کیا ٹرمپ حقیقی آزادی دلائے گا؟
کہتے ہیں زندگی میں ہر انسان کو ایک بار ایسا موقع ملتا ہے جس سے وہ اپنی باقی زندگی سنوار سکتا ہے اب یہ اس موقع کا فائدہ اٹھانے والے شخص پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اس موقع سے کس حد تک فائدہ اٹھاتا ہے عمران خان کو بھی زندگی نے ایک موقع دیا اور جو خواہش وہ مشرف دور سے اپنے دل میں رکھے ہوئے تھا وہ آخر کار 2018 میں پوری ہو گئی اور وہ پاکستان کا وزیراعظم بن گیا لیکن عمران خان نے اس موقع کا فائدہ اٹھانے کی بجائے خود کو سیاسی طور پر مضبوط حکمران بنانے اور عوام کا بھرپور اعتماد حاصل کرنے کی بجائے اپنی تمام تر توجہ سیاسی مخالفین کو دیوار میں چنوا دینے پر مرکوز رکھی۔
پھر جیسے ہی اقتدار ریت کی طرح عمران خان کے ہاتھوں سے پھسلنا شروع ہوا تو انہوں نے بار بار للکارے مارتے ہوئے کہا کہ میں اقتدار سے نکلنے کے بعد مزید خطرناک ہو جاؤں گا۔ وزیراعظم ہاؤس سے عمران خان کو فوج نے تختہ الٹ کر نہیں نکالا تھا اور نہ ہی ان کو عدالت نے نا اہل کیا تھا بلکہ حزب اختلاف نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے پارلیمنٹ سے نکالا تھا۔ عمران خان جیسے ہی پارلیمنٹ ہاؤس سے نکلے پے در پے غلطیاں کرتے گئے۔ انہوں نے پہلی غلطی پارلیمنٹ سے استعفے دینے کی دوسری غلطی پنجاب اور کے پی اسمبلی تحلیل کر کے کی پھر انہوں نے اس سپہ سالار کو میر جعفر کہا جس سے وزیراعظم ہاؤس سے نکلنے کے بعد بھی دو خفیہ ملاقاتیں کیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا عمران خان ڈپریشن کا شکار ہوتے گئے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ عمران خان نے پہلے والی غلطی سے ہر دوسری غلطی کو مزید سنگین نیت سے سرانجام دیا۔
عمران خان نے سمجھ لیا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بنا کر عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن عمران خان کو شاید اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ صرف بیان کی حد تک ہی مقبول ہو سکتا ہے عملی طور پر اس کے نتائج خواہشات کے برعکس نہیں ہوتے کیونکہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے پاکستان میں کبھی کسی سیاستدان نے حکومت نہیں بنائی۔ اسٹیبلشمنٹ ایسے بیانیے کو کامیاب بھی نہیں ہونے دیتی کیونکہ اگر ایسا بیانیہ کامیاب ہو جائے تو اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ختم ہونے میں زیادہ دیر بھی نہیں لگتی۔ ایسا جذباتی بیانیہ صرف عوامی حمایت حاصل کرنے کی حد تک ٹھیک ہوتا اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے لئے مضر صحت ہوتا ہے۔ عمران خان کی غلطیاں اس کو ہر گزرتے دن کے ساتھ سیاست سے اور سسٹم سے دور کرتی جا رہی ہیں۔ اب عمران خان نے جیل سے نکلنے کے لیے اپنی تمام تر امیدیں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وابستہ کر لی ہیں۔
پاکستانی قوم سمیت امریکی انتظامیہ بھی جانتی ہیں کہ عمران خان نے اپنی حکومت گرانے کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا تھا۔ عمران خان نے ایک جعلی خط کو لہرا کر قوم کو بتایا کہ مجھے لکھ کر دھمکی دی گئی ہے اور یہ دھمکی امریکہ کی طرف سے دی گئی ہے۔ یہ لفظ عمران خان نے ایک بار نہیں کئی بار دہرایا جس کی امریکہ کی جانب سے بھی کئی بار تردید کی گئی۔ امریکی انتظامیہ یہ بھی جانتی ہے کہ عمران خان نے ان کو دنیا بھر میں کیسے بدنام کیا۔ پاکستان کے عوام تو شاید بھول سکتے ہیں لیکن امریکہ نہیں بھول سکتا کیونکہ امریکہ ایک ریاست ہے جس کی ریاستی پالیسیاں ہوتی ہیں اور یہ پالیسیاں شخصیات کی مرہون منت نہیں ہوتیں اور میں یہاں یہ بھی یاد کرواتا جاؤں ٹرمپ وہ امریکی صدر ہے جس نے اپنے دور حکومت میں پاکستان کے ساتھ کوئی اچھی روایات قائم نہیں کیں تو لہذا عمران خان اور اس کے حامیوں کا امریکہ کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے سے لے کر دوبارہ امریکی غلامی میں جانے کا بھی ان کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
- عمران کی سیاست وزیر اعظم ہاؤس یا سڑکیں - 25/11/2024
- کیا ٹرمپ حقیقی آزادی دلائے گا؟ - 07/11/2024
- بیرون ملک چیف جسٹس (ر) فائز عیسی سے بدتمیزی - 31/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).