جشن نوروز


تہذیب وتمدن، رہن سہن، رسم ورواج، تہوار، میلے، کھانا پینا، علاقائی زبانیں وغیرہ کسی بھی معاشرے کی شناخت ہوتی ہیں۔ زندہ قوموں کا شیوہ ہے کہ وہ اپنے معاشروں کی ترقی پسند اور تغیر پزیر رسوم ورواج کو زندہ رکھتے ہیں۔ جن کے لئے وہ میلوں اور خاص تہواروں کا اہتمام کرتی ہیں۔ پاکستان اپنی ثقافتی، نسلی و لسانی اور مذہبی رنگا رنگی کے اعتبار سے منفرد مقام کی حامل ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان شاید دنیا کا سب سے زیادہ گوناگون معاشرہ ہے۔ یہاں رہائش پزیر اقوام اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لئے وقتاََ فوقتاَ مختلف تہوار اور تقریبات منعقد کرتی ہیں۔ یہاں کے ہندو باسی ہولی کی رنگارنگی سے فضا کوخوشگوار بناتے ہیں۔ تو فروری تا مارچ صوبہ پنجاب میں بسنت کا تہوار اپنی خوبصورتی کی وجہ سے دنیا کو متوجہ کرتی ہے۔ اسی طرح مارچ کے وسط میں گلگت بلتستان، چترال، خیبرپختونخواہ اور قبائلی علاقوں کے بعض مقامات پر موسم بہار کا آغاز جشن نوروز سے کیا جاتا ہے۔ نوروز فارسی زبان کے الفاظ نو یعنی نیا اور روز یعنی دن کا مرکب ہے۔ اگرچہ تاریخی حوالوں میں نوروز کی ابتدا سے متعلق کوئی متفق علیہ نقطہ نظر موجود نہیں۔ البتہ قدیم تہذیبوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جشن نوروز ہزاروں لاکھوں برسوں سے بابلی اورفارسی تہذیب کا اہم جز رہاہے۔

تاریخ میں نوروز سے متعلق کئی ایک روایات دستیاب ہیں۔ نامور ترقی پسند مصنف سبط حسن اپنی مایہ ناز تصنیف ”ماضی کے مزار“ میں ان تہواروں کی تاریخی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے ”قدیم زمانے میں سب سے اہم موسمی تیوہار نوروز کا تھا۔ یہ تیوہار ہر جگہ موسم بہار کی آمد پر منایا جاتا تھا اس موقع پر پرانی قومین افزائشی رسمیں اداکرتی تھیں۔ تخلیق کائنات کا عقیدہ دراصل انہیں رسموں کی ترقی یافتہ شکل ہے “۔ (صفحہ نمبر 122)

تاریخ کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ دریائے نیل وفرات کی وادیوں میں ہزاروں برس قبل پنپنے والی بابلی تہذیب کے اثرات اپنے بعد آنے والے سارے تہذیبوں، عقیدوں اور مذاہب پر انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ تخلیق کائنات کی اس داستان کا تعلق بھی قریب قریب بابلی تہذیب سے ہیں۔ مخترم سبط حسن لکھتے ہیں”وادی دجلہ وفرات میں تین موسمی تیوہار بڑی عقیدت اورجوش سے منائے جاتے تھے اول تو نوروز کا تیوہار جسے اہل عکاد و سومیر ’اکی تو‘ کہتے ہیں۔ اکی تو ان کا سب سے بڑا تیوہار تھا جو سردیوں کی بارش کے بعد اپریل (ماہ نسان) میں منایا جاتا تھا۔ ایک اور تیوہار تشری کے نام سے ستمبر میں فصل کاٹنے پر منایا جاتا تھا۔ شہری ریاستوں کے سومیری دور میں اکی تو اور تشری دونوں نوروز کے تیوہار سمجھے جاتے تھے۔ کسی جگہ لوگ اکی تو کو نوروز کے طور پر مناتے تھے اور کسی جگہ تشری کو۔ اُر اور اریک میں تو نوروز کا تیوہار نسان یعنی موسم بہار میں منایا جانے لگا۔

نوروز کے تیوہاروں کے تین اہم عنصر تھے۔ اول تخلیق کائنات کا ڈرامہ جس میں بادشاہ ہیرو کا کردار ادا کرتے تھے۔ دوسرے بادشاہ کی ازسرنو تاجپوشی اور تیسرے سب سے بڑے دیوتا مردک اور اس کی بیوی کی شادی“ (سبط حسن۔ ماضی کے مزار،ص 125)

