وزرا کی شاہ خرچیاں اور خیبر پختونخوا کے قرض تلے دم توڑتے عوام
پاکستان میں گزشتہ کچھ دہائیوں سے ایک ہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ جب بھی کوئی نئی حکومت آتی ہے تو وہ یہ وعدہ کرتی ہے کہ حکمرانوں کے اخراجات میں کمی کی جائے گی، مراعات کم کی جائیں گی اور عوامی وسائل کو عوام کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ وعدہ عوام کے لیے ایک امید کی کرن ہوتی ہے۔ 2018 کے انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے یہی نعرہ لگایا تھا کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو حکومتی اخراجات اور وزراء کی مراعات میں واضح کمی کریں گے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومتی ایوانوں کی شاہ خرچیوں اور بے جا اخراجات کو ختم کر کے عوام کی خدمت کو یقینی بنایا جائے گا۔ مگر افسوس کہ یہ وعدہ بھی محض ایک نعرہ ثابت ہوا۔
ابھی حال ہی میں خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک ایسا بل متفقہ طور پر منظور کیا گیا ہے جس کے مطابق صوبائی وزراء کی مراعات میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے۔ اس بل کے تحت صوبے کے ہر وزیر کو، اگر ان کو سرکاری رہائش نہیں ملتی، تو انہیں ماہانہ دو لاکھ روپے کرائے کے طور پر دیے جائیں گے۔ اس میں مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر کسی وزیر کے پاس پشاور میں ذاتی گھر موجود ہے تو وہ بھی اس دو لاکھ روپے کی مراعات کے حقدار ہوں گے۔ علاوہ ازیں، ہر وزیر کو اپنی سرکاری رہائش کی تزئین و آرائش کے لیے ایک بار کے لیے دس لاکھ روپے دیے جائیں گے جس سے وہ قالین، پردے، ائرکنڈیشنر اور ریفریجریٹر خرید سکیں گے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک غریب ملک کے وزراء کو ایسی مراعات دینا مناسب ہے؟ اور کیا اس قسم کے فیصلے سے عوام کو یہ پیغام نہیں ملتا کہ ان کے مسائل اور پریشانیاں حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں؟
خیبرپختونخوا کی یہ صوبائی حکومت، جس کی بنیاد پی ٹی آئی کی حکومت نے رکھی تھی، وہ کیسے ان اصولوں اور وعدوں کو فراموش کر سکتی ہے جو انہوں نے انتخابات کے دوران کیے تھے؟ اگر ہم گزشتہ حکومتوں کا جائزہ لیں تو پی ٹی آئی نے دیگر پارٹیوں پر یہی الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے عوامی پیسے کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا اور غیر ضروری مراعات لیں۔ عمران خان نے ایک مضبوط مہم کے دوران عوام کو یقین دلایا تھا کہ ان کی حکومت میں وزراء کے شاہانہ اخراجات اور مراعات پر کٹوتی کی جائے گی۔ مگر کیا خیبرپختونخوا اسمبلی کا یہ بل پی ٹی آئی کی اسی سوچ کا تسلسل ہے جس کا ذکر عمران خان نے اپنی تقاریر میں کیا تھا؟ یا یہ اس سوچ سے بالکل الٹ ہے؟
ایک ایسے ملک میں، جہاں ہر دوسرا شخص بیروزگاری، مہنگائی اور غربت سے نبرد آزما ہے، وہاں وزراء کو دو لاکھ روپے ماہانہ کرائے کے مد میں دینا ایک غیر ذمہ دارانہ اقدام محسوس ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کی معاشی صورتحال انتہائی نازک ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی قرضہ جات کی کڑی شرائط اور ملک کی بگڑتی ہوئی معیشت میں جہاں عوام ایک ایک روٹی کے لیے محتاج ہو رہے ہیں، وہاں ایسے بلز اور مراعات پر مبنی فیصلے حیرت انگیز ہیں۔
دوسری طرف اگر ہم ان مراعات کی نوعیت کو دیکھیں تو سوال یہ ہے کہ کیا وزراء کے ذاتی گھروں میں دو لاکھ روپے کا اضافی کرایہ دینا واقعی ضروری ہے؟ اور پھر، کیا سرکاری رہائشوں کی تزئین و آرائش کے لیے دس لاکھ روپے کی ضرورت اتنی شدید ہے کہ اس کے بغیر ملک کی خدمت ممکن نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ان فیصلوں سے عوامی پیسے کا غیر ضروری ضیاع ہو رہا ہے۔
یہاں ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ حکومت عوام کے وسائل کی امین ہوتی ہے اور اس کے فیصلے عوام کے مفادات کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اگر یہ فیصلہ واقعی عوام کے مفاد میں ہوتا تو شاید عوام اس کو قبول کر لیتے، مگر ایک ایسے وقت میں جب ملک بحرانوں میں گھرا ہوا ہے اور حکومت خود عوام سے کفایت شعاری کی اپیل کر رہی ہے، یہ فیصلہ انتہائی ناقابل قبول محسوس ہوتا ہے۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس بل کی منظوری متفقہ طور پر ہوئی، جس کا مطلب ہے کہ اس فیصلے میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے شرکت کی اور اس بات پر سب نے اتفاق کیا کہ وزراء کو ایسی مراعات دی جانی چاہئیں۔ کیا یہ وقت ہے کہ ملک کی قیادت اپنے فیصلے پر غور کرے اور اپنے وعدے یاد کرے؟ عوامی نمائندے اگر خود مراعات میں اضافے کے خواہشمند ہیں تو عوام کے مسائل کو کون دیکھے گا؟ اور کیا ایسی صورتحال میں عوام کا اعتماد حکومتی نظام پر باقی رہ سکتا ہے؟
عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب بھی حکومت کوئی ایسی پالیسی نافذ کرتی ہے جو وزراء یا دیگر سرکاری اہلکاروں کے اخراجات اور مراعات میں اضافے سے متعلق ہوتی ہے، اس کا بوجھ بالآخر عوام ہی کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے ٹیکسز میں اضافہ کیا جاتا ہے اور عوام کی جیب سے پیسہ نکالا جاتا ہے۔ عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں جو حکومت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتیں اور عوامی نمائندے اپنی ترجیحات کا از سر نو تعین کریں اور عوام کے مسائل کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔ ایک فلاحی ریاست کے حکمرانوں کا کردار ایثار اور قربانی پر مبنی ہونا چاہیے۔ وزیر یا عوامی نمائندے کا عہدہ ایک اعزاز ہے اور اس میں مراعات سے زیادہ خدمت کی نیت ہونی چاہیے۔ اگر وزراء کو یہ بات سمجھ آ جائے تو ملک میں بہت سی تبدیلیاں خود بخود آ سکتی ہیں۔
آخر میں، یہ کہنا چاہوں گا کہ اس وقت عوام کو صرف وعدوں کی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عوام نے پی ٹی آئی کو ایک امید کے تحت ووٹ دیا تھا، اس یقین کے ساتھ کہ یہ حکومت عوامی مسائل کو سنجیدگی سے لے گی اور حکومتی اخراجات میں کمی لائے گی۔ لیکن یہ بل اور اس میں دی جانے والی مراعات نے عوام کی اس امید کو مجروح کیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ حکومت اپنے وعدوں کو یاد کرے اور عوام کے لیے ایک مثبت مثال قائم کرے۔
- تاریخ کی عدالت میں پاکستان کے حکمرانوں کا محاسبہ - 17/11/2024
- ٹرمپ کی جیت اور حکمرانی غبارے سے نکلتی ہوا - 09/11/2024
- وزرا کی شاہ خرچیاں اور خیبر پختونخوا کے قرض تلے دم توڑتے عوام - 08/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).