مدرسہ رجسٹریشن: فرسٹریشن کا شکار
یوں تو دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ گزشتہ سات دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے۔ ہر سیاسی حکومت کے درمیان مدارس کے پانچ معروف وفاق کے سربراہان کے مذاکرات بھی چلتے رہے۔ لیکن مستحکم اور پائیدار حل نہ نکل سکنے کے باعث، طرفین کی جانب سے مختلف اسباب و وجوہات رکاوٹ کا باعث بنی رہی ہے۔ حالیہ دینی مدارس رجسٹریشن کا معاملہ بھی کچھ اسی نوعیت کا سامنے آیا۔
پاکستان کے سب سے معروف دینی مدارس وفاق جو کہ دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے اور اس وفاق سے جڑے پورے پاکستان، آزاد کشمیر پر مشتمل ہزاروں کی تعداد میں مدارس موجود ہیں۔ اسی دینی وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سرپرست اعلیٰ اور جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن صاحب سے حکومت نے 26 ویں ترمیم پر مشاورت کی تو مدارس کے تحفظ کے لیے سوسائٹی ایکٹ کی 21 ویں شق پر بھی حتمی رائے قائم ہوئی اور بل تیار ہوا۔ جسے اتفاق رائے کے بعد قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور کر لیا گیا، تاہم صدر پاکستان کی جانب سے بل پر دستخط نہ کرنے اور اعتراض لگا کر واپس حکومت کے پاس بھیج دیا گیا۔ اعتراضات یہی پیش کیا جا رہا ہے کہ جب ایک بل دو ایوانوں سے منظور کر لیا گیا ہو تو پھر صدر کی جانب سے اعتراض بے معنی سا لگتا ہے۔ اگر اعتراضات کو درست مان لیا جائے تو بات وزارت قانون اور وزیر تک جائے گی کہ آخر ایسا سقم کیسے رکھا گیا کہ وہ باعث اعتراض بن گیا اور اگر باعث اعتراض تھا، تو بل دونوں ایوان سے کیسے منظور ہو گیا۔ بہرحال یہ ایک سوال تو بنتا ہے جس کا جواب حکومتی نمائندے ہی بہتر طور پر دے سکتے ہیں۔
طریقہ کار کے مطابق وزیر اعظم آفس ہو یا ایوان صدر، دونوں جگہ طریقہ کار ایک ہی ہے کہ اگر وزیر اعظم پاکستان یا پھر صدر مملکت کو کسی بل / درخواست یا مسئلہ پر اعتراض لگانا مقصود ہو تو پھر ان دونوں ہی اہم مقامات پر موجود وزارت قانون کے سینئر و جونیئر افسران کے پاس سے فائل پر بالترتیب نوٹ بنایا جاتا ہے اور اس طرح قانونی نقطہ نظر کی بنیاد پر کہیں سقم پا کر عدم جواز کے نکات لکھ کر کر جہاں سے فائل چلتی ہے وہاں واپس بھیج دیتے ہیں۔ اس طرح رد قبول/ مسترد/ قانونی سقم کا فارمولہ سامنے آ جاتا ہے۔ اعتراض لگانا اور دور کرنا گویا کہ ایک فنی عمل ہے جو ایک ماہر قانون افسر ہی لگا سکتا ہے۔ لیکن اسے درست کرنے کا اختیار بھی حکومت اور ان ہی اداروں کے پاس ہی ہوتا ہے۔ اس عمل میں تاخیری حربوں کو بھی ایک اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ معاملہ ٹھنڈا ہو جانے پر پھر رد و بدل کی کہانی چلنے لگتی ہے۔
ایک فریق کی جانب سے یہ اعتراض بھی سامنے آیا ہے کہ حکومت ہمارے مدارس کو زبردستی وزارت تعلیم کے تحت رجسٹرڈ کرانا چاہتے ہیں جو کہ ایک بیرونی ایجنڈا لگتا ہے۔ تاکہ مستقبل بعید میں ان مدارس کے مالی معاملات اور ان کے نصاب میں در و بدل سے لے کر ہر قسم کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے۔ ان خدشات، تحفظات میں کتنی صداقت ہے اور کتنا مفروضہ، یہ تو معلوم نہیں۔ ممکن ہے وقت آنے پر ساری بات کھل جائے۔
دوسری جانب میڈیا پر دینی مدارس کے دو گروپ آمنے سامنے آ گئے جو کہ نہیں آنے چاہیے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ معاملہ دونوں طرف کے لیے سنجیدہ تھا۔ ہر کسی کو اپنے تئیں، اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے۔ ایک کی خواہش وزارت تعلیم سے اور دوسرے کی وزارت صنعت میں سوسائٹی ایکٹ سے رجسٹرڈ ہونے کی ہے۔ اب کس کی بات کتنی مستحکم ہے اور کسی کی کتنی کمزور، اس کا ادراک ہر پاکستانی شہری تو یقیناً ہر گز نہیں کر سکتا ہے۔ البتہ حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک مرتبہ پھر سب کو ایک ساتھ بٹھا کر اس قضیہ کا حل نکالا جاتا۔
میرا خیال یہ ہے کہ جنہوں نے سوسائٹی ایکٹ قانون کا مطالعہ نہیں کیا وہ کم از کم سوسائٹی ایکٹ کے قانون کو وزارت صنعت میں کیوں شامل کیا گیا ہے کے بغیر ضرور ایک مرتبہ مطالعہ فرما لیں۔ امید ہے کہ انہیں مثبت معلومات بھی مل سکے گی۔ دوسری بات جنہیں کسی بھی حکومت کے ایگزیکٹیو آرڈر اور کیبنٹ سے منظوری کا طریقہ کار اور اس کی اہمیت و حیثیت کا معلوم نہیں ہے تو وہ بھی کسی قانون کے ماہر سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ تاکہ دونوں رجسٹریشن کے طریقہ کار سمجھا جا سکے۔
میں یہاں سوسائٹی ایکٹ کے بارے میں انتہائی مختصر اور اہم نکات کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ سوسائٹی ایکٹ جو کہ چیریٹی ایکٹ بھی کہلایا جاتا ہے۔ جس کے بنیادی مقاصد میں کمیونٹی کی ترقی، فنی اور ثقافتی ورثہ کا فروغ، غربت کی روک تھام، صحت و زندگی کے بچاؤ کی خدمت، میں تعلیم و تعلم کا فروغ، مطالعاتی سرگرمیاں، مذہبی و ملی ہم آہنگی کا فروغ، ماحولیات کا تحفظ اور ضرورت مندوں کی مدد و تعاون وغیرہ شامل ہیں۔ ان مقاصد کے پیش نظر ایسے اداروں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے جیسا کہ رفاہی ادارے، سماجی تنظیمیں، مساجد، گوردوارے، ٹیمپلز، گرجا گھر، لائبریری، تعلیمی ادارے، ادبی و مذہبی انجمنیں، فلاحی اور رفاہی امور کے دیگر شامل ہوسکتے ہیں جن کا بنیادی مطمح نظر ان اداروں سے پیسہ کمانا یا بزنس کرنا نہیں بلکہ بغیر کسی مفاد و غرض کے تعاون کرنا ہوتا ہے اور تعاون حاصل کرنے کی کئی مالی صورتیں جیسا کہ عطیہ، زکوٰۃ و خیرات کی وصولی ہو سکتی ہے۔
اب ایسے اداروں کو رجسٹرڈ کیسے کرنا ہے اور اس کے طے شدہ اصول و ضوابط اور طریقہ کار کتنے ہیں؟ جسے مکمل سمجھ کر قبول یا رد کیا جا سکتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق پاکستان میں خود دینی مدارس سے ہی وابستہ کئی اہل علم حضرات نے سوسائٹی ایکٹ کے تحت تعلیمی، فلاحی اور رفاہی ادارے قائم کیے ہیں اور وہ بہت اچھے انداز میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ادارہ ان شرائط و تفصیلات پر پورا نہیں اتر سکے گا یا پابندی نہیں کرے گا یقیناً اس کی رجسٹریشن منسوخ کردی جاتی ہے۔
موجودہ وزارت تعلیم کا دینی مدارس رجسٹریشن کا ادارہ ( ڈائریکٹوریٹ جنرل مذہبی تعلیم) جو کہ 2020 میں ایگزیکٹیو آرڈر اور کیبنٹ کی منظوری سے عمل میں لایا گیا ہے۔ لہذا ایسے اداروں کے وجود کی ایک حد تک تو قانونی گنجائش تو ہے۔ اگر ان اداروں کو باقاعدہ قانونی بل کی صورت دی جائے تو یقیناً ایک مستحکم عمل ہو گا جو کہ ایکٹ کہلائے گا۔ لیکن میری معلومات کے مطابق ایسا ہونا وفاقی حکومت کے لیے ممکن نہ ہو سکے گا کیونکہ پہلے سے رجسٹریشن کا باقاعدہ ایک قانون موجود ہے جو کہ سوسائٹی ایکٹ کہلاتا ہے۔ لہذا ایسے اداروں پر فوری طور پر ایسا اعتراض کرنا، نامناسب اور کمزور عمل ہو گا کہ ایسے اداروں کی قانونی حیثیت کمزور ہوتی ہے کیونکہ یہ ایکٹ کے تحت نہیں ہوتے ہیں اور یہ مستقل حل نہیں، آگے نہیں چل سکے یا کوئی اور حکومت آئے گی اور ختم کردے گی۔ یہ خدشات، تحفظات اور ابہامات اپنی جگہ پر، لیکن بہرحال ایسے اداروں کے قیام کے لیے استحکام ضروری ہوتا ہے۔
لیکن جب ہم ماضی جھروکوں سے جھانکتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایگزیکٹیو آرڈر سے دینی مدارس کے معاملات پہلے بھی چلتے رہے ہیں۔ جیسا کہ دینی مدارس وفاقات کو حاکم وقت جنرل ضیاء الحق نے آخری درجہ کی سند عالمیہ کے بدلے ایم اے اسلامیات/ عربی کا مساوی قرار دیا اور اس کا اختیار اس وقت کی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو حاصل ہوا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور پرویز مشرف کے دور حکومت میں وزیر مذہبی امور ڈاکٹر محمود احمد غازی کی جانب سے جب باقاعدہ 2001 میں ایک آرڈیننس لایا گیا جس میں مدارس رجسٹریشن کی شق کے علاوہ باقاعدہ پاکستان کے تمام دینی مدارس کو ثانوی عامہ و خاصہ، عالیہ اور عالمیہ تک تمام درجات کی اسناد کا معادلہ کی بھی واضح شق شامل کی گئی تھی۔ لیکن اس وقت چونکہ پرویز مشرف سے اختلافات کے سبب تمام ہی مکاتب فکر کے علمائے کرام اور دینی وفاقات کے سربراہان نے نہ اس آرڈیننس کو اور نہ ہی اس ادارے کو قبول کیا۔ بلکہ پوری شدت کے ساتھ شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ بلاشبہ ان تمام مدارس کے معزز علمائے کرام کی اس ادارے کو قبول نہ کرنے کی بہت سی وجوہات تھی۔ جس کا یہاں ذکر مقصود نہیں۔ لیکن دینی مدارس کو معادلہ جاری کرنے کا وہ اختیار جو کہ جنرل ضیاء الحق کے ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کو ایگزیکٹیو آرڈر کے تحت تفویض کیا گیا تھا اور بعد میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائر ایجوکمشن کی صورت میں باقاعدہ 2002 میں قانونی طور پر تبدیل کر دیا گیا تو وہ معادلہ کا کام جو یونیورسٹی گرانٹ کمیشن ادا کر رہا تھا وہی کام بعد میں بغیر کسی قانونی شق کے ہائر ایجوکیشن کمیشن اب تک جاری رکھے ہوئے ہے۔ جسے سب اہل مدارس اب تک قبول کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ اس کی بھی مستحکم قانونی حیثیت پر اعتراض اور سوال اٹھانے والے اٹھائے ہیں جو وقت کے ساتھ کمزور ہوتے چلے گئے۔
