مسجدیں سونی ہیں، دل ویران ہیں


مسلم دنیا پچھلے کئی عشروں سے ایک سنگین بحران کا شکار ہے، جہاں داخلی افتراق، باہمی جنگوں، اور خونریزی نے ایک ایسے سیاہ دور کا مشاہدہ کیا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ افغانستان، شام، عراق، لیبیا، اور یمن میں جاری تنازعات و خانہ جنگیوں میں مسلسل مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا خون بہتا رہا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے خود اپنے ہی بھائیوں کا قتل عام کیا، اور اس میں ہر ایک حکومت کی خاموشی یا بے حسی نے ہمارے حوصلے توڑ دیے۔ اس حالت میں ہم نے دیکھا کہ کیسے ہر ایک ملک کی اندرونی سیاست نے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا، اور ہم اپنی بنیادوں سے ہی منہ موڑنے لگے۔ ہمیں اپنی ثقافتی اور دینی شناخت سے بھی دور کر دیا، جو ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب بن چکا ہے۔

آج کے دور میں اسرائیل کا منصوبہ بیداری کا متقاضی ہے۔ بیت المقدس میں ہونے والی نسل کشی ایک نیا نازی ازم ہے۔ یہ صرف ایک ریاستی ظلم نہیں، بلکہ ایک ماضی کی تلخ تاریخ کا دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ 1969 ء میں جب اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی، تو پوری مسلم دنیا تڑپ اٹھی تھی۔ اس وقت مسلمان حکمرانوں نے فوری طور پر مراکش کے شہر رباط میں جمع ہو کر 57 مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک اہم لمحہ تھا جب مسلم ممالک نے متفقہ طور پر اسرائیل کو وارننگ دی کہ اگر وہ مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ پوری مسلم دنیا پر حملے کے مترادف ہو گا۔ مسلم ممالک کی اس تنظیم نے 1980 ء کے عشرے میں ایران۔ عراق جنگ کو بند کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ لیکن آج او آئی سی کا کردار غیر فعال نظر آتا ہے۔ اس کے وجود کا مقصد عالم اسلام کی یکجہتی اور تحفظ تھا، لیکن اب یہ تنظیم بے عملی کی مثال بن چکی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک مجبور و بے بس بنے ہوئے ہیں اور خاموشی سے اسرائیل کی بربریت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

ماضی قریب میں ہمیں ایسے کئی رہنما ملتے ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے قابل قدر کوششیں کیں۔ جمال الدین افغانی، علامہ اقبال، قائد اعظم محمد علی جناح، حسن البنا شہید، مفتی امین الحسینی، اور شاہ فیصل جیسے نامور شخصیتیں آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی سوچ، ان کی بصیرت، اور ان کی قربانیاں آج بھی ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ اگر ہم ایک ہوں تو ہماری طاقت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ لیکن افسوس، آج ہم ایک مایوس کن صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس افتراق و انتشار کا ذمہ دار غیر مسلم طاقتوں کو قرار دیتی ہے۔ یہ کوئی بے بنیاد بات نہیں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ استعماری طاقتیں ”ہمیشہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو“ کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ انہوں نے ہمارے درمیان اختلافات کو ہوا دی، ہمیں کمزور کیا، اور ہمارے وسائل پر قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ لیکن کیا یہ سب کچھ صرف ان طاقتوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے؟ ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم خود اپنی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ یہ شکوہ ہمیں بے جا نہیں کرنا چاہیے کہ مسلم دنیا کی مشکلات کا صرف بیرونی طاقتیں ہیں۔ ہمیں اپنے اندر کی کمزوریوں کو پہچاننا ہو گا۔ کیا ہم اپنے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم اپنی شناخت کو بھول کر دوسرے ممالک کی شکل میں اتحاد کے خواب کو حقیقت بنا سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا کو اپنے حال زار کو خود درست کرنے کی فکر کرنی ہوگی۔

آج فلسطینی مسلمان ایک نئی نسل کشی کے دور سے گزر رہے ہیں، جہاں اسرائیل نے بیت لاہیہ سے لوگوں کو بے گھر کرنے کے لیے اپنے نازی ازم کے طرز پر منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، مگر ہم بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ ہماری خاموشی کی قیمت ہے، جو ہمیں اپنی شناخت اور عزت کے لیے ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اسرائیل کی بربریت کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ سوال خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم واقعی اتنے بے بس ہیں کہ اپنے بھائیوں کی مدد نہ کر سکیں؟ کیا ہم اس دردناک صورتحال کے تماشائی بنے رہیں گے، یا پھر ہم بیدار ہوں گے اور ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھیں گے، تاکہ اس کے نتیجے میں ہم سب کو ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھنے کا موقع ملے؟

آج ہمیں اپنی ملت کے مفاد میں یکجا ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ سیاہ باب کبھی ختم نہیں ہو گا۔ ہمیں اپنے درد اور مصیبتوں کا سامنا کرنے کے لیے ایک نئی سوچ اور ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم مل کر ایک نئی آواز اٹھائیں، تاکہ ہمارے بچے بھی یہ نہ دیکھیں کہ ہم نے اپنی زمین اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے کچھ نہیں کیا۔ ہماری خاموشی نے ہمیں کمزور کر دیا ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ بے گناہ لوگ، بچے، خواتین، اور بزرگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو رہے ہیں، تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ صرف ان کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ہماری انسانیت کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمیں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، لیکن افسوس کہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی خاموشی ہمیں شرمندہ کرتی ہے۔

یہ داخلی اختلافات ہی ہیں جنہوں نے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا تھا اور یہ سلسلہ شاید ابھی بھی جاری ہے جو اتحاد نہ ہونے میں حائل ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری طاقت ہماری اتحاد میں ہے۔ جب ہم ایک دوسرے کے خلاف ہوں گے، تو ہمیں کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ یہ افسوسناک ہے کہ ہم نے اپنی بنیادوں سے، اپنے ایمان سے، اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا جو تعلق تھا، اسے کھو دیا ہے۔ ہم نے اپنے دشمنوں کو خود کو مضبوط کرنے کا موقع دیا ہے، اور ہم نے اپنے آپ کو کمزور کیا ہے۔ ہماری داخلی جنگوں نے نہ صرف ہمیں برباد کیا ہے بلکہ ہمارے دشمنوں کو بھی اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جو چاہیں کریں۔ ہمیں ایک نئی بیداری کی ضرورت ہے۔ آج دنیا بھر کے مسلمان اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ ہماری طاقت اتحاد میں ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو ایک قوم کی طرح دیکھنا ہو گا، اور ایک دوسرے کی مدد کرنی ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments