ہوا ہے خوشی کا دشمن پھرے ہے اتراتا


کچھ دن پہلے سراج الحق کی ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس ویڈیو میں وہ بہت مزے لے لے کر ایک ڈرامہ فلم پروڈیوسر سے اپنی ملاقات کا احوال سناتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پروڈیوسر صاحب کیسے غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ فون پر کہتے ہیں کہ امیر صاحب آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نہ صرف پروڈیوسر ہوں بلکہ سرخا بھی ہوں۔ صرف سرخا ہی نہیں ہوں دہریا بھی ہوں۔

یہ سب سن کر امیر جماعت اس پروڈیوسر بھائی کو تسلی دیتے ہیں۔ وہ ان سے ملنے آتا ہے پھر شاید دونوں جماعت کی پروموشنل ویڈیوز کے لیے آئیڈیاز پر بات کرتے ہیں۔ سراج الحق کا یہ روپ اچھا لگا تھا۔ جماعت اسلامی کے ساتھ جتنے بھی نظریاتی شخصی اختلافات ہوں۔ دل بس ایک ہی بات چاہتا ہے۔ امیر جماعت کا احترام ہو ہم جب اس سے بات کریں، لوگ جب اس کو سوچیں تو تحفظ کا ایک احساس ہو۔ ایک مہربان بزرگ کا تاثر بنے۔

اگر عالم دین میں عاجزی نہیں ہے۔ آپ اس کا احترام کرنے پر خود کو مجبور نہیں پاتے۔ اس کی ذات کے ساتھ احساس تحفظ نہیں ابھرتا۔ معذرت کے ساتھ پھر اس کے عالم دین ہونے میں شبہ ہو سکتا ہے۔

سراج الحق کو تب سے دیکھ رہے ہیں جب یہ جمعیت کے صوبائی صدر ہوتے تھے۔ سیاست میں آئے وزیر بنے، جماعت کے ان چند گنے چنے لوگوں میں سے ہیں جو حلقہ کی سیاست میں بھی کامیاب ہیں۔ ان پر کوئی ویسا الزام نہیں لگتا جو عام طور پر سیاستدانوں پر لگا کرتے ہیں۔ اپنی پارٹی کارکنوں کو عام لوگوں کو بھی یہ دستیاب رہتے ہیں۔

ایک دوست کا سنایا قصہ بھی یاد ہے۔ جس میں اس نے بتایا کہ کیسے جمعیت کی ایک طلبہ تنظیم سے لڑائی میں سراج الحق نے ثالثی بھی کی بلکہ جمعیت والوں کی کھنچائی بھی کی۔ جماعت اسلامی ایک سیاسی پارٹی ہے جس کا حق ہے کہ وہ سیاست میں کامیاب ہو۔ ایک دن حکومت بنائے۔ سراج الحق اگر حلقہ جاتی سیاست کو سمجھتے ہیں تو اس کا بھی امکان ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سراج الحق ہی میں پوٹینشل ہے کہ وہ جماعت کو سیاسی کامیابیوں کی راہ پر گامزن کر سکیں۔

سراج الحق کے ایک پرانے دوست ساتھی کا ایک تبصرہ بھی اہم ہے۔ اس کا کہنا ہے سراج الحق سینیٹ کے ممبر ہیں۔ سینیٹ میں تمام پارٹیاں بہترین ورکروں کو بھیجتی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارا امیر جماعت سینیٹ میں بھی جمعیت کے ناظم کے انداز میں تقریریں کرتا ہے۔ سراج الحق کی حال ہی میں ایک جذباتی تقریر کافی وائرل ہوئی ہے۔ یہ تقریرمتاثر کن تھی لیکن اس دوستانہ تبصرے نے اس کے اثر کو کم کیا۔

حالی ہی میں پنجاب یونیورسٹی میں ایک واقعہ ہوا ہے۔ قصور کس کا تھا کس نے شروعات کی اس بات کو رہنے دیتے ہیں۔ جمعیت پھر خبروں میں آئی ہے۔ جماعت کے بارے میں بات ہو رہی ہے بلکہ اس پر تنقید ہو رہی ہے۔

جماعت اسلامی کے مخالفین کبھی مذاق کبھی غصے میں ایک طعنہ دیتے ہیں۔ طعنہ یہ ہوتا ہے کہ جماعت کے احباب خواہ مخواہ پاکستان کے مامے بنتے ہیں۔ ان کا ہر کام میں کام ہے۔ نہ یہ اپنی سیاسی پوزیشن دیکھتے ہیں اور نہ اپنے عوامی امیج کو۔ بس چیزوں کو الجھا دیتے ہیں۔

یہاں رک جاتے ہیں، مان لیتے ہیں کہ جماعت کا پورا حق ہے کہ وہ ماما بنے۔ پاکستان کو اپنی سوچ مطابق چلانے کے لیے اپنے بس کے مطابق کوشش کرے۔ چاہتے تو یہ بھی ترقی ہی ہوں گے۔ تباہی خرابی تو ان کا ہرگز مقصد نہیں ہو گا۔

امیر صاحب اب یہاں کچھ کہنا ہے۔ لاہور کے بہت سے تعارف ہو سکتے ہیں۔ لاہور کا ایک تعارف یہ بھی ہے۔

دہاڑے ست تے اٹھ میلے
گھر جاواں میں کہڑے ویلے

لاہور کو لاہور بنانے میں اس کے میلوں ٹھیلوں کا بھی ہاتھ تھا۔ بسنت پر لاہور میں آنے والے مہمانوں کا رش تو ہم سب کے سامنے کی بات ہے۔ لاہور کے لوگوں کی رونقی طبیعت کا بہت تعلق ان میلوں سے بھی ہے۔ یہ میلے ہی شہروں کی پہچان کراتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے کسی جگہ جانے کے لیے بڑی کشش وہاں کے فیسٹیول ہی ہوتے ہیں۔ سپین اٹلی فرانس کے چھوٹے چھوٹے شہروں قصبوں کے اپنے اپنے تہوار ہیں۔ جن کے تہوار مشہور ہیں وہاں لوگ زیادہ جاتے ہیں۔ ان کی معیشت ترقی کرتی ہے۔

اسلام آباد میں چینی دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ان کے تہواروں کا پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر تہوار مناتے ہیں۔ وہ نیا سال ہو کرسمس ہو بس کچھ ہو ہم مناتے ہیں۔ ان تہواروں کا عام لوگوں کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔ اس بار ایکو کانفرنس میں فیصلہ ہوا کہ تمام ممبر ممالک نوروز کا جشن منائیں گے۔ نوروز کی مبارکباد کے پیغامات چینی افغانی دوستوں کے ہی آئے۔

سراج الحق صاحب کہنا یہ ہے کہ جب کلچر فیسٹول پر تصادم کی خبریں جاتی ہیں تو یہ خبریں کوئی اچھا تاثر نہیں بناتی ہیں۔ آپ کبھی نہیں چاہتے ہوں گے کہ ہمارا تاثر برا ہو۔ آپ کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے۔ آپ اکثر اپنی غریبی جدوجہد کے واقعات سناتے ہیں۔ آپ کے اپنے ضلع دیر کی غربت کے خاتمے کا آسان راستہ سیاحت کا فروغ ہے۔

ہم لوگ مولانا فضل الرحمن کے چئیرمین کشمیر کمیٹی بننے کی سینکڑوں وجوہات بتا سکتے ہیں۔ مولانا عطا الرحمن کے وزیر سیاحت بننے کی کوئی ایک وجہ بھی بیان نہیں کر سکتے۔ بس یہی سمجھ آتی ہے کہ ہم سیاحت کا فروغ ہی نہیں چاہتے۔ جب کہ ہمارے ملک کے ایک سرے سے دوسرے تک سب پہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ زیادہ مہمان نواز ہیں۔

بات ختم کرتے ہیں سراج صاحب آپ کو اب نئی پالیسی بنانی بھی ہو گی اس پر عمل بھی کرانا ہو گا۔   جب تک جمعیت خوشی کی تقریبات کو الٹتی رہے گی۔ فنکشن خراب کرنے میں اس کا نام آتا رہے گا۔  ترقی کی باتیں گپ شپ ہی رہیں گی۔  ورنہ آپ جتنی مرضی سرخوں سے ملاقات کی خوشیاں سنائیں ہم یہی کہیں گے کہ

ہوا ہے خوشی کا دشمن پھرے ہے اتراتا
اب شہر میں جماعت کی آبرو کیا ہے

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi