مردم شماری کا ناقص طریقہ کار


مردم شماری سے متعلق پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم نے قومی اسمبلی میں جو اعتراضات اٹھایے ہیں ان کا تعلق صرف مردم شماری کی شفافیت سے ہے چونکہ جن خدشات کا انہوں نے اظہار کیاہے اس کی وجہ صرف اور صرف بد اعتمادی ہے اس لئے انہوں نے نہ تو اپنی خدشات کی کوئی ٹھوس وجہ ظاہرکی اور نہ ہی ان خدشات کے ازالے کا کوئی فارمولہ واضح کرسکیں۔

یہ کہا گیا کہ بعض علاقوں میں ڈیٹا کے اندراج کے لئے کچی پینسل کا استعمال ہوتا ہے لہذا ہر گھرانے کو اس کی مردم شماری کی عملے کو فراہم کی گئی معلومات کی کاربن کاپی مہیا کی جائے۔
کچی پینسل کی استعمال کی الزام کا مطلب یہ ہے کہ گویا مردم شماری کا عملہ یا محکمہ شماریات آگے جاکر ان فارموں میں اپنی مرضی سے ردوبدل کرسکیں گے اور کچھ خاص زبانوں اورصوبوں کی آبادی کو اصل تعداد سےکم دکھایا جائے گا اب سوال یہ ہے کہ ہر گھرانے کو کاربن کاپی مہیا کرنے سے اس مسئلے کا تدارک کیسے ہوسکے گا؟

کاربن کاپی صرف اس صورت میں کارگر ہوتی اگر مردم شماری کے بعد تمام گھرانوں کی تفصیلات انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کی جاتی اور ہرشخص کواس تک رسائی ہوتی جس کی بنیاد پر ہر گھرانے کے لئے یہ ممکن ہوتا کہ وہ اپنے پاس موجود کاربن کاپی اور انٹرنیٹ پر موجود تفصیلات کا ایک دوسرے سے موازنہ کرتے اور اگر کوئی ردوبدل نظر آ جاتا تواس کی نشاندہی کی جاتی۔

مگر اب چونکہ مردم شماری کی مجموعی اعداد وشمار اورتفصیلات کو محکمہ شماریات ہی حتمی شکل دیتی اور کلکولیٹ کرتی ہے تواس میں یہ پتہ کیسے چلایا جا سکے گا کہ کس گھرانے کی تعداد میں کمی بیشی کی گئی ہے۔ اس کاربن کاپی کو لے کر کون یہ معلوم کرسکتا ہے کہ محکمہ شماریات میں ان کی تعداد اسی کاربن کاپی کے مطابق ہے یا نہیں تو اس صورت میں پھر کاربن کاپی کا فائدہ کیاہے؟ محکمہ شماریات اگر واقعی بدنیتی رکھتا ہے تواس کے لئے انہیں کچی پینسل کے استعمال کی کیا ضرورت ہے؟ اعداد وشمار کی کلکولیشن کے وقت وہ پین سے لکھی گئی تفصیلات کے نتائج بھی اپنی مرضی سے مرتب کرسکتے ہیں۔ اس لیے معلوم یہ ہوتاہے کہ اقلیت میں تبدیل کردیئے جانے کے خوف کے شکار ان جماعتوں کو شکوک وشبہات تو ہیں لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ ان خدشات کے اظہار کے لئے انہیں بنیاد کس بات کو بنانا چاہیے اور یہ کہ ان خدشات کے ازالے کی اطمینان بخش صورت کیا ہے۔

لہذا اس وقت مردم شماری میں اصل مسئلہ شفافیت اور لوگوں کی تعداد کا نہیں بلکہ آبادی کے مسائل اور اس کی تفصیلی سماجی حالت کی معلوم ہونے کا ہے اس مقصد کے لئے مردم شماری کے فارم اے کے ساتھ فارم اے ٹو بھی منسلک ہوتا ہے۔ فارم اے میں 12 سوالات کے جوابات حاصل کیے جاتے ہیں جبکہ فارم اے ٹو میں 33 سوالات کے جوابات درکار ہوتے ہیں یہ تمام سوالات آبادی کے مختلف سماجی پہلووں سے موجود کیفیت کو جانچنے کے لئے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے ظاہر ہے سارے ملک کی حالت یکساں نہیں ہے اس لیے فارم اے ٹو کی بنیاد پر ہی مختلف علاقوں کی لوگوں کی مختلف سماجی ضروریات کے لئے منصوبہ بندی کرنا ممکن ہوجاتا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ حالیہ مردم شماری میں اس فارم اے ٹو کو شامل ہی نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے مردم شماری سے حاصل ہونے والی معلومات بہرحال ناقص ہی رہیں گی جبکہ آبادی کے اس ڈیٹا کے حصول کے لئے دوبارہ گھر گھر جاکر تفصیلات اکھٹی کرنے کا انتظام بھی تو نہیں کیا جا سکتا مگر افسوس ہے کہ مردم شماری میں موجود اس بڑے نقص کی ازالے کے جانب نہ تو حکومت متوجہ ہے اور نہ ہی سیاسی جماعتیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).