لہذا حکومت کے ساتھ 2019 میں اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اسی تحریری معاہدہ پر عمل کر کے فوری طور پر ڈی جی آر ای کے قیام میں اپنی ہی خواہش کے مطابق بہتر سے بہتر تجاویز پیش کر کے عمل در آمد کروا سکتی تھی۔ لیکن اس وقت کی حکومت نے بھی تیزی دکھائی اور دینی مدارس کے سرپرست مولانا فضل الرحمن صاحب سے سیاسی مخالفت کے باعث اسی ادارے ”ڈی جی آر ای“ کے کاندھے پر بندوق رکھ کر، مدارس رجسٹریشن کے عمل کے بجائے، ترجیحی طور پر نئے دینی مدارس کے وفاقات بنا کر تقسیم در تقسیم کا انگریزی فارمولہ اختیار کیا گیا۔ جس کے بعد اصولی طور پر حکومت ہی کی جانب سے 2019 کے معاہدہ کی خلاف ورزی سامنے آ گئی۔
میں یہ بات بہت پہلے لکھ چکا ہوں کہ دینی مدارس کے وفاقات کی تقسیم در تقسیم کا عمل کوئی نیک شگون نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ اندرونی طور پر مزید اختلافات ہی جنم لیں گے۔ یہ بات دیکھنے میں اور سمجھنے میں کتنی عجیب لگتی ہے کہ غالباً پاکستان میں اب دیوبندیوں کے چار، بریلوی اہلسنت کے پانچ، اہل تشیع کے دو، اہل حدیث کے 2، جماعت اسلامی کا ایک دینی وفاق ہے۔ گویا کہ پاکستان 15 مختلف دینی مدارس کے وفاقات ہیں۔ جو اب حالیہ رجسٹریشن تنازعہ کے بعد مستقل دو گروپ میں سامنے آچکے ہیں۔ اس سارے عمل میں کچھ مذہبی علمائے کرام کی جانب سے باقاعدہ تحریر میں یہ اعتراض سامنے آیا ہے اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے مقابلہ میں نئے وفاقات قائم کرنے ضروری ہوں گے اور موجودہ نئے وفاقات کے ذمہ داران علمائے کرام کو ایک حساس ادارے کے افسر کے کہنے پر راتوں رات، جعلی کاغذی پلندوں کی فائل بنا کر ڈی جی آر ای میں جمع کرا کے نئے وفاقات کے سرٹیفیکٹ جاری کرا دیے گئے۔ کچھ تو ایسے بھی وفاق تھے جن کا زمینی وجود تک نہ تھا اور نہ ہی بعض وفاق کے پاس مدارس تھے اور جب ڈی جی آر ای سے کچھ حضرات نے ڈی جی آر ای کے ذمہ داران سے رابطہ کیا ہمیں وہ تمام رجسٹرڈ دینی مدارس اور وفاقات کی فہرست مہیا کی جائے تو یہ کہہ کر دینے سے انکار کر دیا کہ ہمیں اوپر سے منع کیا گیا ہے۔ جس سے شکوک اور بڑھ جاتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
میرا خیال ہے اب اس الجھن کو ختم ہوجانا چاہیے افہام و تفہیم کے ساتھ اس کا حل نکالنا چاہیے۔ جو کہ دینی وفاق اور مدارس رجسٹریشن وزارت تعلیم کے ماتحت ”ڈائریکٹوریٹ جنرل برائے مذہبی تعلیم“ کرنا چاہتے ہیں انہیں سہولت مل جائے اور جن کی خواہش سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونے کی ہے انہیں بھی سہولت ملنی چاہیے۔ بس تمام وفاقات کو عصری چیلجز کے مطابق اپنے نصاب کو بہتر سے بہتر بنانے کی سعی کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس عمل کا سب سے زیادہ فائدہ ان طلبا ء کو ہی حاصل ہو گا جو معاشی طور پر بھی مستحکم ہو سکیں گے۔ لہذا اب سب دینی وفاقات کو رجسٹریشن کی فرسٹریشن سے باہر نکل آنا چاہیے۔
- مدرسہ رجسٹریشن: فرسٹریشن کا شکار - 13/12/2024
- خود کشی، خواب اور محترم مولانا - 06/11/2023
- عوامی مفاد کے فیصلے رات میں کیوں نہیں ہوتے؟ - 10/12/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).