندوں کے نظریات کی طرف جھکائو ہے ۔

ہوسکتا ہے کہ وہ دھڑا دہشت گردوں کے طریق ِ کار سے اختلاف رکھے ، لیکن وہ کفار اور گناہ گارمسلمانوں کے خلاف اُن کے نام نہاد جہاد کا حامی ہے ۔ اس دوران یہ حقیقت کہ اسلامی ریاست میں رہنے والے مسلمان ہی دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ ہیں، انتہا پسندوں کے حامیوں کے لئے غیر اہم ہے ۔ اس ماحول میں ریاست جب مبہم بیانیہ اختیار کرتے ہوئے دہشت گردوںکے اہداف کی وجہ سے ’’اچھے یا برے ‘‘ کی تمیز روا رکھتی ہے تو پھر اس سے یہ تاثر بھی تقویت پاتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں کوئی قوت اچھے اور برے مسلمانوں کے درمیان بھی تمیز کرنے کی مجاز ہے ۔ یہ ماحول دہشت گردی کے لئے انتہائی زرخیز ہے ۔

ایک عشرہ قبل لال مسجد شدت پسندوں کا گڑھ تھی، جسے فوجی آپریشن کے ذریعے پاک کرنا پڑا۔ اس آپریشن میں ایس ایس جی کے کئی افسران شہید ہوئے ۔ آج لال مسجد اُن بلاگرز ، جو ’’غائب ‘‘ ہوگئے اور جن پر بعد میں توہین کا الزام لگادیا گیا، کے خلاف سب سے زیادہ متحرک ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ توہین رسالتؐ مسلمانوں کیلئے بہت بڑا اور اہم ایشو ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک ملک، جہاں چھیانوے فیصد مسلمان آباد ہیں، میں توہین اتنا بڑا مسئلہ کیوں ہے ؟یہاں رہنے والی کمزور اقلیتیں کس طرح ایک طاقت ور اکثریت کی ناراضی مول لےسکتی ہیں؟لیکن جب سوشل میڈیا کے گمنام کارکن، جو ریاستی پالیسیوں پر تنقید کریں ، اور اُنہیں اٹھا لیا جائے اور پھر توہین کا الزام لگادیا جائے اور لال مسجد کے افراد عدالت میں اُن کے خلاف توہین کے ’’ثبوت ‘‘ پیش کرتے دکھائی دیں (اگرچہ کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا)تو اس سے دوباتیں ہوں گی۔ ایک یہ کہ مثبت اور لبرل سوچ رکھنے والے شہری خوف کا شکار ہوجائیںگے کہ اُنہیں کسی بھی وقت خوفناک جرائم کا مرتکب قرار دے کر اٹھایا جاسکتا ہے اور دوسرا یہ کہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کیا ریاست اور لال مسجد ایک ہی پلیٹ فارم پر مل کر کام کررہے ہیں؟ دراصل مذہب اور حب الوطنی کے جذبات ابھار کر ذاتی مفاد طلبی کوئی نئی چیز نہیں ۔ یادر ہے، ریاستوں کو سماجی تنقید نہیں، انتہا پسندی اور جنونیت نقصان پہنچاتی ہیں۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بابر ستار

بشکریہ روز نامہ جنگ

babar-sattar has 43 posts and counting.See all posts by babar-sattar