پارلیمنٹ کے مقابل عدلیہ کا متوازی نظام


طویل ردّ و کدّ کے بعد بالآخر سنیچر کے روز سپریم کورٹ کے 30 ویں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے عہدے کا حلف اٹھا لیا، جن کا انتخاب منگل کی رات 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی نے سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز کے پینل میں سے کیا، آئین میں حالیہ ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تقرری کا اختیار سپریم کورٹ سے پارلیمنٹ کو منتقل ہو گیا، قبل ازیں سپریم کورٹ میں ججز کی تقرریوں، تنخواہیں، مراعات اور احتساب کا اختیار سپریم کورٹ نے ازخود اپنے دائرہ اختیار میں شامل کر لیا تھا، پہلی بار آفریدی کی تقرری پارلیمان کی اُس 12 رکنی خصوصی کمیٹی نے کی جسے حال ہی میں کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے با اختیار بنایا گیا۔ نئی قانون سازی، جسے 26 ویں آئینی ترمیم کے نام سے جانا جاتا ہے، نے سپریم کورٹ کے اُس سوموٹو اختیارات کو بھی ختم کر دیا جس کے ذریعے وہ عدالتی طریقہ کار کو بائی پاس کر کے تمام انتظامی و آئینی اداروں سمیت حکومتی فیصلہ سازی کی صلاحیت کو مفلوج اور پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کو محدود کر سکتا تھا۔ ترمیم کے ذریعے آئینی درخواستوں کو نمٹانے کے لئے الگ بنچ کی تشکیل کا مقصد بھی سپریم کورٹ کی طرف سے قانون سازی کے متوازی نظام کو پارلیمان کے ذریعے ریگولیٹ کرنے کی طرف پہلا قدم ہے، آئینی بینچ کے ممبران کا انتخاب پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش پہ محمول 13 رکنی جوڈیشل کمیشن کرے گا جس میں پانچ حکومتی اراکین کے علاوہ سپریم کورٹ کے پانچ ججز، اپوزیشن کے دو ممبران اور بار کونسل کا ایک رکن شامل ہو گا۔

ماضی میں صدر، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے مطابق، سینئر ترین جج کو چیف جسٹس مقرر کرنے کے پابند تھے، جس کے نتیجہ میں عدالتی ڈھانچہ کے اندر ایسی دھڑے بندیوں نے جڑ پکڑ لی جس میں سپریم کورٹ کا ہر چیف جسٹس مستقبل میں اپنی لابی کے ججز کی بطور چیف جسٹس تعیناتی یقینی بنانے کی خاطر سنیارٹی میں ردّ و بدل کے ذریعے بے انصافی پہ مبنی ترکیبیں تیار کرتا رہا۔ جن ججز کو پہلے سے علم ہوتا کہ انہوں نے مستقبل میں فلاں سال چیف جسٹس بننا ہے، وہ پیش بندی کے طور پہ عدالتی فیصلوں کو منیور کرنے کے لئے عدل کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دیتے، جیسے سینئر جج منصور علی شاہ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں صرف اس خدشہ کے پیش نظر ماورائے آئین فیصلہ دے کر انصاف کا خون کر ڈالا کہ حکومت دو تہائی اکثریت حاصل کر کے آئین میں تبدیلی کے ذریعے کہیں ان کی تعیناتی کی راہ کھوٹی نہ بنا دے۔

اگر ہم پلٹ کے دیکھیں تو قومی تاریخ میں عدالتی فعالیت نے فوجی بغاوتوں کی توثیق کے علاوہ ہمیشہ منتخب حکومتوں کو مفلوج رکھ کے آئین کے منشا اور عوام کے حق حاکمیت کے استحصال میں مفاد تلاش کیا، مملکت کی تخلیق کے ساتھ ہی جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کر کے اکتوبر 1958 میں پہلی بار ایسی فوجی آمریت کی راہ ہموار بنائی، جس نے بغیر کسی مینڈیٹ کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت بھارت کو تین دریا سرنڈر کرنے کے علاوہ نوزائیدہ مملکت کو سیٹو/سینٹو معاہدوں کی زنجیروں میں جکڑ کر قوم کو سرد جنگ کی حرکیات کا ایندھن بنا دیا۔ مارچ 1969 میں ایوبی آمریت کی کوکھ سے جنم لینے والا دوسرا مارشل، عالمی اسکیم کے مطابق ملک کو دولخت کرنے پہ منتج ہوا۔ اِن ابتدائی 25 سالوں کے دوران ہماری عدالتیں پورے خشوع و خضوع کے ساتھ قوم کے مستقبل سے کھیلنے والی فوجی آمریتوں کی سہولت کاری میں مشغول رہیں۔

