آپ بچپن کی شکایت کیوں کرتے ہیں؟


اگر کہا جائے کہ زندگی کی بہترین یادیں شئیر کریں تو ایک عام انسان کیا کرے گا؟ وہ آنکھیں بند کرے گا اور سب سے پہلے اسے وہ گھر یاد آئے گا جہاں اس نے ماں باپ کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا۔ وہ دن یاد آئیں گے جب وہ ادھر سے ادھر آزاد بھاگتا پھرتا تھا اور پکڑنے والے جھوٹ موٹ اس کے پیچھے آ کر اسے پکڑ رہے ہوتے تھے۔ اسے وہ گرنا یاد آئے گا جب ہر بار گرنے کے بعد ماں کلیجے سے لگاتی تھی اور کبھی کبھار ایک آدھ تھپڑ بھی پڑتا تھا کہ سارے کپڑے گندے کر دیے۔ یاد آئے گا کہ وہ گلیوں میں اپنے جیسے بے شمار بچوں کے ساتھ کس طرح دوڑ لگاتا تھا، بے مقصد دوڑ، لیکن پورے عزم کے ساتھ، جس کا خاتمہ دو تین لڑھکتے ہوئے اور بے شمار ہانپتے ہوئے بچوں پر ہوتا تھا۔ اور انعام میں صرف جیت ہوتی تھی۔ خالی جیت! سوکھا دودھ یاد آ سکتا ہے، رنگ برنگے چورن یاد آ سکتے ہیں، املی کا چونی والا پیکٹ یاد آ سکتا ہے جسے ہائی جین کے مارے وہ اب ہاتھ بھی نہ لگائے، برف کے گولے یاد آ سکتے ہیں، رنگ برنگی سوڈے کی بوتلیں یاد آئیں گی، جن سے تھوڑا بڑے ہو کر اس نے لڑنے کا بھی کام لیا تھا، تو اس کے آگے پھر یادوں کی ایک دنیا ہری ہو جائے گی۔

صبح کی نشریات میں دکھائے جانے والے پانچ منٹ کے کارٹون یاد آئیں گے۔ ٹوم اینڈ جیری، چلی ملی، وڈی وڈ پیکر، پنک پینتھر، ڈونلڈ ڈک، پاپائے دا سیلر اور ایسے بہت سے دوسرے جو کم بخت ہوتے پانچ منٹ کے تھے لیکن ان کا سحر رات گئے تک قائم رہتا تھا۔ انگریزی نہ جاننے کے باجود پوری سمجھ میں آ جاتے تھے، کمال تھا۔ کس طرح وہ سردیوں میں ضد کرتا اور کون آئسکریم یا کوئی بھی ٹھنڈی چیز کھاتا تھا۔ دانتوں میں کیڑا ہونے کے باوجود دبا کے میٹھا کھاتا تھا۔ زمین پر گری ہوئی چیزیں بھی اٹھا کر کھا لیتا تھا، بہت زیادہ ہوا تو اماں کی بات یاد آ جاتی، کلمہ پڑھتا، اس پر پھونکتا اور کھا لیتا۔ روٹی کھانا حرام تھا۔ دستر خوان پر بیٹھ کے کھا لینا عذاب ہوتا تھا۔ سالن، سبزی، چاول سبھی کچھ کھانے پر اعتراض کرتا تھا، دن رات وہی کھانا چاہیے ہوتا جو پسند تھا۔

غبارے والا آیا ہے تو غبارہ لینا ہے، لچھے والے کی گھنٹی بجی تو چینی لے کر جانا ہے اور وہ بنوا کر کھانے ہیں، قلفی والے نے آواز لگائی تو وہ بھی فرض ہے، مکئی والا آئے گا تو خوب مصالحہ لگوا کر وہ کھانی ہے، اس کے فورا بعد وہ دیسی آئسکریم نما چیز بیچنے والا آیا تو اس کے لیے بھی ضد ہو گی۔ یہ سب لینے بھاگنا ہے تو ننگے پاؤں، اور واپسی پر باتیں بھی سننی ہیں لیکن اثر ککھ نہیں ہونا۔ چودہ اگست کی جھنڈیوں، شب برات کے پٹاخوں، پھلجڑیوں اور میلاد پر وہ پہاڑی بنانے کا بجٹ منظور کروانا اور دن رات اس سب کے لیے بھی ننگے پاؤں ہی اٌڑے پھرنا، یہ بھی ایک الگ کہانی ہے۔

سردی ہو یا گرمی، ہر بارش میں نہانا ضرور ہوتا تھا۔ خود نہ بھی جانے کا دل کرتا تو دوست یار آ کر دروازہ کھٹکھٹا دیتے اور کچے دھاگے سے بندھی ہوئی سرکار چلی جاتی۔ وہی دوست پہلی مرتبہ سینیما بھی لے کر جاتے، پہلا سگریٹ بھی انہیں کے ساتھ پینا ہوتا، پہلے تعلق کے ضروری مشورے بھی انہیں سے لیے جاتے، ہر لڑائی کے دوران بندے بلانے کے لیے فون بھی انہیں کو ملایا جاتا، وہی دوست ماموں چاچوں کی شادیوں میں بھنگڑے ڈالتے اور خود اس کی شادی میں بھی دیگوں پر کھڑے ہوتے اور بھاگ بھاگ کر سارے کام کرتے۔ تو سلسلہ یہاں تک آئے گا اور رک جائے گا۔

نوکری ہو گئی، گھر بس گیا، نام خدا بچے ہو گئے، باپ کے پیسے پر موج ختم ہو گئی اب آئیے میدان میں اور بات کیجیے۔ وہ سب یادیں جو ابھی دہرائیں وہ کتنے برس کی ہو سکتی ہیں؟ بیس برس، بائیس، چوبیس یا بہت کوئی بھاگ لیا تو ستائیس اٹھائیس برس، یعنی وہ زندگی جو انسان واپس لانا چاہے گا وہ شروع کے چند برسوں سے لے کر زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک کی ہو سکتی ہے۔ اچھی بات ہے، تو وہ زندگی بچوں کو جینے کیوں نہیں دیتے؟

نہ بیٹا، ادھر نہیں بھاگنا، آپ گر جائیں گے، چوٹ لگ جائے گی، گلی میں نہیں جانا، ڈوگی کاٹ لے گا، ریس نہیں لگانی، گندے بچے لگاتے ہیں، املی نہیں کھانی، گلا خراب ہو گا، بابا جانی ڈانٹیں گے، آپ کے پیپرز ہونے والے ہیں، نو آئس کریم، نو کولڈ ڈرنک، ارے کیوں بھئی؟ ہم آپ مر گئے یہ سب کھانے سے، دوڑنے بھاگنے سے، گرنے سے، نہ پڑھنے سے یا باہر کی چیزیں کھانے سے؟ کچھ بھی نہیں ہوا، آج بھی زندہ ہیں، پتہ نہیں کب تک ایسے ہی زندہ رہیں گے، الٹا یہ ہوا کہ ڈھیٹ ہو گئے، کہیں کا پانی پی لیں، کہیں کا کھانا کھا لیں، کوئی جراثیم کا ڈر نہیں ہوتا، بچپن سے امیونٹی (مدافعت) موجود ہے، بہت زیادہ ہو گا تو دو تین دن طبیعت خراب ہو گی، خود ہی لوٹ پوٹ کر سیدھے ہو جائیں گے، یہی زندگی بچوں کو بھی جینے دیں، انہیں کچھ نہیں ہو گا۔

ڈورے مون ان کے لیے ٹھیک نہیں، چھوٹا بھیم دشمنوں کی ثقافت سکھاتا ہے، انگریزی فلم گندی ہوتی ہے، کمپیوٹر اور آئی پیڈ سے نظر کمزور ہوتی ہے، الٹا لیٹ کر کتاب نہیں پڑھنی، ویڈیو گیم بچوں کے دماغ پر اثر ڈالتی ہے، اثر دماغ پر جو ڈلتا ہے وہ دراصل ہر وقت کی روک ٹوک کا ہوتا ہے، کچھ تو ہو جسے وہ بڑے ہو کر یاد کر سکیں کہ ہاں یار ہم بھی بچے تھے اور ہم نے بچوں والے کام بھی کیے تھے۔ ایک سات برس کا بچہ کبھی بھی ریموٹ کنٹرول طریقے سے اٹھارہ برس والی مہذب حرکات نہیں کر سکتا اور اٹھارہ برس والا اگر مہذب ہے تو کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے!

بچے بڑے ہوں گے تو کچھ نہ کچھ بڑے ہونے والی حرکتیں بھی کریں گے۔ شکائتیں آپ کی بھی اپنے وقت میں لگی ہوں گی، ان کی بھی اصولی طور پر لگنی چاہئیں کہ یہی زندگی ہے۔ جس وقت کوئی گلی محلے کے انکل یا آنٹی آپ کی شکایت لے کر آتے ہوں گے تو آپ کو یقیناً برا لگتا ہو گا، کم از کم وہ انکل یا آنٹی مت بنیں۔ چلیں اپنے بچوں پر نگاہ رکھنا ٹھیک ہے لیکن یہ شہر بھر کی آل اولاد کا ٹھیکہ اٹھانا کیا بات ہوئی۔ جو جہاں ہے جیسا ہے، موج میں ہے، وہی دن گزار رہا ہے جو آپ گزار چکے، اور نہیں گزارے تو بھی اس کا بدلہ پوری قوم سے لینا فرض نہیں ہے۔

بچپن ایک حسین یاد ہے۔ جو شخص آنکھیں بند کرے اور ماضی کے بارے میں سوچے اور اس کے پاس یاد کرنے کو خوب صورت بچپن بھی نہ ہو تو وہ قابل رحم ہے۔ لیکن ایک کام وہ بدقسمت انسان بھی کر سکتا ہے۔ وہ اپنی اولاد کو، اپنے آس پاس کے بچوں کو، گلی محلوں میں کھیلنے والے بچوں کو، سڑک پر کھیلتے ہوئے کھڑکیاں توڑنے والے بچوں کو، کچرے کے ڈھیر سے رزق چنتے بچوں کو، سگنل پر مانگتے اور گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے بچوں کو وہ چند یادیں دے سکتا ہے جو ان کا بچپن تھوڑا بہت رنگین بنا جائیں۔ یہ سب پیسے کے کھیل تو ہیں ہی، لیکن صرف مہربان نظریں، دوستانہ برتاؤ، شفقت اور پیار بھرا رویہ بھی ان بچوں کو وہ اعتماد اور خوشی دے سکتا ہے جو شاید بہت سوں کو زندگی میں کبھی نصیب نہ ہوا ہو۔ وہ آنٹی یا انکل کبھی نہیں بھول سکتے جو اپنے گھر کے شیشے تڑوانے پر بھی پیار سے لا کر گیند واپس کر دیں، نہ وہ بزرگ بھول سکتے ہیں جو آپ کو سگریٹ پیتے دیکھ کر مسکرائے ہوں لیکن گھر میں شکایت نہ لگائی ہو اور نہ ہی وہ مہربان خاتون بھول سکتی ہیں جنہوں نے پہلی بار کسی۔ سیانے کہتے ہیں زیادہ جذباتی ہو جائیں تو لکھنے سے پرہیز کیجیے، اپنی لنکا خود ہی ڈھے جاتی ہے!

بشکریہ روزنامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain