آتش رنگ شجر، سبز بصارتیں اور اسلام آباد کے حجرے
اسلام آباد میں کم و بیش تین عشروں کے باسی اس قدر خشک دسمبر اور اولین سرما کی بارش کے بغیر گرم دنوں کی یخ رُت پہ حیران ہیں کہ موسم اب اپنی شرائط پہ بدلنے پہ مُصر ہے اور ان ہونی ہونے لگی ہے جسے سیانے ”کلائمیٹ چینج“ کہتے ہیں۔
ایسے گدلے دنوں اور اندھی شاموں میں کلیجہ منہ کو آتا ہے، ماضی و حال کے بستے کھلنے لگیں تو اندر برسات کا گُمان ہونے لگتا ہے! بقول محمد اظہار الحق صاحب
” بُریدہ گیسؤوں میں آنکھ کا رستہ نہیں تھا“
اور اسی رنگ برساتی یاد دہانیوں کے طفیل ہم آج دارالحکومت کی ایک نئی بستی دیکھنے چلے۔
جی ہاں وہی شہر آشوب و سُود و زیاں جس پہ ہماری فریفتگی کو تین دہائیاں ہو چکیں اور شیفتگی کے دائرے کا نچلا سرا کبھی نہ ملا! ( نجات کے لئے روز سیاہ مانگتی ہوں )
پنڈی سے مری کا رستہ لیں تو جدید نو آبادیوں اور نئی نئی عمارتوں کے خیرہ چشم ڈیزائن کے جھٹکے سہتے ہی آپ ایک ایسی آبادی کا حصہ بننے لگتے ہیں جس کے چاروں طرف وسیع رقبے سرسبز بصارتوں میں تبدیل ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ قدرے چوڑی پگڈنڈیاں اونچائی کی طرف لے جاتی ہیں اور پھر ناہموار تقریباً کچی سڑک کے دونوں اطراف آتشی۔ ہلکے اور گہرے سبز رنگوں کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ اچانک نیلو نیل آسمان اور تھوڑی دور مری کی پہاڑیوں کے اوپر سے آتے سفید بادل گرم دوپہر میں دل میں ایک
ٹھنڈک کا احساس دلاتے ہیں۔
اب ہم اپنے آپ کو بیگوال کونز یعنی پہاڑیوں میں گھرے بیگوال گاؤں کی حدود میں پاتے ہیں۔ منظر دھیرے دھیرے نیلے آسمان، سبز پہاڑوں اور سفید بادلوں میں سے جھانکتے حجروں ( کاٹج) میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ شیشوں سے پار کنکریٹ کی روڈ، جابجا ایستادہ آہنی گیٹ اور پتھروں سے بنے رہائشی حجرے کسی پینٹنگ کی مانند بتدریج سامنے سے گزرنے لگتے ہیں۔
کچھ دیر میں ہی مچھلیوں سے بھرا تالاب، خزاں کے سرخ اور زرد گلاب، بلیو برش کی سرتاپا بیلوں اور پھل سے لدے سٹرس کے پودے آپ کا سواگت کرتے آن موجود ہوتے ہیں!
یا خدا! ابن آدم کس طور ان آتش رنگ اشجار، سبز بصیرتوں سے بھرے تتلیوں کے مسکنوں، اور زیتون کی مہک سے بھری پاؤں پڑتی مٹی سے بے نیازی اور بے اعتنائی برت سکتا ہے!
کب تک آسمان رنگے بادلوں سے نظر چُرا کے کنکریٹ اور کولتار کی حدت پہ راضی رہ سکتا ہے۔ شاید کبھی نہیں!
مگر دیر ہو جانے کا خدشہ بہرحال موجود رہتا ہے۔
اور اسی کو بھانپتے کچھ زیرک بلکہ حال آشنا روحیں ان حجروں کو آباد کیے ہوئے ہیں۔
نسلوں پُرانے چیلنجز پہ سوچ و بچار کے ُلئے زمین زاد کا زاد راہ پانی کے کنارے گیان کی شکتی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
اپنی جڑوں ( شناخت) اور ”آنول کے رشتے“ پہ یقین کرنے والے جن ذہنوں نے یہ مسکن چُنے اور زمین سے مضبوط تعلق کے حق میں فعال کردار ادا کئیے۔ اُن کی ہمت کی داد نہ دینا زیادتی شمار ہو گی۔
دنیا چاہے ٹیسلا، مسک، اور گلیکسی کے دوسرے سیاروں کا باسی ہونے کے ہزار خواب دیکھے۔ اُمید پیہم ہے کہ نوائے قدرت کے مغنی ہی جرس قافلہ کے امین ٹھہریں گے۔
(اور پس روداد اس کی یوں ہے کہ ہمارے مربی اور اُستاد محترم رئیس آف امر کوٹ پروفیسر رسول بخش کی دعوت پہ ان کے حجرۂ دوم کی زیارت مقصود تھی۔ )
گلابوں، آتش رنگ درختوں اور کاسنی پھولوں کے سنگ سہ پہر ڈھلنے کا پتہ ہی نہ چلا۔
” سُنہری نیند سے کس نے مجھے بیدار کر ڈالا
دریچہ کُھل رہا تھا خواب میں، دیوار کر ڈالا
- لٹ خانہ، دمشق کا قاضی اور اُردو اکادمی کوئٹہ - 18/01/2025
- ہمہ یارانِ جامعہ، تلہ گنگ کا اے حمید اور بدلتا سماج – جنریشن زی - 23/12/2024
- آتش رنگ شجر، سبز بصارتیں اور اسلام آباد کے حجرے - 11/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).