یونان میں ڈوبنے والے پاکستانی بچوں کا قاتل کون ہے؟
ٹی وی پر کچھ سیکنڈ کی نیوز چلی۔ یونان کشتی حادثہ میں درجنوں پاکستانی لاپتہ۔ تفصیل جاننے کی نہ کسی کو خواہش ہے نہ ضرورت۔ یونان میں موجود پاکستانی سفیر محترم بتا رہے ہیں کہ 47 پاکستانی بچا لئے گئے ہیں صرف پانچ لاشوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ لیکن جو کشتی 14 دسمبر کو لیبیا سے روانہ ہوئی تھی اس میں تو 84 افراد سوار تھے۔ کتنے مر گئے ہیں وہ نہیں بتایا جا سکتا، کیونکہ جن کی لاش نہیں ملی انہیں مردہ تو نہیں کہہ سکتے۔ لیکن وہ زندہ ہیں اس بات کا پتہ تو تب ہی چلے گا جب وہ سمندر سے نکل کر فون کریں گے۔ بچنے والوں نے البتہ بتایا کہ انہوں نے درجنوں ڈوبتے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
یورپین کوسٹ گارڈ بھی تھک چکے ہیں، ہر مہینے کوئی واقعہ ہوتا ہے وہ کس کس کو بچائیں۔ روز روز کے ماتم پر کون آہ و فغاں کرے۔ ویسے بھی ان کا کون سا کوئی نام ہوتا ہے۔ ان کی قبر پر کون سا کوئی کتبہ ہوتا ہے۔ سمندر میں ڈوبے ہیں تو کتبہ کیا ان کی قبر بھی نہیں ہوتی۔ سمندر بھی ان کو اچھال دیتا ہے۔ وہ تو بھلا ہو ان مچھلیوں کا جن کے پیٹ کی یہ خوارک بن جاتے ہیں۔ اب ایسے بے گور و کفن اور بغیر قبر والے مدفون کی موت پر کون اپنی آنکھ نم کرتا پھرے۔ ملک میں پہلے ہی اتنے گمبھیر مسائل ہیں۔ معیشت کو سنبھالیں یا سیاسی استحکام کا سوچیں۔
کیا کہا مرنے والوں میں 18 سال سے کم عمر کے بچے بھی تھے؟ تو کیا ہوا یہ ہمارا مسئلہ تھوڑی ہے۔ یہ وہ ریاست تھوڑی ہے جو بچوں کے حقوق کو سرفہرست رکھے۔ یہ ان بچوں کے والدین کا قصور ہو گا۔ جب پیدا کرلئے تھے تو انہیں پالتے بھی۔ وہ خود گئے تھے اپنی مرضی سے 28 لاکھ روپے سے لے کر 33 لاکھ روپے تک کی رقم دے کر۔ 33 لاکھ روپے ریٹ سن کر البتہ ائر پورٹ پر بیٹھے ایف آئی اے کے اہلکار ضرور پریشان ہو گئے کہ ہم نے تو انہیں دو تین سو ڈالر کی رشوت سے چڑھا دیا تھا۔ ایک دفعہ تو ان کے دل میں بھی خیال آیا ہو گا کہ اب ائرپورٹ سے چڑھانے کا ریٹ بڑھانا ہو گا۔
مرنے والوں کی تو خبر پھر بھی کچھ سیکنڈ چل گئی لیکن بچنے والوں پر کیا بیتی۔ یہ اہم نہیں ہے۔ لیبیا کے کیمپوں میں کیا ہوتا ہے کوئی جاننا نہیں چاہتا۔ کچھ علاقوں میں سرکاری جیلیں ہیں تو کچھ علاقوں میں مسلح گروہوں کے عقوبت خانے۔ جہاں کسی کا قانون نہیں چلتا۔ وہ کئی کئی مہینے جیلوں میں سڑتے ہیں یا اس مافیا کے مہمان بنیں کس کو پرواہ ہے۔ ان ممالک میں پاکستانی سفیر کیا کریں۔ سفارت کاری کریں یا انہیں جیلوں سے چھڑاتے پھریں۔ یہ ان کے اپنے شوق کی چوڑیاں تھیں درد بھی اب وہ خود بھگتیں۔
بچنے والے سناتے ہیں ایجنٹوں نے جس کشتی پر بندوق کی نوک پر بٹھایا۔ اس کا نہ انجن ٹھیک تھا نہ اس کی واکی ٹاکی نہ ہی اس کا کوئی پروفیشنل ڈرائیور تھا۔ تو ایسے غیر قانونی سفر میں اچھی کشتی کون بے وقوف بھیجے گا، کشتی پکڑی گئی تو وہ ان تمام انسانوں سے مہنگی ہے۔ پروفیشنل ڈرائیور پکڑا گیا تو اس کا لائسنس گیا۔ جیل ہوئی وہ الگ۔ تو وہ ایسا ہی کرتے ہیں عموماً انہیں میں سے کسی کو موٹر آن کر کے کشتی اس کے حوالے کر دیتے ہیں کہ پہنچ گئے تو تمہاری قسمت اور ہماری چاندی اور حادثے کا شکار ہو گئے تو پھر تقدیر کا لکھا کون بدل سکتا ہے۔
یونائیٹڈ نیشن کا بچوں کے حقوق کے حوالے سے 20 نومبر 1989 کا ایک کنونشن ہے، 18 سال سے کم عمر کے بچے اگر کسی یورپی ملک میں پناہ کی درخواست دیں تو انہیں ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ اس قانون کا جتنا زیادہ استعمال پاکستانی ایجنٹ مافیا نے کیا ہے کسی اور قوم نے نہیں کیا۔ اٹلی، یونان اور دیگر یورپی ممالک میں شام، افغانستان، عراق سمیت کسی جنگ زدہ ملک کے اتنے بچے نہیں پہنچے جتنے پاکستانیوں نے پہنچا دیے ہیں۔
مانا پاکستان میں انسانی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اور ایسے بیسیوں مزید حادثے بھی پاکستان سے غیر قانونی امیگریشن کو نہیں روک سکیں گے۔ حکومت اس ایجنٹ مافیا کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ یہ سارا کھیل ایف آئی اے کی ناک کے نیچے ہوتا ہے۔ لیکن کوئی ریڈ لائن، کوئی لکیر نہیں کھینچی جا سکتی۔ خدا کی پناہ دہشتگردوں سے لے کر غنڈوں اور بدمعاشوں سے لے کر مافیا ڈانوں تک کا بھی اصول ہوتا ہے کہ وہ عورتوں اور بچوں پر کمپرومائز نہیں کرتے۔ کیا ایف آئی اے افسران اور ہمارے حکام اتنے گئے گزرے ہیں کہ وہ کم از کم اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کے بارے میں ہی زیرو ٹالرینس کی پالیسی بنا لیں۔ ان ایجنٹوں کو پیغام پہنچا دیں کہ بچوں کے معاملے میں کوئی رشوت نہیں لیں گے۔
کیا بچے ریاست کی ذمہ داری نہیں ہوتے۔ کیا انہیں ایسے کسی سفر سے روکنا صرف والدین کی ہی ذمہ داری ہے، کیا ریاست خود محافظ نہیں بن سکتی۔ کیا ان بچوں کی قاتل ایف آئی اے نہیں ہے۔ کراچی ائرپورٹ انتظامیہ نہیں ہے۔ کیا ریاست کے کسی ادارے کے خلاف کسی عدالت میں مقدمہ قائم نہیں کیا جا سکتا۔ کہ یونان میں ڈوبنے والے ان بچوں کو لیبیا تک فلائی کس نے کرایا تھا۔
- ایلون مسک کو برطانوی مسلمانوں سے کیا مسئلہ ہے؟ - 11/01/2025
- یونان میں ڈوبنے والے پاکستانی بچوں کا قاتل کون ہے؟ - 19/12/2024
- مہذب معاشروں میں احتجاج کا طریقہ - 01/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).