کیا گوادر آسمان سے ٹپکا تھا؟
گوادر۔ گوادر۔ گوادر۔ اب آپ کوئی بھی اخبار اٹھا کر دیکھیں تو گوادر کا کہیں نا کہیں ذکرِ خیر مل جائے گا؛ بندر گاہ، یا سی پیک، یا چین کے حوالے سے۔ پاکستان کے تقریباً ہر شہری کو گوادر کا نام اور اس کی اہمیت کے بارے میں تھوڑا بہت اندازہ ہے۔ لیکن جب 1947 ء میں پاکستان بنا تو یہ پاکستان کی سر زمین کا حصّہ نہیں تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں بچّہ تھا تو کراچی سے کئی کاروباری لوگ کشتیوں میں بیٹھ کر گوادر گئے اور غیر ممالک کی بنی ہوئی روز مرہ کے استعمال کی اشیا کے ساتھ لدے پھندے واپس آئے۔ ان میں میرے ایک قریبی رشتہ دار بھی شامل تھے۔ ان لوگوں نے ان اشیاء کو بیچ کر خاطر خواہ پیسے کمائے۔ تب میں نے پہلی بار ہوائی چپّل کو دیکھا تھا۔ پتا چلا کہ گوادر جو پہلے سلطنت اومان میں تھا، اب وہ پاکستان کی سرزمین کا حصّہ بن گیا تھا۔
اس کے بعد گوادر کو، جو اس وقت ایک مچھیروں کی بستی تھی، سب بھول گئے۔ تقریباً دو دہائیاں قبل اس کے نام کا ہر سو چرچا ہونے لگا جب چین نے وہاں بندرگاہ بنانے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ کیا کسی نے یہ سوچنے یا ذکر کرنے کی زحمت کی کہ گوادر پاکستان کا حصہ کیسے بنا؟ اس کے بارے میں شاذ و نادر ہی کوئی بات کرتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ایک صبح اومان کا جھنڈا غائب ہو گیا اور اس کی جگہ پاکستان کا جھنڈا لہرا دیا گیا ہو۔
1783 ء میں جب سید سعید ’مسقط اور اومان‘ ( 1749 ء میں قائم ہونے والی اس آزاد ریاست کا یہ نام رکھا گیا تھا) کا حکمران بنا تو اس کے اپنے بھائی امام سلطان سے اختلافات پیدا ہو گئے۔ سید سعید مکران میں محفوظ مقام پر فرار ہو گیا اور قلات کے ناصر خان سے رابطہ قائم کیا۔ سعید کو گوادر کی آمدنی میں سے حصہ دیا جانے لگا۔ وہ 1797 ء تک جنگ کی تیّاری کے لئے گوادر میں رہا جب تلک کہ وہ جنگ جیت کر مسقط اور عمان پر حکمرانی کرنے واپس نہیں چلا گیا۔ لیکن اس نے گوادر کو واپس نہیں کیا اور ستمبر 1958 ء تک سلطنت کے حصے کے طور پر گوادر اومانی قبضے میں ہی رہا۔
1947 ء میں پاکستان وجود میں آیا تو پاکستان کو قلات تَو مل گیا لیکن گوادر تب بھی اومان کے پاس تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ خود اومان اس وقت برطانیہ کی نوآبادی بن چکا تھا، اور گوادر کی موجودگی پاکستان کے لئے ایک خطرہ تھی۔ کوئی بھی ملک گوادر کے ذریعے پاکستان پر حملہ آور ہو سکتا تھا یا کم از کم پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا تھا۔
وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد پاکستان میں پے در پے وزیر اعظم بدلتے رہے۔ دسمبر 1957 ء میں جس سیاستدان نے وزیراعظم کے عہدہ کا حلف لیا ان کو اکتوبر 1958 ء میں صدر اسکندر مرزا اور کمانڈر انچیف ایوب خان نے مارشل لاء لگا کر سبکدوش کر دیا۔ لیکن ان چند ماہ میں اس وزیر اعظم اور اس کی بیگم کی انتھک کوششوں کے طفیل اومان سے گوادر کو خرید لیا گیا۔
قوم کے اس بھلائے گئے ہیرو نے اعلیٰ تعلیم لاہور اور لندن سے حاصل کی اور لندن سے ہی بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ 1917 ء میں ہندوستان واپسی کے بعد انہوں نے وکالت شروع کی، 1920 ء میں سیاست میں قدم رکھا، اور پنجاب کی حکومت میں وزیر بھی رہے۔ 1932 ء اور اس کے بعد کے چند سالوں میں انہیں انگریز حکومت سے اچھے تعلقات اور ان کی خدمات کی وجہ سے کئی خطابات سے نوازا گیا۔ 1947 ء تک انہوں نے انگریزوں کی حکومت میں اہم عہدوں پہ کام کیا مثلاً برطانیہ کے لئے بھارت کے ہائی کمشنر اور بھارت کی طرف سے اقوامِ متحدّہ کے لئے سفیر بنے۔ انہوں نے قلات میں امریکی پٹرولیم کمپنیوں کی آمد اور کام کرنے کی سخت مخالفت کی، دوسری جنگِ عظیم میں برطانیہ کی حمایت کی، اور برطانوی وزیر اعظم چرچل کو کانگریس کی ’بھارت چھوڑو‘ مہم کو نہ ماننے کے لئے مرعوب کیا اور انہیں انگریزوں کے لئے بھارتی مسلمانوں کی حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
پاکستان بننے کے بعد وہ کئی اہم سرکاری عہدوں پہ فائز ہوئے اور 1953 ء میں پنجاب کے و زیرِ اعلیٰ مقرّر ہوئے۔ 1955 ء میں فیروز خان نون نے مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ریپبلکن پارٹی کے قیام میں حصہ لیا۔ انہوں نے ون یونٹ پروگرام کی حمایت کی، جس کے تحت مغربی پاکستان کے تمام صوبوں کو ایک انتظامی اکائی میں ضم کر دیا گیا۔ تاہم، یہ فیصلہ غیر مدبرانہ ثابت ہوا، کیونکہ اس سے سندھی، بلوچی، اور پختون قومیتوں نے اپنے سیاسی و ثقافتی استحصال کا شکوہ کیا جو بعد میں پنجاب کے خلاف ناراضگی اور نفرت کا سبب بنا۔
عوامی لیگ کے حسین سہروردی اور مسلم لیگ کے آئی آئی چندریگر کے وزیر اعظم کے عہدے سے استعفوں کے بعد نون نے کامیابی کے ساتھ کئی دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا جس سے انہیں وزیراعظم کی حیثیت سے حکومت بنانے کے لئے اکثریت حاصل ہو گئی۔ 16 دسمبر 1957 ء کو نون نے وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا اور مخلوط حکومت تشکیل دی۔ نون نے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کے دوبارہ صدارتی انتخاب کی حمایت نہیں کی بلکہ ان کا تین جماعتی اتحاد 1958 ء میں صدر مرزا کی جگہ لینے کے لئے کسی اور امیدوار کو نامزد کرنے کے لئے بات چیت کر رہا تھا۔
1956 ء کے آئین کے مطابق نومبر 1958 ء تک ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا تھا۔ لیکن صدر اسکندر مرزا نے فروری 1959 ء تک انتخابات کو مؤخر کر دیا اور 7 / 8 اکتوبر 1958 ء کی آدھی رات کو صدر مرزا اور کمانڈر انچیف ایّوب خان نے مل کر حکومت کے خلاف بغاوت کی، مارشل لاء نافذ کیا، اور اس طرح اسکندر مرزا نے صدر کے عہدے پہ فائز رہنے کے لئے اور تمام سیاسی اختیارات کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لئے اپنے ہی مقرر کردہ وزیر اعظم کو برطرف کر دیا۔ مگر ایّوب خان نے کچھ ہی دنوں بعد صدر مرزا کو بر طرف کر کے تمام اختیارات خود سنبھال لئے۔ اور اس طرح فوج ہمیشہ کے لئے پاکستان کی سب سے زیادہ مضبوط ’سیاسی جماعت‘ بن گئی۔
خوش قسمتی سے نون نے اپنے وزارت اعظمیٰ کے تھوڑے عرصے کے دوران سلطنت اومان کے ساتھ گوادر کی ملکیت کے لئے پیچیدہ لیکن کامیاب مذاکرات کیے، جسے 8 ستمبر 1958 ء (یعنی نون کی برطرفی سے صرف ایک ماہ قبل) کو تقریباً تیس لاکھ ڈالر کی قیمت پر خرید لیا گیا اور 8 دسمبر 1958 ء گوادر کو پاکستان کے حوالے کرنے کی تاریخ طے پا گئی تھی۔ لیکن دسمبر 1958 ء میں ایّوب خان کی حکومت برسرِ اقتدار آ چکی تھی۔ اس طرح گوادر قانونی طور نئی حکومت کے دور میں پاکستان میں شامل ہوا۔ یہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ فیروز خان نون کی محنت اور مہارت کا تاج ایّوب خان کے سر پر رکھ دیا گیا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ آغا خان چہارم نے گوادر کی خریداری کے لئے فنڈز کا ایک بڑا حصہ فراہم کیا۔
نون نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ اگر ان کی حکومت کو بندوق کی گولی سے نہ ہٹایا جاتا تو شاید دونوں ممالک کے عوام جنگ و جدل کے بجائے امن و سکون کی زندگی بسر کر رہے ہوتے۔
فیروز خان نون کی اہلیہ وقار النساء نون نے بھی گوادر کو پاکستان میں ضم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل سے ملنے کے لئے لندن کا دورہ کیا، برطانوی پارلیمنٹ میں لابنگ کی، اور ہاؤس آف لارڈز سے گوادر کو خریدنے کی منظوری حاصل کرنے کے لئے کوششیں کیں کیونکہ اس وقت اومان برطانیہ کے قبضے میں تھا۔ وقار النساء نون پیشے کے لحاظ سے ایک سماجی کارکن تھیں۔ انہوں نے 1945 ء میں فیروز خان نون سے شادی کی تھی۔ انہوں نے تحریک پاکستان میں بھی حصہ لیا تھا۔ وہ پیدائشی طور پر آسٹریا سے تعلق رکھتی تھیں اور پیدائش کے وقت ان کا نام وکٹوریہ رکھا گیا تھا۔ ان کا انتقال 16 جنوری 2000 ء کو ان کے شوہر کے آبائی گاؤں نورپور نون، ضلع سرگودھا میں ہوا۔ 1959 ء میں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ملک کے لیے ان کی خدمات پر نشان امتیاز (میڈل آف ایکسیلینس) سے نوازا گیا۔ بنگلہ دیش میں ایک اسکول اور کالج، اور پاکستان میں ایک اسکول وقار النساء نون کے نام پہ ہیں۔
1958 ء کی سیاسی اور فوجی بغاوت کے بعد نون نے قومی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی اور دوبارہ سیاسی مصنف بن گئے۔ انہوں نے ریٹائر ہونے سے پہلے چار کتابیں لکھی تھیں اور ریٹائر ہونے کے بعد اپنی سوانح حیات بھی شائع کی۔ ان کا انتقال 9 دسمبر 1970 ء کو ان کے آبائی گاؤں نورپور نون ضلع سرگودھا میں ہوا جہاں وہ مدفون ہیں۔
نون اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ ”گوادر غیر ملکی ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے میں نے محسوس کیا تھا کہ ہم ایک ایسے گھر میں رہ رہے ہیں جس کے پچھلے کمرے میں ایک اور دروازہ ہے، جس پر ایک اجنبی کا قبضہ ہے جو کسی بھی وقت ہمیں پاکستان مخالف طاقت کو فروخت کر سکتا ہے۔“
ہمارے معا شرے میں ایک افسوسناک روایت ہے کہ ہم ان غیر مسلم، لبرل، یا بائیں بازو کی شخصیات کو جنہوں نے اس دھرتی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دیں، ہر سطح پہ بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ مشرقِ و سطیٰ کی کئی ہستیوں کو جن کا ہماری زمین سے کوئی تعلّق نہیں اور نہ ہی انہوں نے یہاں کے لوگوں کی کوئی خدمت کی ہے، اپنے ہیرو بنائے بیٹھے ہیں۔ ڈان کے ایک مضمون میں عبدالقیّوم نے اس بارے میں لکھا کہ:
”آج اس بندرگاہی شہر کو جو شہرت حاصل ہے وہ مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کچھ معزز لوگوں کی کوششوں اور خدمات کو کسی نہ کسی طرح نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ گوادر 1958 ء میں سابق وزیر اعظم ملک فیروز خان نون اور بیگم وقار النساء نون کی کوششوں سے پاکستان کا حصہ بنا۔ لیکن بدقسمتی سے کسی بھی ہوائی اڈے، اہم عمارت، سڑک، یا پارک کا نام ان کے نام پر نہیں رکھا گیا۔ گوادر کو پاکستان میں ضم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے اور ان کے ناموں کو یاد رکھنا چاہیے، اور ایسا گوادر ائرپورٹ اور دیگر اہم مقامات کو ان کے نام پر رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ “
میرے نزدیک یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے اہم ترین کارنامہ ہے۔ تعلیمی نصاب کی کتابوں میں واضح طور پر سابق وزیر اعظم ملک فیروز خان نون اور بیگم وقار النساء نون کی اس اہم ترین کامیابی کو سراہنا چاہیے۔
فیروز خان نون کی کتب:
·Wisdom From Fools (1940) , short stories for children
·Scented Dust (1941) , a novel
·India (1941)
·Kashmir (1957)
·From Memory (1966) , autobiography
- کیا گوادر آسمان سے ٹپکا تھا؟ - 30/11/2024
- ویل چیئر - 25/11/2024
- جھونپڑی - 17/10/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).