کیا فلسفہ پڑھنے کا فائدہ ہے؟ (مکمل کالم)


مجھے ٹھیک سے یاد نہیں، غالباٴ یہ بات حکیم سنیکا نے کہی تھی کہ انسان کو زندگی میں کسی ایک فلسفی کو اپنا دوست بنا لینا چاہیے، مراد یہ ہے کہ جو فلسفی آپ کو پسند ہو اُس کی کتابیں پڑھنی شروع کر دیں۔ میں نے اِس قول میں کچھ یوں ترمیم کی ہے کہ فلسفے کے معاملے میں بندے کو دل پھینک ہونا چاہیے یعنی کسی ایک فلسفی کے ساتھ نتھی ہونے کی بجائے زیادہ سے زیادہ فلاسفہ کے ساتھ وقت گزارا جائے۔ مجھے فلسفے کی لَت کافی بعد میں لگی، ابتدا میں میرا خیال تھا کہ فلسفے کے پاس کسی سوال کا واضح اور ٹھوس جواب نہیں، لیکن بعد میں پتا چلا کہ فلسفے میں جوابات سے زیادہ سوالات کی اہمیت ہوتی ہے۔ فلسفے میں ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ہر نظریے پر سوال اٹھایا جاتا ہے، کسی بات کو استثنا حاصل نہیں ہوتا، حتّیٰ کہ اُن چیزوں کا بھی ثبوت مانگا جاتا ہے جو ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور کانوں سے سُنتے ہیں۔ کسی دعوے کو محض اِس لیے درست تسلیم نہیں کر لیا جاتا کہ سالہا سال سے لوگ اُس پر یقین کر رہے ہیں۔ بارِ ثبوت فلسفی پر ہوتا ہے، ہر مفروضے کو اُس نے ثابت کرنا ہے، اگر کوئی غریب کہہ دے کہ سورج لاکھوں برس سے طلوع ہو رہا ہے لہذا کل بھی طلوع ہو گا تو سارے فلسفی لٹھ لے کر اُس کے پیچھے پڑ جائیں گے کہ اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل بھی طلوع ہو گا! اور ایسے فلاسفہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے دو جمع دو چار جیسے مُسلَّمات کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور کہا کہ چونکہ یہ ساری جمع تفریق ہمارے ذہن کی اختراع ہے اور ذہن کا کوئی بھروسا نہیں کہ کب کیا سوچ لے لہذا ثابت نہیں ہوتا کہ دو جمع دو چار ہی ہوتے ہیں، ممکن ہے کسی اور کائنات میں یہ چھ ہو جائیں۔ ذرا ذہن کی بھی سُن لیں۔ ایک صاحب فرماتے ہیں کہ یہ جو دنیا ہمیں نظر آتی ہے دراصل یہ ویسی نہیں، یعنی ممکن ہے کہ یہ ویسی ہی ہو جیسی نظر آتی ہے لیکن ضروری نہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک شخص کی دنیا دوسرے سے مختلف ہو کیونکہ ایک آدمی کا دماغ اُسے دنیا کا جو رنگ دکھاتا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ رنگ دوسرے آدمی کو سرے سے دکھائی ہی نہ دے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ غلط ہو اور ہم سچ مچ کی دنیا میں سچ مچ ہی جی رہے ہوں، جس کا امکان ہے بھی اور نہیں بھی۔ لیکن ٹھہریے۔ ایک فلسفی کی اِس سے بھی تسلیٰ نہیں ہوتی اور وہ مردِ عاقل اِس کائنات کے بارے میں ہی سوال اٹھا دیتا ہے کہ آخر یہ وجود ہی کیوں رکھتی ہے۔ اِس لمحے انسان سوچتا ہے کہ ’خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں! ‘

فلسفے کے یہ سوالات بے حد دلچسپ ہیں لیکن فلسفہ فقط اِن سوالات کے گرد نہیں گھومتا، یہ دیگر بہت سے مسائل کا بھی احاطہ کرتا ہے جن کا تعلق ہماری عملی زندگی سے ہے جن میں سے ایک بنیادی مسئلہ اخلاقیات کا ہے۔ کیا زندگی اعلیٰ اخلاقی معیار کے مطابق گزارنی چاہیے؟ یہ اخلاقی معیار کیا ہے؟ اور کیا ایسی زندگی مسرت کی ضمانت بھی دیتی ہے؟ اور پھر یہ مسرت کیا ہے؟ کیا اِس ضمن میں ہر انسان کے لیے یکساں معیار اور پیمانہ مقرر کیا جا سکتا ہے؟ یہ سوالات صدیوں سے انسان کا پیچھا کر رہے ہیں، اور ایسا نہیں ہے کہ فلاسفہ نے اِن کے جوابات فراہم نہ کیے ہوں، ارسطو، کانٹ، سپینوزا، نیطشے اور رسل وغیرہ نے اِن سوالوں پر خاصی بحث کی ہے لیکن آخری تجزیے میں اِن سب کو پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے آپس میں لڑنے بھڑنے کے باوجود یہ تمام فلسفی اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور اِن میں سے کوئی بھی غلط نہیں۔ اسی کے ساتھ فلسفے کا ایک اور بنیادی سوال بھی جُڑا ہوا ہے کہ آخر زندگی ہے کیا؟ ایک فلسفی کی نظروں میں غم کا دریا ہے جبکہ دوسرے کے خیال میں سعی لا حاصل ہے۔ فلسفے کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کسی سوال کے جواب سے آپ کی تشفی نہ بھی ہو تو آپ اُس موضوع پر مختلف فلسفیوں کے افکار پڑھ کر اپنی رائے ضرور قائم کر سکتے ہیں، بعض اوقات کسی فلسفی کا کوئی قول آپ کے دل کو چھُو جاتا ہے جس سے آپ کی زندگی بدل سکتی ہے۔

فلسفے کی حدود کا تعین کرنا مشکل ہے۔ فلسفی سائنس میں منہ مارتے ہیں، مذہب کے مقدمے کی پڑتال کرتے ہیں، تصور خدا پر بحث کرتے ہیں اور فنونِ لطیفہ کا تعین بھی کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ حسن کا معیار کیا ہے، آرٹ کو کیسے پرکھا جائے، خدا کے وجود پر دلائل میں کتنا وزن ہے اور سائنس کی حدود کیا ہیں۔ تاہم میرے نزدیک فلسفے کی سب سے زیادہ افادیت سیاسیات میں ہے۔ فلسفے کی ایک شاخ پولیٹیکل فلاسفی کہلاتی ہے، یہ ریاست اور سیاست کے علم کے گرد گھومتی ہے۔ فرد کا ریاست سے کیا رشتہ ہے، سوشل کنٹریکٹ کیا ہے، جمہوریت کیا ہے، شخصی آزادی کی کیا حدود ہیں، ریاست کی اتھارٹی کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے، اکثریت کی حکومت کا کیا تصور ہے، انصاف پسند حکمران کیسا ہوتا ہے، معاشرہ کیسے تشکیل پاتا ہے، انفرادی معاملات میں ریاست کی مداخلت کی کیا حد ہے، وغیرہ۔ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات فلسفیوں نے نسبتاٴ زیادہ واضح انداز میں دیے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے نظام اُن سیاسی اصولوں کی بنیاد پر وضع کر کے کامیابی سے چلا لیے ہیں جو اصول صدیوں پہلے یونانی فلسفیوں نے طے کر دیے تھے اور جو بعد میں وقتاٴ فوقتاٴ مزید بہتر ہوتے گئے۔ بدقسمتی سے ہم ابھی تک یہ اصول طے نہیں کر سکے، اسی لیے ہمارے ہاں سب سے زیادہ یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ہمارے مسائل کا حل کیا ہے۔ اِس سوال کا بہترین جواب یہی ہے کہ ہمارا کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جو لایَنحَل ہو یا دنیا کے لیے انوکھا ہو، دنیا نے ہر موضوع پر تحقیق کی ہوئی ہے، ہمارا کام صرف اُس کو پڑھ کر نقل کرنا ہے۔

اِس سے پہلے کہ میں موضوع سے ہَٹ جاؤں، فلسفے پر واپس آتے ہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ مستقبل میں فلسفے کا علم مزید پیچیدہ اور دقیق ہو جائے گا کیونکہ مصنوعی ذہانت کے دور میں پرانے تصورات فرسودہ ہو جائیں گے اور اگلی صدی تک ہم ایسے اچھوتے مسائل کا سامنا کر رہے ہوں گے کہ جن سے نمٹنے کے لیے شاید ہمیں فلاسفی کی ایک نئی شاخ دریافت کرنی پڑے۔ نہ جانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ آنے والا دور مزید خطرناک ہو گا لیکن شکر ہے کہ اُس وقت ہم زندہ نہیں ہوں گے۔ یہ موت بھی کیسی نعمت ہے، ایک اور فلسفی کی بات یاد آ گئی جس نے کہا تھا کہ ہم فانی انسانوں کا ایک وقت مقرر ہے، موت سے مفر ممکن نہیں، تمام انسانوں کی زندگیوں کا سانچہ ایک سا ہے، کوئی برسوں بھی جی لے زندگی سے دائمی مسرت کشید نہیں کر سکتا، ہم چاہے اپنی زندگی کو طویل بنانے میں کامیاب ہو جائیں لیکن ہم اُس وقت کو کم نہیں کر پائیں گے جو ہماری موت کے بعد ہو گا کیونکہ موت کے بعد عدمِ وجود کی ’کیفیت ہر کسی کے لیے یکساں ہوگی‘ ۔ بے شک یہ بات ایک حقیقت ہے لیکن فلسفے کا اگر کوئی منفی پہلو ہے تو وہ یہی ہے کہ بسا اوقات یہ انسان کو اِس قدر خوفناک reality check دیتا ہے کہ بندے کو زندگی بے معنی لگنے لگتی ہے، اور زندگی کے معنی کیا ہیں، یہ کوئی فلسفی آج تک نہیں بتا سکا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 570 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments