اسبابِ بغاوت اردو
کچھ عرصہ پہلے ضیاء محی الدین صاحب کا پی ٹی وی پر آنے والا پرانا شو دیکھ رہا تھا جو انہیں کے نام سے منسوب ہے۔ میں نے غور کیا کہ جب ضیاء صاحب اردو میں بات کرتے ہیں تو مکمل اردو بولتے ہیں اور جب انگریزی میں بات کرتے ہیں تو ان جملوں میں اردو کے الفاظ نہیں ہوتے۔ پھر ان کی کچھ اور ویڈیوز دیکھیں تو معلوم ہوا کہ ایک ہی زبان میں مکمل بات کی جا سکتی ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی۔
حیرت اس لیے کے مجھ سمیت آج کل بہت سے لوگوں کے لیے یہ ناممکن سی بات ہے کہ مکمل طور پر اردو میں بات کی جائے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کہیں نا کہیں اردو میں انگریزی ضرور گھس آتی ہے۔ میری رائے میں ایسا ہم سب غیر محسوس طریقے سے کرتے ہیں اور اس کا ادراک بھی بہت کم لوگوں کو ہے۔ بعض اوقات تو لگتا ہے لوگ اردو بولتے ہی انگریزی بولنے کے لیے ہیں۔
چوں کہ انسان فطرتاً آسائش پسند ہے تو میرے خیال سے ایسا سہولت کی خاطر کیا جانے لگا ہے کہ دوسرے بندے تک بات آسانی سے پہنچ سکے۔ لیکن بعض اوقات صورت حال عجیب سی ہو جاتی ہے جب اردو اور انگریزی مکس ہو جائے۔ ہم کسی کے یہاں مہمان تھے جہاں ایک خاتون اپنے اتھرے بچے کو میزبان کے گھر کی چیزیں گرانے سے روکتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ”بیٹا نہیں کرو ورنہ انکل بیٹ (Beat) کر دیں گے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے میزبان کی طرف اشارہ بھی کیا۔
خاتون کا مطلب تھا کہ انکل ماریں گے، بچہ بھی یہی سمجھا ہو گا لیکن ہم سب کو کچھ اور سمجھ آیا۔ انکل بھی پریشان تھے کہ اب ”بیٹ“ کروں یا نہ کروں۔ تو دیکھا آپ نے خواتین و حضرات کہ ایک انگریزی لفظ کی آمیزش سے معاملہ کیا سے کیا ہو گیا۔ اردو میں انگریزی کی ملاوٹ تو الحمدللہ کافی عرصہ سے بطریق احسن جاری ہے لیکن میری رائے میں سماجی ابلاغ میں جدت آنے کی وجہ سے اس ملاوٹ میں تیزی آ گئی ہے۔ اس کا تجربہ آپ کو روز واٹس ایپ پر آنے والے پیغامات سے ہوتا ہے۔
واٹس ایپ پر آنے والے پیغامات صرف اردو ہی نہیں انگریزی سے بھی بغاوت کا عظیم سر چشمہ ثابت ہوئے ہیں۔ نہ ہی مکمل رومن اردو میں جملہ لکھا جاتا ہے بلکہ بیچ میں انگریزی کا لچ تل کر پیغام مزید خستگی کی طرف مائل کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ نمونہ ملاحظہ فرمائیں
kahwr bahi aj shm kia prog h?
(کاہور باہی آج شم کیا پروگ ح؟ )
پیغام سمجھ تو آ گیا کہ مجھ سے شام کا پروگرام پوچھا جا رہا ہے۔ لیکن اتنے لفظ بچا کر پیغام بھیجنے والا کتنا وقت بچا لے گا یہ اس سے پوچھنا بنتا ہے۔
پھر اردو سے بغاوت میں اگلا حصہ ڈالتے ہیں آج کل انٹرنیٹ پر ڈینگی اور گیسٹرو کی طرح پھیلنے والی ریلز اور مختصر ویڈیوز پر لکھے ہوئے عنوان۔ پس منظر میں اداس گانا چل رہا ہو گا اور سکرین پر جلی حروف میں لکھا ہو گا
دوست نے کری بہ وفائی
پے گئی اب تو لمی جدائی
اور یہی عناوین (عنوانات) ہماری راہ نمائی اس مسئلے کی طرف مبذول کرواتے ہیں کہ بہت سے لوگ اب دیکھا دیکھی کام کر رہا ہوں کو ”کام کر را ہوں“ ، کام کیا تھا کو ”کام کرا تھا“ اور صفائی کی تھی کو ”صفائی کری تھی“ لکھنا اور بولنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض لوگ اپنی پسندیدہ خوراک کے ساتھ ساتھ اردو کے جملوں سے ”ہوں“ بھی کھانے لگے ہیں۔ جیسا کہ ”میں آپ کو نمبر ابھی بتاتا“ ، ”کل آپ کو کمیٹی کے پیسے دیتا“ اور ”آج ہی یہ کام کراتا“ جیسے جملے سننے کو مل رہے ہیں۔ معلوم نہیں ”ہوں“ نے ان لوگوں کا کیا بگاڑا ہے۔
بظاہر تو عوام کا اردو کی کتابوں کا کم پڑھنا ہی ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن سڑک پر چلتے پھرتے ہمارے نہایت معصوم اور بھولے بھالے عوام کو جب اشتہار، اسپتالوں کے بورڈ پر لکھی معلومات اور ساتھ ساتھ رکشوں اور ریڑھیوں پر لکھے چند گمنام اور عظیم شعرا کا کلام ہی صحیح اردو میں پڑھنے کے لیے میسر نہ ہو تو وہ بے چارے بھی کیا کریں۔ ”گناہ کا جوس“ بیچتے ہوئے گنے کے رس کی ریڑھی تو دیکھی ہو گی آپ نے۔
آخر میں ایک وجہ ہندی زبان میں کارٹون اور فلمیں بھی اس بغاوت کا باعث نظر آتی ہیں۔ میرے کچھ دوست ”پھر“ کو باقاعدہ ”فر“ بولتے ہیں اور ایسے جیسے بچپن سے بولتے آ رہے ہوں حالانکہ پہلے وہ ”پھر“ ہی بولتے تھے۔ ان سب سے میری گزارش ہے کہ ”فر“ وہ باقی الفاظ بھی اسی اصول کے تحت بولا کریں مثلاً پھرمودات، پھرلانگ، پھرعون اور پھرط جذبات وغیرہ۔ باقی تلفظ کی بات ابھی رہنے دیتے ہیں کہ وہ تو خود میں ابھی سیکھ رہا ہوں۔ ایک مرتبہ لندن سے لاہور واپس آیا تو کمپنی کے ڈرائیور صاحب جو گھر چھوڑنے جا رہے تھے کہنے لگے، ”سر آپ باہر سے آئے ہیں، گھر والوں کے لیے تحفے طوائف تو لائے ہوں گے؟ “ ان کو جی ہاں میں جواب دے کر سارے راستے پھر ”تحائف“ کے بارے میں سوچتا رہا۔
- ملتان میں گاڑی چلانے کے چند اصول - 24/11/2024
- اسبابِ بغاوت اردو - 07/11/2024
- سر سلیم اور سر خالد سعید، باقی سب خیریت - 06/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).