رواداری کا نخلستان؟


اگست 1966 تھا۔ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی۔ مغربی پاکستان میں بہت سی متضاد خبریں زیر بحث رہتیں۔ معروف صحافی الطاف قریشی مشرقی پاکستان کے دوسرے سے واپس آئے تو اپنے اخبار میں لکھا کہ مشرقی پاکستان میں تو علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں چل رہی۔ نہ ہی وہاں کوئی خانہ جنگی کی سی کیفیت ہے۔ نہ وہاں پاک فوج کوئی آپریشن کر رہی ہے۔ انہوں نے اس صورت حال کو ایک خوب صورت رومانی جملے میں سمو دیا کہ آج تک یہ جملہ اکثر و بیشتر استعمال کیا جاتا ہے۔ آپ نے لکھا کہ مشرقی پاکستان میں تو محبت کا زمزم بہہ رہا ہے۔ کچھ ہی برسوں بعد مغربی پاکستانیوں سمیت ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ محبت کے زمزم بہانے کا انجام کیا نکلا

حقائق کو چھپا کر غیر فطری انداز میں حقائق بیان کرنے سے کسی کو وقتی طور پر تو گمراہ کیا جا سکتا ہے لیکن مستقل طورپر حقائق چھپانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے تم سے پیار ہے تو مجھے یقین ہو گیا۔ اس نے اصرار کیا تو مجھے شک ہوا۔ اس نے قسم اٹھائی تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ جھوٹا ہے۔ تو جب آپ ایک ہی بات کو بار بار دہرائیں گے تو یقین کے بجائے شک ہونے لگے گا

مندرجہ بالا الفاظ لکھنے کی وجہ بنی ایک کالم۔ پاکستان رواداری کا نخلستان بن چکا ہے اور اب خوش خبری دی گئی ہے کہ یہ نخلستان برگ و بار سے بھرتا جا رہا ہے۔ حکمرانوں کے تدبر کو شاباش دی جا رہی ہے۔ اجتماعی فراست کا کندن دریافت کیا جا رہا ہے۔ انسان دوستی کی مضبوط روایات تلاش کی جا رہی ہیں۔ وطن عزیز کے موسم بدلنے کی خبر دی جا رہی ہے۔ حضور، آپ بہت بڑے دانشور ہیں۔ لیکن رواداری کے نخلستان کو محبت کے زمزموں میں تبدیل مت کیجئے۔ ہم نے محبت کے زمزموں کا انجام سنا ہے لیکن وطن عزیز میں رواداری کا نخلستان تو ابھی محض ایک سراب ہے۔ دارالحکومت میں انتہاپسندوں کی حکومت ہے۔ مبینہ طور پر اس گروہ کے سرپرست کابینہ میں سے بیان کئے جاتے ہیں۔ حکومت انتہا پسندوں کے خلاف اپنے طور پر کوئی آپریشن کرنے سے قاصر ہے۔ پندرہ بیس ڈاکوؤں کے گروہ کو پکڑنے میں تیرہ ضلعوں کی پولیس ناکام رہتی ہے۔ سخی سرور کے میلے پر صدیوں سے چلے آ رہے روایتی میلے اور دھمال پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ اہل علاقہ اپنے علاقے کی رونقیں بحال کرنے کے لئے سڑکیں بند کئے سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ملک میں خوف و ہراس کا عالم ہے۔ موسم نے زرا سی رت بدلی ہے تو لوڈشیڈنگ کا جن پھر سے بے قابو ہو چلا ہے۔ فتوے پر فتوے دیئے جا رہے ہیں۔ جس کا جی چاہتا ہے اپنے مخالف کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ کر دیتا ہے اور پھر پولیس کی کیا مجال کہ مدعی کی مرضی کے برعکس ضمنی لکھے۔ کون سی عدالت اس کے خلاف فیصلہ کرنے کی جرات کرتی ہے؟ اداروں کو ایسی جرات حکومت فراہم کرتی ہے، بہتر قانون سازی کے ذریعے۔ اور فی الحال تو سارے قانون انتہا پسندوں کے حق میں ہیں۔

وزیر اعظم رواداری کی بات کرتے ہیں ہندو برادری کو ہولی کی مبارک باد دیتے ہیں۔ قائد اعظم کے الفاظ دہراتے ہیں تو ان کے آبائی شہر میں ان کے برادر خورد کی کابینہ کا ایک وزیر حجاب اوڑھنے والی طالبات کے لئے رعایت کا اعلان کرتا ہے۔ رواداری کا نخلستان نامی کالم شائع ہوتا ہے تو پنجاب یونیورسٹی کے اندر سے اس نخلستان کو ایک سراب میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کسی دور افتادہ علاقہ میں نہیں بنائی گئی۔ پاکستان کے دل لاہور میں واقع ہے۔ رواداری کی ابتدا اس شاندار تعلیمی ادارے سے ہونا چاہئے تھی مگر یہاں سے متعصب ، تنگ نظر ڈنڈا بردار نکل رہے ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے رہنما ان کی سرپرستی فرما رہے ہیں۔ ایسے میں کہاں کے نخلستان؟ محض باتوں سے سراب دکھائے جا سکتے ہیں۔ خواب بنے جا سکتے ہیں۔ خوابوں کو حقائق میں بدلنا سہل نہیں۔ کچھ تو ایسا ہو کہیں تو ہو کہ جسے دیکھ کر ہم جان سکیں کہ اب بدلاؤ کا عمل شروع ہو گیا ہے اب وطن عزیز سے انتہا پسندں کا خاتمہ یقینی بنایا جا رہا ہے۔ مگر ابھی تو ایسا کہیں نہیں ہے۔ محض باتوں سے آپ یہ جنگ نہیں جیت پائیں گے۔ اس کے لئے عمل کرنا ہو گا۔ عمل کرنے کے لئے ہاتھوں کا ہونا ضروری ہے لیکن یہاں جو ہاتھ دستیاب ہیں ان کے پیچھے وہی ہیں جن کے خلاف یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ تو حضور

دست صياد بھي عاجز ہے، کف گلچيں بھي

بوئے گل ٹھہري نہ بلبل کي زباں ٹھہري ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).