1973 کے آئین کے خالق ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے مختصر عہد حکمرانی کے دوران عدالتی فعالیت سے بچنے کی خاطر مسلسل ایمرجنسی لگانا پڑی لیکن گھات میں بیٹھی سپریم کورٹ جولائی 1977 کے مارشل لاء کی توثیق کے بعد آخرکار ذوالفقار علی بھٹو کو جعلی مقدمہ میں موت کی سزا دینے کے بعد ملک کو ضیاء آمریت کی افغان وار ڈاکٹرائن کی تباہ کاریوں کے حوالے کر کے لمبی تان کر سو گئی۔ افغانستان سے سوویت افواج کے انخلاء کے ساتھ ہی اگست 1988 میں فضائی حادثہ میں جنرل ضیاءالحق کی موت کے بعد عدالتیں پھر فعال ہونے لگیں، مقبول سیاستدانوں کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کے کبھی نہ تھمنے والے سلسلے کی گونج میں ہماری ذیشان عدلیہ نئی سیاسی جدلیات کا ٹول بنکر نمودار ہوئی۔ 1996 میں پہلی بار الجہاد ٹرسٹ کیس میں عدلیہ نے منتخب وزیر اعظم سے ججز کی تقریروں کا آئینی اختیار چھین کر اپنے دائرہ اختیار میں شامل کر لیا۔

گیارہ سالوں پہ محیط سیاسی کشمکش کے بعد عدالت عظمیٰ نے ایک بار پھر نہ صرف اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت کی توثیق کی بلکہ جنرل مشرف کو سات نکاتی ایجنڈا کی تکمیل کے لئے تین سال تک حکومت کرنے کے ساتھ آئین میں ترامیم کا اختیار دے کر نہایت بیباکی کے ساتھ شرمناک روایات کا ایک اور سنگ میل عبور کر لیا۔ جنرل مشرف نے اپنے دس سالہ عہد میں اختلاف رائے کو دبانے اور سیاسی حریفوں کو کچلنے کے لئے انتہائی بے رحمی کے ساتھ عدالتوں کا استعمال کیا، مشرف آمریت کے پُرتشدد اختتام پہ ہمارے خفیہ اداروں نے استعماری سرمایہ سے و کلاء تحریکیں کھڑی کر کے آزادی و مساوات کے مسحور کن نعروں کی گونج میں عدالتی فعالیت کو مقبول بنا کر طاقت کی نئی ڈاکٹرائن ایجاد کر لی، چنانچہ ملک کی سیاسی جماعتوں نے آگ و خون کے دریا عبور کرنے اور بے نظیر جیسی سیاسی رہنما کو کھونے کے بعد 2008 کے خون آشام الیکشن کے نتیجہ میں منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کے ذریعے جب جنرل مشرف کے عہدِ پُر فتن کے مضمرات کو کم کرنے کے لئے کامل اتفاق رائے کے ساتھ اٹھارہویں آئینی ترمیم منظور کی تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے سوموٹو لے کر اٹھارہویں ترمیم کے پورے آئینی پیکج کو اڑانے کی دھمکی دے کر پارلیمنٹ کو ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کا اختیار چیف جسٹس کے سامنے سرنڈر کرنے پہ مجبور کر دیا تھا۔

قبل ازیں 1998 میں نواز شریف اور بے نظیر نے جنرل ضیاء الحق کی طرف سے آئین میں شامل کی گئی 58 / 2 B کو ختم کر کے صدر کی طرف سے حکومتوں کو بر طرف کرنے کا اختیار ختم کر دیا تھا مگر نئی ڈاکٹرائن کی حامل مقبول عدلیہ نے ازخود وزیر اعظم کو برطرف کرنے کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے کر پچھلے بارہ سالوں کے دوران دو منتخب وزراء اعظم کو برطرف کرنے کے علاوہ درجن بھر منتخب عوامی نمائندوں کو توہین عدالت کی پاداش میں نا اہل کر کے عدل کی تاریخ کو داغدار بنا دیا، مستزاد یہ کہ 2022 میں صدر علوی کی طرف سے 63 A کی تشریح کی خاطر بھیجے گئے ریفرنس پہ من مانی تشریحات کے ذریعے آئین کو مسخ کر کے پارلیمنٹ سے کسی بھی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا حق بھی چھین لیا۔

گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران عدالتی فعالیت نے جس ظالمانہ انداز میں منتخب حکومتوں کی انتظامی اتھارٹی اور پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو محاصرہ میں رکھا اس پہ ہمارا اجتماعی ردعمل ایک مایوس تقسیم کی صورت میں سامنے آیا۔ بدقسمتی سے سرکشی اور مطلق العنانی کے اِسی کبریائی تصور نے ہمارے ذیشان ججز کے مزاج کو عدل و انصاف کے مقدس احساس سے جدا کر کے پاور پالیٹکس کی سفاک جدلیات کا خُوگر بنا دیا، اب یہ انصاف کی فراہمی کے ذریعے معاشرے کو ریگولیٹ کرنے کی بجائے سیاسی و اقتصادی نظام میں مداخلت اور اپنے گروہی مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرداں نظر آتے ہیں، جس کے نتیجہ میں انصاف کا وہ لطیف احساس بتدریج کُند ہوتا گیا جو فرد کے سماجی تعاملات میں منصفانہ مساوات اور باہمی تعاون کی صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے، جو محبت، اعتماد اور رہنمائی کے تجربات کے ذریعے اخلاقی اصولوں سے وابستگی اور سماجی مسائل کی ایسی مشترکہ تفہیم کا باعث بنتا ہے جو تعصب سے ماوراء معروضیت، غیر جانبداری، ہمدردی، شائستگی، ایمانداری، اخلاقیات، نیکی اور راستبازی جیسی صفات سے متصف اور طاقت کی بجائے صداقت کے ذریعے معاشرے کی روح بن جاتا ہے۔

علی ہذالقیاس، قانون فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عدالتی مقتدرہ کو ریگولیٹ کرنے والی کوئی الگ اتھارٹی ضرور ہونا چاہیے، آپ تصور کریں اگر فوج میں آرمی چیف کی تعیناتی کا عمل فوجی قیادت پہ چھوڑ دیا جاتا تو وہاں جرنیلوں کے مابین حصول قوت کی کشمکش مسلح ادارے کو منقسم کر دیتی، حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ اس قدر طاقتور مناصب کو سینیارٹی کی خود کار درجہ بندی کے حوالے کرنا طالع آزماؤں کو موقعہ فراہم کرنے کے مترادف ہو گا۔ جس طرح غیر معمولی اختیارات کی حامل عدلیہ کی طرف سے ججز کے عزل و نسب، تنخواہیں و مراعات اور ججز کے احتساب کا اختیار اپنے ہاتھ لینے کا تجربہ نظام عدل کے ادارہ جاتی ڈھانچہ کو ایسی باغیانہ دھڑے بندیوں کا اکھاڑا بنا گیا جس کی بازگشت ہمیں 63 اے کی من مانی تشریحات اور مخصوص نشستوں جیسے متنازع فیصلوں کے علاوہ جسٹس قاضی اور جسٹس منصور علی شاہ کے جنگی جذبات سے لبریز خطوط کے مندرجات میں سنائی دیتی ہے۔ جس طرح پچھلے پندرہ سالوں میں آزاد عدلیہ کے دیو مالائی تصور کی بدولت قانون کی حکمرانی کے نام پر ججز کی سرکشی نے پارلیمنٹ اور حکومت سمیت مملکت کے آئینی و انتظامی اداروں کو مفلوج بنایا، اُسی کا تقاضا تھا کہ اس سے پہلے کہ ججز کے مابین جاری بالادستی کی وہ کشمکش جس نے سیاسی جماعتوں اور دفاعی اداروں کو بھی لپیٹ لیا، پورے آئینی ڈھانچہ کو غیر فعال کر دیتی، پارلیمنٹ نے آگے بڑھ کر نظام عدل کو ریگولیٹ کرنے کا میکنزم بنا لیا، بلاشبہ پارلیمنٹ کی بالادستی ہی ہماری زندگی میں کلیت پیدا کر سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments