چوتھی نسل کی مایوسی
نپولئین بونا پارٹ تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جو کبھی بھول نہیں سکتا۔ اس کی بے شمار فتوحات نے اسے مطلق العنان حکمران اور ہٹ دھرم جرنیل بنا دیا تھا۔ وہ ناقابل شکست تھا اور یہی اعتماد اس کی آخری شکست کا باعث بنا۔
نپولئین کی رشیا پر چڑھائی بنیادی طور پر روس کی فتح سے زیادہ روسی حکمران کو اپنا مطیع کرنا مقصود نظر آتا ہے جو کہ برطانیہ کے ساتھ روس کے تجارتی اور فوجی روابط کو بڑھا رہا تھا۔ نپولئین برطانیہ کے یورپ پر بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنا چاہتا تھا جس میں تمام زمینی جنگوں میں اسے فتح حاصل ہوئی تھی مگر برطانیہ کی بحری طاقت کو وہ کمزور نہ کر سکا بلکہ اس کے ہاتھوں اسے شکست ہوئی۔
روس پر 1812 کے موسم گرما میں پولینڈ کے دریائے نیمن کراس کرنے سے نپولئین کی پیرس واپسی تک نپولئین اپنی پانچ لاکھ فوج سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا جو آگے چل کر اس کی ”واٹرلو“ کی شکست کا باعث بنا۔
نپولئین نے جب روس پر حملہ کیا تو اس کا خیال تھا کہ وہ چند ہفتوں میں روس فتح کر لے گا بلکہ اس کا خیال تھا جنگ کی نوبت نہیں آئے گی اور ”زار روس“ اس کا مطیع ہو جائے گا۔ اس کے پاس چھ لاکھ فوج تھی ایک لاکھ گھوڑے اور ایک ہزار سے زائد بندوقیں تھیں۔ لیکن یہ سارا کچھ روسیوں کے صبر کا مقابلہ نہ کر سکا۔ روسی شکست کھاتے گئے پیچھے ہٹتے گئے اور کھانے کے ذخیروں، رہائشی علاقوں اور فصلوں کو آگ لگاتے گئے۔ نپولئین ماسکو پہنچ گیا لیکن ہاتھ کچھ نہیں آیا، زار نے ہار نہیں مانی۔ ماسکو کی شدید سردی خوراک کی ناقص سپلائی نے اسے واپس ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ واپسی بارشوں کے باعث دلدلی راستوں سے بہت آہستگی سے ہو رہی تھی۔ تب روسی فوجیں گوریلا حملے کر کے انہیں مسلسل نقصان پہنچاتی رہیں۔ نپولئین پیرس پہنچا تو اس کے ساتھ صرف تیس ہزار سپاہی تھے۔ نپولئین کی شکست کے تین اسباب میں پہلا تو اس کا یقین کی حد تک بڑھا ہوا اعتماد تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنی بڑی طاقت کے سامنے روسی ٹھہر سکیں گے۔ دوسرا نپولئین نے فوج کی کمان اپنے بھائی اور سوتیلے بیٹے کو سونپ رکھی تھی حالانکہ اس کے پاس تجربہ کار جرنیل موجود تھے۔ تیسری وجہ وہ موسمی اثرات تھے جس کی حکمت عملی پہلے سے طے نہیں تھی۔
پاکستان کی تاریخ پر اگر نظر دوڑائیں تو ایک چیز بڑی واضح نظر آتی ہے اور وہ ہے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی مستقل مزاجی اور حکومتی امور پر مستقل توجہ اور اقتدار پر گرفت، جس کا آغاز پاکستان بننے کے فوری بعد شروع ہو گیا تھا۔ ایوب خان نے اس کو حتمی شکل دے کر پاکستان کی تحریک کے تمام بڑے سیاستدانوں کو ایبڈو کے ذریعے کرش کیا۔ مادر ملت کو پہلی الیکشن دھاندلی کر کے شکست دی اور انہیں غدار قرار دے کر اپنے اقتدار کو دوام بخشا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ پاکستان بنانے والی پہلی نسل پاکستان سے مایوس ہوئی۔
آدھے پاکستان پر کسی نہ کسی مجبوری کے تحت اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل ہوا۔ عوامی نمائندوں نے توڑ پھوڑ، بے چینی، اور نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کا متفقہ آئین بنایا۔ لوگوں نے کچھ سکون محسوس کیا۔ یہ پاکستان کے دوسری نسل تھی جو نئی امید نئے ولولے کے ساتھ آگے بڑھتی نظر آئی۔ ایک بار پھر شب خون مارا گیا۔ آئین توڑا گیا، غیر آئینی اندھیرے مسلط کر دیے گئے۔ پاکستان کی دوسری نسل دس سال تک اندھیروں کے خلاف جد جہد کرتی رہی مگر مایوسی اس کا مقدر بنی۔
پاکستان کی تیسری نسل تاریخی حالات و واقعات کے پیش نظر اور اسٹیبلشمنٹ کی منشا کے مطابق کمپرومائزڈ جمہوریت پر راضی ہو گئی مگر اس میں بھی رخنہ اندازی کی گئی نیم جمہوریت بھی نہیں چلنے دی گئی اور ایک بار پھر اندھیروں کا سفر شروع ہوا جو اگلے دس سال تک چلتا رہا۔ یہ سال پاکستان کی تیسری نسل کی مایوسی کے تھے
پاکستان کی چوتھی نسل جو مسلسل پروپیگنڈے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی۔ ایک نئے ولولے نئے جوش و جذبے کے تحت آگے بڑھتی چلی گئی۔ اس نسل کو ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے پروان چڑھایا گیا تھا اور یہ ایک نیا پاکستان بنانے کے لئے انتہائی پرامید تھے۔ اس نسل کو خلاف معمول پذیرائی مل رہی تھی۔ نعرے خوشنما تھے۔ انہیں تمام پڑھے لکھے طبقات، عدلیہ اور فوج کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ یہ نسل خوش تھی کہ ان کے خوابوں کی تکمیل ہونے والی ہے۔ ان کا لیڈر دیوتا ہے ان کا اوتار ہے اور انہیں ہر مشکل سے نکال سکتا ہے۔ وہ دل و جان سے اس کے شیدائی تھے اور وہ خود اپنے اندر کی خواہشات کو پروان چڑھانے میں پر عظم تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس عوامی قوت کے بل بوتے اور فوج کی پشت پناہی سے آگے بڑھتا چلا جائے گا مگر اس کو چلانے والے، اس کو آگے بڑھانے والے، اس کو دیوتا بنانے والے، سنگ تراش تھے اور یقین رکھتے تھے کہ ان کا بنایا ہوا بت ان کے کلہاڑے کے ایک ہی وار سے ٹوٹ جائے گا مگر وہ نہیں ٹوٹا۔ یوں ہماری چوتھی جنریشن سنگتراشوں کی اس پرانی روش اور دیوتا کی ناقص حکمت عملی کا شکار ہوئی۔ وجوہات وہی ہیں جو نپولئین بونا پارٹ کی شکست کی وجہ بنی تھی۔ پہلی وجہ خان کا حد سے بڑھا ہوا اعتماد ہے۔ اور اپنی سوچ کو حتمی سمجھنا ہے۔ دوسری فریق مخالف کی حکمت عملی کو سمجھے بغیر بے صبری سے اپنی سوچ کی کامیابی کا یقین، اپنے جرنیلوں پر اعتماد کا فقدان، سیاست میں نیم پختہ ناتجربہ کار بیگم کی انٹری، کسی نظر نہ آنے والے اشاروں پر مکمل اعتماد اور آخری حملے میں موسم کا تعین کیے بغیر لانگ مارچ۔
وجوہات جو بھی ہوں، واقعات جتنے پرتشدد ہوئے وہ تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے جس کی صدا دیر تک گونجتی رہے گی۔ کوئی فتح کے شادیانے بجا رہا ہے، کوئی خون کے آنسو رو رہا ہے، کوئی قیادت کے دوغلے پن کا رونا رو رہا ہے کوئی تشدد کو ناکامی کی وجہ قرار دے رہا ہے مگر ایک بات پتھر پر لکیر ہے۔ ان سارے واقعات نے پاکستان کی چوتھی جنریشن کو بھی مایوس کر دیا ہے۔ امیدیں دم توڑ گئی ہیں اور فضا میں ایسی گھٹن ہے کہ سانس لینا دشوار ہو رہا ہے۔ ڈی چوک میں لائٹیں بند کر کے اپریشن نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان کی چوتھی جنریشن کو اندھیرے میں دھکیل دیا گیا ہے۔
- دسمبر وہ نہیں آیا۔ - 07/12/2024
- چوتھی نسل کی مایوسی - 30/11/2024
- کچھ یادیں - 17/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).