عمران خان کی فائنل کال کامیاب یا ناکام؟


بالآخر عمران خان کی فائنل کال اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئی پی ٹی آئی نے ڈی چوک میں دھرنا دیے بغیر احتجاج ختم کرنے کا اعلان کر دیا ڈی چوک کی طرف بڑھنے والے جلوس کو ریاستی قوت سے منتشر کر دیا گیا لیکن ”آپریشن کلین اپ“ میں ہونے والے جانی نقصان کے بارے میں افواہیں تو گردش کرتی رہیں لیکن پی ٹی آئی ثبوت کے طور پر ایک ”لاش“ بھی پیش نہ کر سکی البتہ یک طرفہ پروپیگنڈے نے حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔ فائنل کال کی ناکامی کا پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان یہ ہوا کہ پارٹی کی وکلاء قیادت سے استعفے طلب کر لئے گئے پارٹی کی غیر علانیہ نئی قائد بشریٰ بی بی نے گھروں سے باہر نہ نکلنے والے ارکان اسمبلی کی جو ”عزت افزائی“ کی اس کا سیاسی حلقوں میں بڑا چرچا ہے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کے پی کے میں گورنر راج نفاذ کے آپشن پر غور کیا گیا اور سیاسی مصلحت کے پیش نظر کچھ دنوں کے لئے اس لئے موخر کر دیا گیا کہ فائنل کال کی ناکامی پر پارٹی میں جو جوتا چل رہا ہے گورنر راج کا نفاذ پارٹی کو پھر متحد کر دے گا۔ وفاقی حکومت نے کسی بڑے المیہ سے بچنے کے لئے کے پی کے سے آنے والے ایک بڑے ”سیاسی لشکر“ کو کسی مزاحمت کے بغیر کلثوم ہسپتال تک آنے دیا حتیٰ کہ دو اڑھائی سو کارکن ڈی چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

پولیس رینجرز اور فوج سمیت تمام فورسز ڈی چوک پر نصب کنٹینرز سے پیچھے ہٹ گئیں بظاہر ایسا دکھائی دیتا تھا کہ حکومت نے مظاہرین کے سامنے ہتھیا ڈال دیے ہیں مظاہرین بھی حکومت کی ”نرم روی“ کو اس کی کمزوری سمجھ کر آگے بڑھ رہے تھے بشریٰ بی بی کی قیادت میں ”سیاسی لشکر“ تمام رکاوٹیں تیز رفتاری سے عبور کرتا ہوا ڈی چوک کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اوپر سے حکم آ گیا کہ جوانوں کی تدفین سے قبل بلیو ایریا کلیئر کرا لیا جائے اس دوران علی امین گنڈاپور، عمر ایوب اور بشریٰ بی بی کو آپریشن شروع ہونے کا پیغام گیا اور وہ فوری طور اپنی گاڑیوں سے نکل کر دوسری گاڑیوں میں مارگلہ کے پہاڑ کے راستے مانسہرہ چلے گئے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے دیکھا کہ ریاستی طاقت کے استعمال کے بغیر کوئی چارہ نہیں پھر پوری قوت استعمال کر کے دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں جناح ایونیو کو خالی کرا لیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے وزیر داخلہ محسن نقوی آپریشن کے دوران پولیس فورس کے ساتھ رہے آپریشن کے دوران 25، 30 افراد کے زخمی ہو نے کی اطلاعات ملی ہیں لیکن لاشوں کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ملی سر دست رینجرز اور پولیس کے اہلکار تو جاں بحق ہوئے ہیں ان کے جنازے بھی پڑھے گئے ہیں۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی طرف سے ہلاکتوں کا دعویٰ تو کیا گیا ہے تاہم اس کی طرف سے ابھی تک کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

وفاقی حکومت خون ریزی سے بچنے کے لئے تین روز کوشش کرتی رہی بیرسٹر گوہر کی دو بار اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرائی گئی اور پی ٹی آئی کی قیادت کو سنگ جانی میں پڑاؤ ڈالنے کی بھی پیشکش کی گئی جس سے عمران خان سمیت پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی اتفاق کیا لیکن بشریٰ بی بی آڑے آ گئیں اور ڈی چوک جانے پر ضد کی پی ٹی آئی کی پوری قیادت بشریٰ بی بی کے سامنے بے بس نظر آئی انہوں نے سب کو ڈی چوک کی طرف مارچ کرنے کا حکم جاری کیا پی ٹی آئی میں پہلی بار ”سپر لیڈر شپ“ منظر عام آئی بشریٰ بی بی کی پالیٹکس میں انٹری کے بعد نیازی سسٹرز سیاسی منظر نامے سے غائب ہو گئی ہیں انہوں نے فائنل کال کا غیر علانیہ بائیکاٹ کیا ہے۔ مظاہرین کے کسی مزاحمت کے بغیر بلیو ایریا پہنچنے پر وزیر داخلہ محسن نقوی کی پوزیشن بھی کمپرومائز ہوئی ہے ان کے نرم رویئے کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کی جانے لگیں لیکن جب انہوں نے آہنی ہاتھ سے سیاسی لشکر کو منتشر کر دیا گیا تو داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جانے لگے شہباز شریف حکومت نے مظاہرین کو ڈی چوک میں لا کر بٹھانے کی اس غلطی کا اعادہ نہیں کیا جس کا 10 سال قبل نواز شریف، عمران خان اور طاہر القادری کو کسی مزاحمت کے بغیر ریڈ زون میں بٹھانے کا کر چکے تھے اور پھر انہوں نے 126 دن اس غلطی کی سزا بھگتی۔

مجھے ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے عمران خان اور طاہر القادری کو ان کی مشاورت کے بغیر ڈی چوک پر دھرنا دینے کی اجازت دینے پر استعفاٰ دے دیا تھا میں ان ہی دنوں نواز شریف کے ہمراہ سیلاب زدگان کے امدادی کاموں کا معائنہ کرنے کے لئے ان کے ہمراہ حافظ آباد گیا تو عمران خان کے دھرنے کو روکنے کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے کہا کہ ”ہم ماڈل ٹاؤن کا واقعہ دہرانا نہیں چاہتے تھے“ کچھ ایسی صورت حال ”فائنل کال“ کے روز تھی وفاقی حکومت نے آپریشن ”کلین اپ“ میں ممکنہ جانی نقصان سے بچنے کے لئے سنگجانی میں پڑاؤ کی بار بار پیشکش کی لیکن بشری بی بی کی ناں نے نہ صرف پارٹی کو فیس سیونگ سے محروم کر دیا بلکہ ”دم دبا کر بھاگنے“ کا طعنہ بھی سننا پڑا فائنل کال میں عمران خان اور دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی، قانون کی حکمرانی اور چوری شدہ مینڈیٹ کی واپسی تک ڈی چوک نہ چھوڑنے کے بلند بانگ دعوے کیے تھے لیکن ریاستی قوت حرکت میں آنے پر قیادت سمیت ہزاروں کارکنوں نے وہیں اپنی گاڑیاں چھوڑ کر پشاور کی طرف دوڑیں لگا دیں۔ پی ٹی آئی کا پاور شو صرف کے پی کے کارکنوں پر مشتمل تھا ناکہ بندی کی وجہ سے پنجاب، سندھ اور بلوچستان سے ”سیاسی لشکر“ میں شرکت نہ ہونے کے برابر تھی حتیٰ کہ راولپنڈی اور اسلام آباد سے پی ٹی آئی کے کسی کارکن کو ڈی چوک تک نہیں پہنچنے دیا گیا۔

عمران خان کی کال اس حد تک ضرور کامیاب تھی کہ اسے ناکام بنانے کے لئے حکومت کو پورے ملک کو لاک ڈاؤن کرنا پڑا اس دوران پی ٹی آئی نے حکومت کو تگنی کا ناچ نچایا اس لاک ڈاؤن سے روزانہ ملک کو 190 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ البتہ سیاسی لحاظ سے پی ٹی آئی کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی پی ٹی آئی کی جانب سے بار بار کارکنوں کو باہر نکلنے کی کال دینے سے کارکن تھک گئے ہیں فیصلہ کن کال کے نتیجہ میں عمران خان کی رہائی نہ ہو نے سے کارکنوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے فائنل کال کی ناکامی سے ان کو باور کرا دیا گیا ہے عمران خان کو سیاسی دباؤ کے ذریعے رہا کرانا ممکن نہیں۔ عمران خان کے اڈیالہ جیل میں جانے سے ان کی پارٹی پر گرفت کمزور ہو گئی ہے پارٹی پہلے ہی دو تین گروپوں میں منقسم ہے اب بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کی پارٹی میں ”انٹری“ نے پارٹی کو مزید منقسم کر دیا ہے۔

فائنل کال پر وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے تعطل کے بعد وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی سے مزید مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آئے روز کے دھرنوں اور ایجی ٹیشن سے حکومت گرانا ممکن نہیں عمران خان کو رہائی کے لئے مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments