ایک جلا ہوا، بدمزہ کیک
پاکستانی سیاست کا منظرنامہ ایک ایسا سرکس ہے جہاں ہر کوئی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے میں مصروف ہے۔ یہاں کے بیشتر سیاستدان ایسے کھلاڑی ہیں جو کھیل کے اصول بدلنے میں ماہر ہیں، لیکن کھیلنا نہیں جانتے۔ ہمارے بعض محترم لیڈر صاحبان کی سیاسی کھیل میں مہارت دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے تمام زندگی اسی کھیل کو کھیلتے ہوئے اپنی زندگی گزار دی ہے۔ ہر کوئی لیڈر بننا چاہتا ہے، کوئی خدمت گار نہیں۔ اور جب کبھی کوئی لیڈر بن بھی جاتا ہے تو وہ بھی خدمت کرنے کے بجائے اس کے ساتھ مل جاتا ہے۔ یہ ہے ہمارے ملک کی سیاست کا حال جس کا روز کا رونا روتے روتے اب در حقیقت رونا ہی آ رہا ہے۔ یہاں کے سیاستدان ایسے ہیں جو عوام کو خواب دکھاتے ہیں اور خود ان خوابوں کی تعبیر بن جاتے ہیں۔ ان کے وعدے ایسے ہیں جیسے کسی نے کہا ہو ”میں تمھارے لیے چاند تارے توڑ کر لاؤں گا“ اور پھر واقعی میں چاند تارے توڑ کر لے آیا ہو۔ خواہ وہ چاند تارے پلاسٹک کے ہی کیوں نہ ہوں یا چندا ماموں دور کی نظم سن کر بہلا دیے جانے والے۔
ہمارے سیاستدانوں کی کارکردگی ایسی ہو گئی ہے جیسے کوئی ٹریفک سگنل پر کھڑا ہو کر ٹریفک کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہو، جبکہ اس کے ہاتھ میں جھنڈی کی بجائے سموسہ ہو۔ وہ بھی کھاتے جا رہے ہیں اور لوگوں کو بھی کھلاتے جا رہے ہیں، لیکن ٹریفک جام ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ ہمارے ملک میں سیاسی استحکام کی تلاش ایسی ہے جیسے کوئی ریگستان میں پانی کی تلاش کر رہا ہو۔ ہر طرف ریت ہی ریت ہے، اور جب کبھی پانی کا سراغ ملتا بھی ہے تو وہ سراب نکلتا ہے۔ یہاں کے سیاستدانوں کی اکثریت اس سراب کو حقیقت بتا کر عوام کو بیوقوف بنانے میں کافی ماہر واقع ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کی کثرت ایسی ہے جیسے کسی شادی میں مہمانوں کی ہوتی ہے، جہاں ہر کوئی اپنی اہمیت کا مظاہرہ کرنا چاہتا ہے، لیکن کھانا کھانے کے وقت سب سے آگے ہوتا ہے۔ یہ جماعتیں بھی ایسی ہی ہیں، الیکشن کے وقت تو بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں، لیکن جب حکومت بنانے کا وقت آتا ہے تو ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہو جاتی ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں کی تقریریں سننے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل ہے۔ لیکن جب عملی طور پر کچھ کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے کسی نے کہا ہو ”اب بتاؤ کیسے اڑتا ہے جہاز“ اور وہ کہیں ”میں نے تو صرف ماڈل بنایا تھا“ ۔
ہمارے ملک میں سوشل میڈیا کی سیاست ایسی ہے جیسے کوئی فیس بک پر اپنی شادی کی تصویریں شیئر کر رہا ہو، جبکہ اصل میں وہ کنوارا ہو۔ یہاں کے سیاستدان بھی ایسے ہی ہیں، سوشل میڈیا پر تو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان کی حیثیت بڑے بڑے سنہرے خواب دیکھنے والے شیخ چلی کی طرح ایک عام شہری سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں انتخابی مہم چلانے کا طریقہ ایسا ہے جیسے کوئی اندھوں کے سامنے رنگین تصویریں دکھا رہا ہو۔ یہاں کے سیاستدان بھی ایسے ہی ہیں، عوام کو خوبصورت خواب دکھاتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام کی آنکھیں بند ہیں اور وہ کچھ دیکھ ہی نہیں سکتے۔ ہمارے ملک میں سیاسی بے صبری کا عنصر ایسا ہے جیسے کوئی مائیکرو ویو میں کیک بنانے کی کوشش کر رہا ہو۔ ہر کوئی فوری نتائج چاہتا ہے، لیکن نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہونا چاہیے۔ ایک جلا ہوا، بد مزہ کیک۔
ہمارے سیاستدان بھی ایسے ہی ہیں، فوری طور پر کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں، لیکن نتیجہ صرف تباہی ہوتی ہے۔ عمران خان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے، جیسے کسی نے کہا ہو ”مجھے ابھی کے ابھی وزیر اعظم بنا دو“ اور پھر جب وزیر اعظم بن گئے تو پتہ چلا کہ یہ کرسی آرام دہ نہیں، بلکہ ایک گرم توا ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی تنازعات کا حل ڈھونڈنا ایسا ہے جیسے کوئی پانی میں آگ لگانے کی کوشش کر رہا ہو۔ یہاں کے سیاستدان بھی ایسے ہی ہیں، ایک مسئلہ حل کرنے کی کوشش میں دس نئے مسئلے پیدا کر دیتے ہیں۔ ان کی کوششیں دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے کوئی چھلنی سے پانی بھرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ہمارے ملک میں میڈیا کی حالت ایسی ہے جیسے کوئی اندھا آدمی دوربین سے دیکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ یہاں کے صحافی بھی ایسے ہی ہیں، حقائق کو دیکھنے کی بجائے اپنی مرضی کی کہانیاں بناتے ہیں۔ ان کی رپورٹنگ دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے کہا ہو ’سچ بولو‘ اور انہوں نے جواب دیا ہو ’کیوں، کیا میں تمہارا نوکر ہوں؟‘ ۔
ہمارے ملک میں ووٹرز کی حالت ایسی ہے جیسے کوئی اندھیرے میں تیر چلا رہا ہو۔ کہیں لگے یا نہ لگے، بس چلاتے جاؤ۔ یہاں کے ووٹر بھی ایسے ہی ہیں، بغیر سوچے سمجھے ووٹ ڈال دیتے ہیں اور پھر پانچ سال تک روتے رہتے ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے کہا ہو ”آپ کو کیا چاہیے؟“ اور انہوں نے جواب دیا ہو ’جو آپ دے دیں ”۔ ہمارے ملک میں سیاسی اصلاحات کی کوشش ایسی ہے جیسے کوئی ٹوٹی ہوئی گھڑی کو ہتھوڑے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ یہاں کے سیاستدان بھی ایسے ہی ہیں، مسائل کو حل کرنے کی بجائے انہیں اور بگاڑ دیتے ہیں۔ ان کی کوششیں دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے کہا ہو“ چلو اس ملک کو بہتر بنائیں‘ ’اور انہوں نے جواب دیا ہو ”ٹھیک ہے، پہلے اسے مکمل طور پر تباہ کر دیتے ہیں“ ۔
ہمارے ملک کی سیاست ایک ایسا تماشا ہے جہاں ہر کوئی اداکار ہے اور کوئی بھی ناظر نہیں۔ یہاں کے سیاستدان، میڈیا، اور عوام سب ایک دوسرے کو دھوکا دینے میں مصروف ہیں، جبکہ ملک کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ اس تماشے کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے کہا ہو ”یہ ملک کیسے چلے گا؟“ اور کسی نے جواب دیا ہو ”چلنے دو، کہیں نہ کہیں تو گر ہی جائے گا“ ۔ یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہی کیوں ہو رہا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے، اگر کوئی اسے سمجھنا چاہے، لیکن اگر وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتا اور صرف سمجھانا چاہتا ہو، تو اس کا علاج تو کسی حکیم لقمان کے پاس نہیں۔ دانائی کی جتنی میراث ہمارے ملک میں با افراط دستیاب ہے، اس کا کچھ حصہ خود ان داناؤں کو لینے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ خود نہیں جانتے کہ اپنی دانائی کے چکر میں پورے ملک کو گھن چکر بنا رہے ہیں۔
ہم کو اس سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتا وفا کیا ہے
- بیلسٹک میزائل پروگرامز پر امریکی متضاد پالیسی - 29/12/2024
- ایک جلا ہوا، بدمزہ کیک - 19/12/2024
- ہر نیا جھوٹ ایک نیا تحفہ - 08/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).