سلمان رشید، کچھ باتیں کچھ یادیں
جمعہ، 11 اکتوبر 2024
شام پاچ بجے
لاہور
گزشتہ سفرِ لاہور اس وقت خاص بن گیا جب میرے پسندیدہ ترین تحقیقی مصنف سلمان رشید صاحب سے ملاقات کا موقع ملا۔
سلمان رشید اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے تحقیقی سفرنامہ نگار ہیں جن کے قدموں کے نشانوں سے وطن عزیز کا شاید ہی کوئی گوشہ محفوظ ہو گا۔ آپ دس سے زائد انگریزی کتب کے مصنفین ہیں جن میں آپ کے کئی بہترین اخباری مضامین شامل ہیں۔ یہ کتابیں یونیورسٹیوں سے لے کر سفارت خانوں تک ہر جگہ نظر آتی ہیں۔
آپ نے شمال کی وادیوں سے لے کر پنجاب کے دریاؤں، سندھ کی درگاہوں اور بلوچستان کے ویران ریلوے اسٹیشنوں تک کا سفر کیا اور انہیں اپنی خوبصورت تصاویر کے ساتھ کتب کی صورت میں ہمارے سامنے رکھا جو آُپ کی تحقیق کا نچوڑ ہیں۔
سلمان رشید صاحب کی مشہور کتابوں میں درج ذیل انگریزی کتب شامل ہیں ؛
Deosai: Land of the Giant
The Apricot road to Yarkand
Jhelum: City of the Vitasta
From LandiKotal To Wagah
Sea Monsters and the Sun God: Travels in Pakistan
Salt Range and Potohar Plateau
Gawadar: Song of the Sea Wind
Prisoner on a Bus: Travels Through Pakistan
Between Two Burrs on the Map: Travels in Northern Pakistan Gujranwala: The Glory That Was
Riders on the Wind : Travels through Pakistan
Mithi : Whispers in the sand
Ziarat
سلمان رشید صاحب کو کئی ملکی اور غیر ملکی پلیٹ فارمز پر سراہا گیا ہے اور آپ اب بھی کچھ تعلیمی اداروں میں لیکچر دے رہے ہیں۔
آپ سے ملنے کی خواہش بہت پرانی تھی کیونکہ جب میرے جیسے پالنے میں جھول رہے تھے، تب سلمان رشید صاحب سفر کر رہے تھے۔ سو وہ میرے لیے ایک بہت بڑی آئیڈیل شخصیت ہیں۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے مصنف اور میرے بہت اچھے دوست جناب ظفر عباس نقوی صاحب نے اس ملاقات کا اہتمام کیا جو سلمان رشید صاحب کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ٹھیک پانچ بجے ہم اُن کے گھر پہنچے تو موصوف نے پُرتپاک طریقے سے ہمارا استقبال کیا اور اندر اپنی لائبریری میں لے گئے جو بات کرنے کے لیے میرے نزدیک سب سے بہترین جگہ تھی۔
جگہ جگہ کتابیں اور پیپر بکھرے پڑے تھے، میں نے کچھ وقت لیا اور تمام کتب کو سکین کر کے دو چار چھانٹ لیں جن پہ میری نیت خراب تھی۔
وقت کم تھا سو میں نے تمام تکلفات بالائے طاق رکھتے ہوئے گفتگو شروع کی اور ان سے کچھ سوالات کیے جن کے جواباً انہوں نے کسی دوست کی طرح ہنسی خوشی دیے۔
پہلا سوال تھا کہ اُس دور میں آپ نے بلوچستان اور دور دراز کے سفر کیے جب کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، کیا مشکلات پیش آئیں۔ ؟
انہوں نے بتایا کے یہ جو کتابیں لکھی ہیں، یہ سب ایک ہی سفر میں ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لیے کسی بھی جگہ دو چار بار جانا پڑتا ہے۔ کچھ دفعہ چیزیں ملتی ہیں کچھ دفعہ نہیں۔ وقت نکال کے دوبارہ یا تیسری بار بھی جانا پڑتا تھا۔ ہر قسم کی سواری استعمال کی کیونکہ کئی جگہ پکی سڑک نہیں تھی۔ اور موبائل کا تو زمانہ ہی نہیں تھا، گھر والوں سے رابطہ کبھی کبھی ہوتا تھا۔
میرا سوال تھا کے دریائے سندھ کے پاس کھڑی انڈس کوئین کو آپ نے سب سے پہلے تب دریافت کیا جب وہاں راستے بھی کچے تھے اور اس کی تاریخ بھی آپ ہی کے توسط منظرِ عام پر آئی، تو یہ سب آپ تک کیسے پہنچا؟
انہوں نے بتایا کے اس کا مجھے ایک دوست نے بتایا تھا کے ایک بیڑی چلتی ہے کوٹ مٹھن کے پاس۔ میں وہاں پہنچا اور پوچھنا شروع کیا یہ کہاں سے آتی ہے۔ ؟
پتہ چلا کے یہ پہلے ستلج کوئین تھا جو ریاست بہاولپور کے نوابوں کی ملکیت تھا۔ اسی طرح مقامی لوگوں سے کافی معلومات ملیں۔ لیکن ہم چوکیداروں یا مقامیوں کی بتائی تاریخ پہ منحصر نہیں کر سکتے، اس کے لیے پھر میں نے پڑھا اور آج سے چالیس سال پہلے مجھے سارا سارا دن لائبریری میں پڑھنا پڑتا تھا تب جا کے معلومات ملتی تھیں، اور آج یہ سب ایک کلک سے مل جاتا ہے۔
میں نے بتایا کہ آپ کا بلوچستان کی چھپر گھاٹی کا سفر میرا پسندیدہ ہے اور میں نے بھی اس پر لکھا ہے۔ میری جین اور اس پورے علاقے پر آپ کی زبردست تحقیق ہے۔ انہیں سبی ہرنائی ٹریک کے حوالے سے آگاہ کیا کہ بحالی کے بعد پھر وہاں بارشوں نے تباہی مچائی تو وہ بند کرنا پڑا۔ اس دور کے بارے میں پوچھا تو سلمان صاحب
کہتے ؛
میں بھی ٹرین پہ گیا تھا خوست تک اور یہ بات ہے مارچ 1987 کی۔
وہاں اسٹیشن ماسٹر مانسہرہ کا تھا۔
مجھے کہتا جی کے تھوڑا آگے زردالو ہے اور چھپر رفٹ ہے۔ میں نے پڑھا تو ہوا تھا اس کے بارے، پوچھا کے کیسے جا سکتا ہوں۔ ؟ کہتا ٹھہرو جیپ کروا کے آپ کو لے چلتا ہوں۔ خیر بیٹھ بیٹھ بیٹھ کے بس ہو گئی جیپ نہ ملی۔ میں نے کہا میں واپس ٹرین سے جانا ہے جی رات نہیں میں رہ سکتا، کرنل صاحب پریشان ہو جائیں گے جنہوں نے مجھے سبی سے روانہ کیا تھا۔
وہ مجھے کہنے لگا کہ ہم ٹرین روک لیں گے، آپ کو لے کر ہی جائے گی ٹرین۔
انہوں نے بندہ بھیجا خوست، پتہ چلا کے ایک ہی جیپ تھی کسی کوئلے کے ٹھیکیدار کی جو وہ لے کر کہیں گیا ہوا ہے۔ وہ نہیں آ سکا، تو چھپر رفٹ رہ گئی۔
وہاں سے سولہ سترہ کلو میٹر تھی بس، میں نہ دیکھ سکا۔
پھر 1993 میں، میں دوسری طرف سے آیا زیارت والی سڑک سے۔ اس زمانے میں کوئی خطرہ نہیں تھا، پرسکون علاقہ تھا۔ میں تو ایویں ہی پھرتا رہتا تھا، بیگ پیک اٹھایا اور نکل گیا۔
یہاں میں نے پوچھا کے وہاں کہیں آُپ کی پوسٹنگ ہوئی؟ تو بتلایا کے میری ساڑھے چھ سالہ فوج کی نوکری صرف پشاور اور کھاریاں تک محدود رہی ہے، اس کے علاوہ کہیں پوسٹنگ نہیں ہوئی۔
پھر میں نے انہیں کچھ تصاویر دکھائیں اس گھاٹی کی اور اس دوران انہوں نے پوچھا کے آپ نے تصویریں دیکھنی ہیں خوست کی؟
اور ہم دونوں نے اثبات میں سر ہِلا دیا۔
میرا جواب سن کے انہوں نے لیپ ٹاپ پہ اپنے پرانے البم کھول لیے ۔ مجھے ریلوے اسٹیشن ”خوست“ کی تصویر دکھاتے ہوئے بولے کہ اب یہ عمارت ختم ہو چکی ہے لیکن اس کی کئی تصاویر میرے پاس محفوظ ہیں۔ ایک اور بلوچی بزرگ کی زبردست سی تصویر دکھائی جن کے چہرے پر عمر رفتہ کی کہانیاں پڑھی جا سکتی تھیں، کہنے لگے کے اس بندے نے ہمیں چھپر رِفٹ اور دور و نزدیک کے بارے میں کافی کچھ بتایا تھا۔
ان کے ذخیرے میں کافی ایسے مقامات کی تصاویر محفوظ ہیں جو اب صفحہ ہستی سے بھی مٹ چکے ہیں۔ یہ واقعی اپنے آپ میں ایک اعزاز ہے۔
لکھنے کے حوالے سے میں نے پوچھا ”آج کے دور میں تحقیق کے بہت سے ذرائع دستیاب ہیں لیکن آپ کے شروعاتی دور میں یہ سب نہیں تھا، پھر آپ معلومات کیسے حاصل کرتے تھے۔ َ؟“
انہوں نے بتایا کہ ہر دستیاب ذرائع سے معلومات لیتا تھا ( اور آج کل کا ہر اچھا لکھاری ایسا ہی کرتا ہے ) ۔ انگریزی کتب جو یہاں کمیاب تھیں وہ باہر سے منگواتا تھا۔ لوگوں باہر سے منگوا لیتا، پُرانے لوگوں سے ملتا، ان کی کہانیاں سنتا اور لائبریری میں بیٹھ کے کتابوں کی ورق گردانی کرتا تھا۔ بہت سی کتابیں پڑھتا تو پھر کہیں جا کے کچھ مواد اکٹھا ہوتا تھا۔
دوسرا یہ کے سُنی سنائی پہ بھی اندھا یقین نہیں کرنا چاہیے اسے کنفرم کرنے کے لیے مطالعہ ضروری ہے۔
پھر ذکر چھڑ گیا میری پسندیدہ جگہ ٹلہ جوگیاں کا۔
سلمان رشید صاحب ان چند لوگوں میں سے ہیں جو اس دور میں ٹِلہ پہنچے جب کوئی اس کے بارے میں جانتا بھی نا تھا۔ انٹرنیٹ پہ ٹلہ کی اولین تصاویر میں سے چند تصاویر اُن کی بھی ہیں۔
میرے اس سوال پر کے ٹِلہ جیسی جگہوں، جن کے بارے میں بہت سی سچی جھوٹی کہانیاں مشہور ہیں، کے بارے میں مستند تاریخی حقائق ڈھونڈنا مشکل نہیں ہو جاتا تھا؟
اُن کا جواب تھا کہ ”اکبر نامے“ میں اس کا ذکر ہے، ”تزکِ جہانگیری“ میں بھی ہے اور انگریزوں نے بھی کچھ لکھا کے کیا حالات تھے وہاں کے اس سے کچھ نہ کچھ پتہ چل جاتا ہے۔
اور ایک بات بتاؤں، جب تک یہاں ٹی وی نہیں پہنچا تھا تو لوگوں کے پاس واقعی سینہ گزٹ موجود تھا۔ مثلاً 1973 یا 74 کی بات ہے جب میں کھاریاں میں پوسٹڈ تھا (موصوف پاک فوج میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں ) ، تو ہم دو لفٹین ٹلہ جوگیاں اور روہتاس گئے۔ ہم وہاں قلعے پر پہنچے تو سر پہ لکڑیاں اٹھائے ایک بابا ملا، ہم نے اپنا تعارف کروایا۔ ان سے گپ شپ کی تو پتہ چلا کے وہ خود بھی فوج میں تھے اور پہلی جنگ عظیم لڑی ہوئی تھی۔
انہوں نے دو باتیں ہمیں بہت کمال کی بتائیں کے قلعہ روہتاس کا مرکزی دروازہ اصل میں ”زحل دروازہ“ ہے جسے اب سُہیل دروازہ کہتے ہیں۔ اور اس کا نام زحل اس لیے ہے کہ جب یہ تعمیر ہو رہا تھا تو زحل سیارہ بالکل اوپر تھا۔ آج کل زحل صبح کے وقت اوپر ہوتا ہے۔ اب وہاں دفن کسی پیر کا نام سہیل شاہ ہے تو دروازے کا نام بھی وہی رکھ دیا ہے۔ کسی ایک نے سہیل لکھا تو باقیوں نے بھی تحقیق کیے بغیر یہی لکھ دیا۔
میں نے اپنی کتاب ”واہگہ سے لنڈی کوتل تک“ میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔
ابھی حال ہی میں یہ چیز جب میں نے ٹویٹر پر ڈالی تو ایک بھارتی حساب دان نے تحقیق کر کے مجھے بتایا کے 1543 میں اُن مہینوں میں زحل واقعی اوپر تھا، اور یہ وہی وقت ہے جب یہاں تعمیرات کی جا رہی تھیں۔
تو آپ دیکھیں کے بابے کو چار، ساڑھے چار سو سال پرانی بات بھی یاد تھی۔
دوسری بات یہ بتائی کے جسے اب شاہ چاند ولی گیٹ کہتے ہیں یہ اصل میں ”اِندر کوٹ دروازہ“ ہے اور پہلے قلعہ صرف اسی کے اندر والا تھا، اور آپ تاریخ پڑھ لیں کہ شیر شاہ سوری جب اسے بنانے کا حکم دے کر گیا تھا تو ایک بار ہی یہاں آیا۔
جِسے بڑے میاں اندر کوٹ دروازہ کہ رہے تھے وہی مرکزی دروازہ تھا اصل میں۔ چونکہ شیر شاہ نے یہاں بیس ہزار فوج رکھنی تھی تو اسے یہ چھوٹا محسوس ہوا سو اس نے اسے وسیع کر دیا تاکہ بیرکیں بنائی جا سکیں۔ پر تعمیر کے بعد وہ مر گیا۔
آپ یہ دیکھیں کے یہ پیر (چاند ولی) کدھر سے آ گیا؟
یہ سب ان لوگوں کی قبریں ہیں جو وہاں کرنل یا میجر لیول کے لوگ تھے۔ تعمیر کے دوران کسی پہ پتھر گر گیا تو کوئی بیمار ہو کے مر گیا۔
اس بیچ مجھے خیال آیا کے اپنے شہر خان پور میں موجود بی بی مائی صاحبہ (دادی نواب صادق محمد عباسی پنجم) کے تعمیر کروائے اس لاوارث مقبرے کے متعلق پوچھ لوں جس کی تعمیر کا سال وہاں کسی کو نہیں معلوم۔ انہیں تصاویر دکھائیں اور کچھ تاریخ بتائی۔ کہنے لگے کے یہ تو انیسویں صدی میں تعمیر کیا گیا لگتا ہے اور یہ 1850 کے آس پاس بنایا گیا ہو گا۔ اتنا تو مجھے اندازہ تھا کے وہ مقبرہ لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پرانا ہو گا، لیکن سلمان صاحب کی ماہرانہ رائے سے فائدہ اٹھانا بھی ضروری تھا۔
اگرچہ بہت سی باتیں ابھی رہ گئیں لیکن تھوڑے کو بہت جانتے ہوئے یہ چند باتیں اس کے گوش گزار کر رہا ہوں،
یہ ایک بہترین شام تھی جس کی یادیں میرے ساتھ دیر تلک رہیں گی۔
- مقبرہ بی بی مائی صاحبہ - 15/12/2024
- سلمان رشید، کچھ باتیں کچھ یادیں - 11/12/2024
- خان پور کا تاریخی و ثقافتی ورثہ - 13/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).