پاکستان کو اپنا مستقبل بہتر بنانے کے لئے ٹیکنالوجی کی ضرورت
آج کے تیز رفتاری سے ترقی کرتے ہوئے اس دنیا میں قوموں کی ترقی میں ٹیکنالوجی ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ملک ہے۔ لیکن ساختی چیلنجوں کی وجہ سے ٹیکنالوجی میں باقی دنیا سے پیچھے رہ گیا ہے۔ ٹیکنالوجی کو اپنانا محض ایک آپشن نہیں ہے بلکہ یہ ایک ضرورت ہے۔ ٹیکنالوجی ہماری معیشت میں انقلاب لانے، گورننس کو بہتر بنانے اور لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کی طاقت رکھتی ہے۔ تاہم، اس کے لیے جدت، سرمایہ کاری، اور اسٹریٹجک وژن کے لیے قومی عزم کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے آبادی 60 فیصد ان نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کا عمر 30 سال سے کم ہے۔ یہ ڈیموگرافک ڈیورنڈ وطن عزیز کے لئے ایک بے مثال موقع ہے، لیکن ٹیکنالوجی اور تعلیم تک محدود رسائی کی وجہ سے اسے ضائع کیا جا رہا ہے۔ حالیہ تخمینوں کے مطابق، 40 فیصد سے کم پاکستانیوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے، یہ ڈیجیٹل تقسیم نہ صرف عدم مساوات کو برقرار رکھتی ہے بلکہ لاکھوں لوگوں کے لئے علمی معیشت تک رسائی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے، حکومت کو بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو ترجیح دینی ہوگی، جیسے کہ براڈ بینڈ کنیکٹیویٹی کو بڑھانا اور اسمارٹ فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات تک سستی رسائی کو یقینی بنانا۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اس کو حاصل کرنے میں ایک اہم رول ادا کر سکتی ہے، جیسا کہ انڈیا جیسے ممالک میں دیکھا گیا، جہاں ڈیجیٹل انڈیا جیسے اقدامات نے کنیکٹیویٹی کو نمایاں طور پر بہتر بنایا۔
ٹیکنالوجی اقتصادی ترقی کا سنگ بنیاد ہے۔ چین، جنوبی کوریا، اور یہاں تک کہ ہمسایہ ملک ہندوستان جیسے ممالک نے ٹیکنالوجی پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے معاشی عروج کا مشاہدہ کیا ہے۔ تاہم، پاکستان زراعت اور ٹیکسٹائل جیسے روایتی شعبوں پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جو عالمی تکنیکی ترقی میں بہت کم حصہ ڈالتے ہیں۔ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں سرمایہ کاری کسی بھی ملک کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس وقت، پاکستان اپنی جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر خرچ کرتا ہے، جو عالمی اوسط سے بہت کم ہے۔ ٹیک اسٹارٹ اپس کو فروغ دے کر اور انٹرپرینیورشپ کو سپورٹ کر کے، پاکستان کے ٹیکنالوجی کے شعبے کو بہتر بنا یا جاسکتا ہے۔ خصوصی ٹکنالوجی زونز کا قیام اور برآمدات پر مبنی ٹیک صنعتوں کے لیے تعاون جیسے اقدامات درست سمت میں ایک بہترین قدم ثابت ہو سکتی ہیں، لیکن ان کے لیے زیادہ فنڈنگ اور ہموار پالیسیوں کی ضرورت ہے۔
تعلیم کی مضبوط بنیاد کے بغیر کوئی تکنیکی انقلاب ممکن نہیں۔ پاکستان کا تعلیمی نظام، جو کم فنڈنگ اور فرسودہ نصاب سے دوچار ہے، ڈیجیٹل دور کے تقاضوں کے لیے اگلی نسل کو تیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ STEM (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، اور ریاضی) کی تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، اور ڈیجیٹل خواندگی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے ملک کو اپنی تعلیمی پالیسیوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی تکنیکی اداروں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون سے نوجوان پاکستانیوں کو مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور روبوٹکس جیسی جدید مہارتوں کی تربیت میں مدد مل سکتی ہے۔ حوصلہ افزا طور پر، Digiskills۔ pk جیسے ٹیک پر مبنی تربیتی اقدامات نے وعدہ ظاہر کیا ہے، لیکن ان کوششوں کو مزید لوگوں تک پہنچنے کے لیے بڑھایا جانا چاہیے۔
ٹیکنالوجی کے اعتبار سے باقی ترقی یافتہ ممالک کے نسبت پاکستان بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ عالمی ڈیجیٹل معیشت 2030 تک 20 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گی، اور جو قومیں ٹیکنالوجی کو اپنائیں گے وہی ترقی کر پائیں گے۔ ملک کو اپنے پالیسیز پر اصلاحات، انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری، اور مضبوط تکنیکی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کو یکجا کرتے ہوئے ایک جامع نقطہ نظر اپنانا چاہیے۔ آگے کا راستہ آسان نہیں ہو گا، لیکن بہترین پالیسیوں سے ہم ٹیکنالوجی میں آگے جا سکتے ہیں۔ اب عمل کرنے کا وقت ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).