”یوں تونوروز کا تیوہار پورے ملک میں منایا جاتا تھا لیکن بابل کے جشن نوروز کی شان وشوکت کا کوئی جواب نہ تھا، کیونکہ مردک کا سب سے بڑا معبد جسے الساغ ا لٰہ کہتے تھے بابل ہی میں تھا اور بادشاہ اس تیوہار کی رسموں میں بہ نفس نفیس شریک ہوتا تھا۔

نوروز کا تیوہار ماہ نسان (اپریل ) میں گیارہ دن تک منایا جاتا تھا۔ ابتدائی آٹھ دن سوگ کے ہوتے تھے کیونکہ عکادی عقیدے کے مطابق شر اورتخریب کی طاقتیں انہیں تاریخوں میں مردک پر غالب آتی تھیں اور اسے اسیر کرکے پاتال میں لے گئی تھیں۔ اور تب مردک کا بیٹا نینو باپ کو چھڑا کرلایا تھا۔ دوسری تاریخ کو جب دوگھڑی رات باقی رہتی تھی تو اری گلو (مہاپروہت) اٹھ کر دریائے فرات کے پانی سے غسل کرتا اور نیا لباس پہن کر بغل دیوتا کے روبروکھڑا ہوتا تھا“ (سبط حسن، ماضی کے مزار،ص 126)۔ جناب سبط حسن آگے جا کر بابلی جشن نوروز کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں۔ ”جشن کے آخری رات بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ سارے شہر میں چراغان کیا جاتا تھا لنگر جاری ہوتے تھے۔ اور شاہی محل میں شاندار ضیافت دی جاتی تھی۔ بارہویں تاریخ کو سب دیوی دیوتا اپنے اپنے شہروں میں واپس چلے جاتے تھے اور پروہت اپنی عبادت میں مشغول ہو جاتے تھے یوں جشن نوروز ختم ہو جاتا تھا“۔ (سبط حسن، ماضی کے مزار،ص132)

عمومی خیال یہ ہے کہ نوروز زرتشتیوں کا مذہبی تہوار تھا۔ اس مذہب کے پیروکار اس دن آگ جلا کر رقص ومستی کرتے تھے جو ان کی عبادت تھی۔ دوسری روایت یہ ہے کہ مارچ بالخصوص 21مارچ کے بعد بہار کی آمد ہوتی ہے اور نوروز بھی آمد بہار کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔

چونکہ ایرانی کلینڈرکے مطابق 21مارچ کو زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر پورا کرتا ہے اور اسی طرح ایک شمسی سال مکمل ہوتا ہے۔ ایرانی روایات کے مطابق اسی دن کائنات نے تخلیق کے بعد اپنی حرکت شروع کی تھی۔ اسی وجہ سے نوروز کو زمین کی پیدائش کا دن بھی قرار دیا جاتا ہے۔

 ہوئی جس دن زمین پیدا وہی نوروز ارضی تھا

 کہ ہر تارا ہے ایک دنیا یہی ہے مژدئہ نوروز

عراقی کردستان کے مایہ ناز مصنف یاسین عارف سمیت دوسرے فارسی داستان گوﺅں کا خیال ہے کہ زمانہ قدیم میں اس خطے میں ضحاک نام کا ایک جابر حکمران گزرا ہے۔ ظلم وجبر کی وجہ سے ان کے شانوں پر آدم خور سانپ اگ آئے تھے۔ اپنے اقتدار کے خلاف بغاوت کے ڈر سے ضحاک نے معزرین کو اکھٹا کیا۔ ضحاک کی جانب سے اپنی نیک نامی کی دستاویز پر دستخط لینے کی اس تقریب میں کاوہ نامی لوہار نے بادشاہ پر اپنے اٹھارہ میں سے سترہ بیٹوں کے قتل کا الزام لگایا اور اٹھارہویں بیٹے کے مقید ہونے کا انکشاف کیا۔ ضحاک نے لوہار کے بیٹے کو رہا کر دیا لیکن اپنی پارسائی کی دستاویز پر دستخط لینے میں ناکام رہا۔ کاوہ کی پیروی کرتے ہوئے بہت سے افراد نے پہاڑوں کا رخ کیا جہان ایک پیش گوئی کے مطابق ضحاک کے اقتدار کا خاتمہ کرنے والا اہل ’فریدون‘ مقیم تھا۔ فریدون کی قیادت میں ضحاک کے اقتدار کے خاتمے کے بعد لوگوں نے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے اونچے اونچے ٹیلوں پر چڑھ کر آگ لگا دی، اور ضحاک کی ہلاکت کی خوشی میں ناچنے لگے۔ ہرسال نوروز کو کرد اسی فتح کے جشن کے طورپر مناتے ہیں۔ جناب سبط حسن رقمطراز ہے ”سانپ سے ایرانیوں کی دشمنی ضحاک کی داستان میں بہت واضح ہوجاتی ہے۔ بادشاہ ضحاک کے شانوں پر ظلم کے باعث دو آدم خورسانپ نکل آئے تھے آخر ایک ایرانی ہیرو انہیں ہلاک کرتا ہے اور ملک کو بادشاہ کے مظالم سے نجات دلواتا ہے“ (سبط حسن، ماضی کے مزار۔ ص322)۔

فارسی لوک داستانوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب نامور بادشاہ جمشید بادشاہ نے فارسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو اس دن کو نیا دن قراردیا اس کے بعد ہر سال نوروز کا تہوار جوش وخروش سے منایا جانے لگا۔ نامور ایرانی مفکر ڈاکٹر علی شریعتی لکھتے ہیںکہ ” نوروزکائنات کے جشن، زمین کی خوشی، سورج اور آسمان کی تخلیق کادن۔ وہ عظیم فاتح دن جبکہ ہر ایک مظہر پیدا ہوا“۔

نوروز کا سب سے بڑا تہوار ایران کے جنوی شہر شیراز میں تخت جمشید کے مقام پر منایا جاتا ہے۔ اس دن ایران کے مختلف حصوں سے لوگوں کی بڑی تعداد شیراز اور اصفہان کی جانب سفر کرتے ہیں۔ ایران کے علاوہ بہت سارے ممالک میں نوروز کو سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔ افعانستان، البینا، آزربائجان، جارجیا، کوسوو، کرغزستان، ازبکستان، عراق، قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان، عراقی تر کستان وغیرہ میں نوروز کے دن سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ ہندوستان میں مغلوں کے دور حکومت میں نوروز سرکاری طورپر منایا جاتا تھا۔ مورخ ڈاکٹر مبارک علی کے مطابق”چونکہ عربی تہوار ثقافتی طورپر اتنے رنگین اور دلکش نہیں تھے جتنے کہ ایران وہندوستان کے۔ لازمی طورپر مسلمان ان سے متاثر ہوئے اور تبدیلی مذہب کے بعد بھی لوگ یہ تہوار بطور ورثہ اپنے ساتھ لائے۔ انہوں نے ان تہواروں اور رسومات کوجاری رکھا۔ اس لئے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں نوروز کا تہوار بڑی شان وشوکت کے ساتھ منایا جاتا رہا“ (المیہ تاریخ، ص99)۔ پاکستان کے شمالی علاقوں( گلگت بلتستان اور چترال) میں اب بھی جشن نوروز ثقافتی اور مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔

جشنِ نوروز کا آغاز آج سے ہزاروں برس قبل ہوا۔ ترقی کے مختلف مدارج طے کرتے ہوئے اب یہ تہوار بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اقوام متحد ہ کی جنرل اسمبلی نے 2010ءمیں نورو ز کوعالمی تہوار قرار دیا۔ جس کی مناسبت سے ایران نے پہلے عالمی نوروز منعقدہ تہران 27مارچ 2010 کو سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی موجودگی میں خصوصی ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ اقوام متحدہ نے 28ستمبرسے 2اکتوبر 2009ءکو دبئی میں منعقدہ اپنی ایک اجلاس میں نوروز کو سرکاری طورپر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کا حصہ تسلیم کیا۔ 30مارچ 2009ء کو کینڈین پارلیمان نے اپنے اجلاس میں بل پاس کرتے ہوئے نوروز کو قومی کلینڈر میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ امریکہ کے ایوان نمائندگان نے ایک بل کی منظوری دی ہے جس میں نوروز کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت کو تسلیم کیا۔

وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی شناخت بھول جانے کی بجائے اپنے سماج میں موجود تغیر پزیر اور ترقی پسند روایات واقدار کو زندہ کرکے دنیا کو امن وبھائی چارگی، محبت واخوت، رنگا رنگی کے احترام اور تکثیریت پر مبنی معاشرے کے قیام میں اپنا کردار ادا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).