ہندوستان اور فارس پر قبضے کے لیے افغانوں کی جدوجہد
محمد حسن کاکڑ مشہور افغان مورخ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں جو افغان امور پر ایک اتھارٹی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ "افغان، افغانستان، اور ہندوستان اور فارس پر قبضے کے لیے افغانوں کی جدوجہد۔” نامی کتاب انہوں نے دری زبان میں لکھی ہے جس کا پشتو میں ترجمہ سمیع اللہ زیار نے کیا ہے اور اسے تکتو کتاب کور کوئٹہ نے 2012 میں شائع کیا۔ یہ کتاب 110 صفحات پر مشتمل ہے جس میں سیر حاصل کتابیات اور حوالہ جات شامل ہیں
مذکورہ کتاب دو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں لفظ افغان، افغانستان، روہ، پشتونخوا، آریانہ، کافو، کابل، پشتون، پٹھان، پکتیکا، غزنی کے ساتھ ساتھ، فراہ اور غور میں افغانوں کی تاریخ کے علاوہ تاجکوں اور ہندوستان کے ساتھ افغانوں کے تعلقات جیسے موضوعات شامل ہیں۔ کتاب کا دوسرا باب ہندوستان میں افغانوں کی حکومت جس کو مصنف (افغان امپریالزم لکھتا ہے ) اور مغلوں کے ساتھ افغانوں کے تعلقات کے بارے میں بات کرتا ہے۔ اس باب میں پشتون قبائل درانی اور خلجی اور ان کے باہمی تعلقات، اندرونی عداوتوں اور کشمکش، فارس، ہندوستان اور صفوی حکومت کے ساتھ افغانوں کے تعلقات، احمد شاہ ابدالی کے دور میں افغانوں کی لشکر کشیاں اور موجودہ افغانستان کے ظہور پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
افغانستان ایک قدیم ریاست ہے، اس لیے اس کا نام مورخین کے درمیان موضوع اختلاف کا باعث رہا ہے۔ مختلف مورخین نے اسے مختلف ناموں سے پکارا ہے جیسے افغانستان، روہ، خراسان اور پشتونخوا۔ اس کے دارالحکومت کابل تجارت کا اہم ترین مسکن رہا ہے کے نام کو جسے ایک چینی مورخ کافو کہتا ہے پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
لفظ آریانہ سے بحث کو شروع کرتے ہیں مصنف محمد حسن کاکڑ، ایچ ایچ ولسن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ افغانستان ہند (ہندوستان) اور فارس (فارس) کے درمیان ایک علاقہ تھا جس کی وجہ سے یونانی مصنفین اسے آریانہ کہتے ہیں۔ جبکہ فارس میں یہ علاقہ (Airya) یا (Airyana) کہلاتا تھا۔ جبکہ لفظ (آریہ) سنسکرت کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے معزز لوگوں کی جگہ اور عظیم ریاست۔ جغرافیائی طور پر، اس کی سرحدیں مشرق میں سندھ کے ساتھ، جنوب میں بحر ہند کے ساتھ، مغرب میں کرمان اور یز کے ساتھ اور شمال میں پیراپامیوس (قدیم باختریا) کے ساتھ تھیں۔ اس کے علاوہ، آریہ کا لفظ سٹاربو (ایک یونانی مورخ، جغرافیہ دان، اور فلسفی) نے بھی اپنی تحریروں میں استعمال کیا۔ جبکہ ایران کا لفظ سب سے پہلے ساسانیوں کے دور میں استعمال ہوا۔
کابل دنیا کے قدیم شہروں میں سے ایک رہا ہے اگرچہ اس کے قیام کا صحیح وقت معلوم نہیں ہے۔ یہ چین، ہندوستان، ایشیا اور افریقہ کے درمیان ایک بڑا تجارتی راستہ تھا۔ جناب کاکڑ لکھتے ہیں کہ سنسکرت میں کابل کو (کبھا) کے نام سے لکھا گیا ہے، یونان میں اسے (کوفن) یا (خوفس) کہا جاتا تھا جب کہ فارسی میں اور ارسطو نے اس کا نام (Khoaspes) لکھا ہے۔ اس کے علاوہ 7 ویں صدی میں ایک چینی مورخ زبیر چی شوئی چونگ نے کابل کو (Kaofu) کہا ہے۔ کاکڑ کے مطابق، کابلستان ایک چھوٹی ریاست تھی جو بامیان سے قندھار، بولان سے کوئٹہ تک کے علاقوں پر مشتمل تھی اور اس میں سوات، غزنی، پشاور، بنوں اور ملحقہ علاقے شامل تھے۔ علاوہ ازیں معروف افغان مورخ احمد علی کوہزاد، استاد میر غلام محمد غبار اور فخر الدین گورگیانی کا بھی خیال ہے کہ خراسان اسلام سے پہلے موجودہ افغانستان کا نام تھا۔
جہاں تک خراسان کے لفظ اور تاریخ کا تعلق ہے اس کا مطلب وہ جگہ ہے جہاں سورج طلوع ہوتا ہے جس سے مشرقی سرزمین کا مطلب اخذ کیا جاتا ہے A Hurat لکھتے ہیں کہ خراسان بدخشاں، سیستان، بلخ، ہرات، تخارستان اور فوشانگ (جو اس وقت چین کا ایک صوبہ ہے ) کے علاقوں پر مشتمل تھا۔
جہاں تک لفظ افغان کے لغوی معنی اور تاریخ کا تعلق ہے، اس کتاب کے مصنف جناب محمد حسن کاکڑ افغان مورخ احمد علی کوہزاد کا حوالہ دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ لفظ افغانستان 150 سال سے زیادہ پرانا نہیں ہے۔ کاکڑ مزید لکھتے ہیں کہ کتاب (طارق نامہ ہرات) میں جو سیفی ہیروی نے 1318 میں لکھی تھی لکھتے ہیں کہ افغانستان، مستونگ، کوئٹہ، سیوی، ہرات، غزنی، سندھ اور کوہ سلیمان کے علاقوں پر شامل تھا۔ آخر میں تمام مصنفین اور مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ لفظ خراسان صدیوں پہلے موجودہ افغانستان کے علاقوں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔
محمد حسن کاکڑ نے روہ اور پشتونخواہ کے لفظوں کی تشریح بھی لکھی ہے۔ ان کے مطابق پشتون اپنی سرزمین کو روہ بھی کہتے ہیں۔ تاریخی طور پر روہ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے کے قریب علاقے کو کہتے تھے جہاں قدیم زمانے میں پشتون رہتے تھے۔ محمد حسن کاکڑ کے مطابق روہ لفظ (اوستا) میں 16 جغرافیائی علاقوں کے طور پر لکھا گیا ہے۔ جبکہ مہابھارت میں اسے (لوہا) لکھا گیا تھا۔ دوسری طرف یہ لفظ (روہیتا۔ گڑھی) میں بھی لکھا گیا تھا جو اسے پہاڑ کے نام سے تعبیر کرتا ہے۔ دوسری جانب ایک چینی مورخ Fa۔ Hann اسے (Lo۔ I) کے طور پر لکھتا ہے جس کا مطلب ہے چھوٹے برفیلے پہاڑ۔ اس کے ساتھ ساتھ، کتاب فرشتہ میں ابوالقاسم نے دعویٰ کیا ہے کہ روہ ایک ریاست تھی جو سوات سے بخارا، سیوی سے حسن ابدال، کابل، قندھار اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل تھی۔ جبکہ کتاب (ریاض المحبت) میں روہ کا ذکر پشتون سرزمین کے طور پر کیا گیا ہے جس کے جغرافیائی علاقے ہلمند سے کاشغر، بدخشاں اور ملحقہ علاقوں پر مشتمل تھے۔
جہاں تک لفظ پشتونخوا کا تعلق ہے اس کو بھی پشتون اپنی سرزمین کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لفظی اعتبار سے یہ کلمہ پشتو کے دو الفاظ پشتون اور خوا (طرف) سے نکلا ہے جس کا مطلب (پشتونوں کا جانب) ہے۔ جب ہم اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں، تو یہ ایک ایسی جگہ جہاں پشتون رہتے ہیں کا معنی دیتا ہے۔ صدیق اللہ غرشین کے مطابق، لفظ پشتونخوا پہلی بار بارہویں صدی میں لکھا گیا۔ جبکہ 18 ویں صدی میں اس نام کو اس وقت زیادہ شہرت ملی جب احمد شاہ ابدالی نے اپنی پشتو شاعری میں یہ لفظ استعمال کیا اور اپنے اشعار میں پشتونخوا کے پہاڑوں کا لفظ استعمال کیا یعنی موجودہ افغانستان اور اس کے کے ارد گرد کے پہاڑ جہاں پشتون رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر جب احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی پر قبضہ کیا تو اس نے ایک نظم لکھی جس میں اس نے لکھا کہ جب بھی اسے پشتونخوا کے پہاڑوں کی چوٹیاں یاد آتی ہے تو وہ دہلی کا تخت بھول جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، محمد حسن کاکڑ کے مطابق الفسٹن بھی 19 ویں صدی میں لفظ پشتونخوا لکھتے ہیں۔
بطور قوم پشتون کا نام بھی مورخین میں متنازعہ رہا ہے۔ اس قوم کے لیے تین نام پشتون یا پختون، افغان اور پٹھان استعمال ہوتے ہیں۔ یہ نام کہاں سے شروع ہوا اور کب استعمال ہونے شروع ہوئے اس بارے میں مورخین کی مختلف آراء ہیں۔ اب آتے ہیں پہلے لفظ پٹھان کی طرف۔ مشہور تاریخی کتاب فرشتہ کے مصنف ابوالقاسم کے مطابق جب افغانستان سے کچھ لوگ ہندوستان ہجرت کر گئے تو وہ بہار کے شہر پٹنہ میں آباد ہوئے، اس لیے ان کا نام پختون پڑ گیا جو کہ پٹنہ سے ماخوذ ہے۔
مزید برآں، محمد حسن کاکڑ کے مطابق، البیرونی لکھتے ہیں کہ لفظ افغان سب سے پہلے (اویستا ) اور مہابھارت میں استعمال ہوا تھا۔ ان کے مطابق گندھارا کے قریب رہنے والے لوگ افغان کہلاتے تھے۔ دوسری طرف لفظ (اسوا) کا مطلب گھوڑا کے ہے جسے پشتو میں Aspa (اسپہ) کہتے ہیں جبکہ گھانا کا مطلب لوگ ہیں، اس لیے لفظ افغان کا مطلب ہے وہ لوگ جو گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں کے ہے۔
اس کے علاوہ چھٹی صدی میں ہندوستانی مصنف ویرا میرا نے لفظ (آوگن) دو بار لکھا۔ جبکہ چینی مورخ شون چانگ ژیانگ اسے (O Po Kien) لکھتے ہیں۔ وہ اسے سلیمانی پہاڑی سلسلے کے قریب رہنے والے لوگوں کو کہتے ہیں جو محنتی، مضبوط اور جانوروں کی کھالوں سے بنے اونی کپڑے پہنتے تھے۔
جہاں تک لفظ پشتون یا پختون کا تعلق ہے مورگنسٹیرن لکھتے ہیں کہ پشتون یا پختون نام افغان نام سے پرانا ہے۔ یہ لفظ سب سے پہلے ہندوؤں کی ایک مذہبی کتاب وید میں (پختاس) کے طور پر استعمال ہوا تھا۔ جبکہ ہیروڈوٹس اسے (Pactiyan) لکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروفیسر آر سی مجمدار نے پکتیکا کا لفظ افغانستان کے ایک شہر پکتیکا سے لیا ہے جہاں لوگ رہتے تھے۔ محمد حسن کاکڑ لکھتے ہیں کہ ہیروڈوٹس نے پشتون کو زمین پر رہنے والی بہادر ترین قوم کہا ہے۔ دوسری طرف فردوسی بھی افغانوں کو بہترین جنگجو اور بہادر لوگ کہتے ہیں جو فراہ میں رہ رہے تھے۔ اس کے علاوہ غور میں پشتون بھی رہتے تھے جس کو افغانستان کا پہلا آباد شہر کہا جاتا ہے۔ دوسری کتاب فرشتہ میں ابوالقاسم لکھتا ہے کہ سوری قبیلہ غور میں رہتا تھا۔
راقم حیران ہے کہ مصنف نے پشتون قوم کے تاریخی پس منظر اور نسل کے حوالے سے تین نظریات جیسے بنی اسرائیل، آرین یا یونانی کے بارے میں قلم کشائی سے اجتناب کرتے ہوئے یکسر نظر انداز کر دیا ہے اور لفظ افغان اور پٹھان کے لغوی معانی کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا ہے۔ مخزن افغانی کو پشتون قوم کی تاریخ اور نسل کے حوالے سے بہترین کتابوں میں شمار کیا جاتا ہے جس میں مصنف نے پشتون قوم کے آبائی نسل کے بارے میں لکھا ہے کہ آیا وہ بنی اسرائیل ہیں یا آرین؟ یا یہ کہ معروف فلسفی اور پشتون شاعر غنی خان بابا جن کا دعویٰ ہے کہ پشتون یونانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن محمد حسن کاکڑ نے ایک بار بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ خواہ یہ نظریات درست ہوں یا غلط، لیکن ان کو بغیر دلیل کے نظرانداز اور مکمل مسترد نہیں کیا جا سکتا محمد حسن کاکڑ نے اس سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ مخزن افغانی جس میں مصنف نعمت اللہ ہراوی لفظ افغنہ سے افغان کو جوڑتا ہے جو حضرت سلیمان کا ایک جرنیل تھا وہ لکھتا ہے کہ لفظ پٹھان لفظی طور پر عربی لفظ (بتھان) سے ماخوذ ہے جو کہ ایک مضبوط لکڑی کو کہتے ہے جو کشتیاں بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مخزن افغانی کا مصنف لکھتا ہے کہ کچھ لوگ جن کے قبیلے کے سربراہ قیس بن عبدالرشید تھے، پیغمبر اسلام ﷺ کے دور میں اسلام کے لیے بہادری سے لڑے تھے۔ جس سے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ بہت متاثر ہوئے اور انہیں (بتان) کا نام یا لقب دیا جس کے معنی مضبوط لوگ ہیں اس لیے انہیں پٹھان کہا گیا۔
اس کتاب کے پہلے باب میں جناب محمد حسن کاکڑ نے ہند (ہندوستان) میں افغانوں کی حکومت پر بھی بحث کی ہے۔ ان کی رائے ہے کہ افغان اچھے تاجر تھے اور تجارت کے لیے ہندوستان جاتے تھے۔ تجارتی سرگرمیوں کے علاوہ افغانوں نے ہندوستان پر بار بار حملے کیے۔ 987 میں سلطان سبکتگین غزنوی نے شیخ حمید لودھی کو ملتان کا گورنر مقرر کیا۔ سلطان ناصر الدین محمود سلطنت ( 1246۔ 1249 ) کے دور حکومت میں افغانوں کو زیادہ طاقت ملی اور انہوں نے اہم سرکاری عہدوں پر کام لیا۔ غیاث الدین بلبل ( 1246۔ 1249 ) کے دور میں افغانوں کو زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ آنے والے دوسرے باب میں مصنف محمد حسن کاکڑ نے ہندوستان میں افغانوں کی حکومت کے بارے میں لکھتے ہے۔
محمد حسن کاکڑ کتاب کے دوسرے باب میں انڈیا میں افغان حکمرانی کی دور حکومت کے بارے میں بات کرتے ہیں جسے محمد حسن کاکڑ ہندوستان میں ( افغان سامراج) یا افغان امپریالزم کہہ کر پکارتے ہے۔ مصنف نے لودھی اور سوری خاندانوں اور مغل حکمرانوں کے ساتھ افغانوں کے تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کے مطابق، جب 1526 میں بابر اپنی سلطنت کو وسعت دے رہا تھا، تو وہ کابل پر قبضہ کرنے میں ناکام رہا لیکن اسی وقت افغانوں نے مغلوں کو اس کے عوض ٹیکس دینا پڑا۔ مصنف کے مطابق افغانوں کی مغلوں سے شدید مخاصمت تھی۔ انہوں نے پیر روشان (بایزید انصاری) کی مزاحمتی تحریک (روشانی تحریک) اور مغل حکمرانوں کے خلاف خوشحال خٹک کی جدوجہد کی خوبصورتی سے تصویر کشی کی ہے۔ ساتھ ساتھ میں محمد حسن کاکڑ نے مغلوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی پر بھی روشنی ڈالی ہے جنہوں نے بایزید مخالف اور خوشحال خٹک مخالف قوتوں کی حمایت کی۔ محمد حسن کاکڑ، اخوند درویزہ اور سید علی ترمذی کا نام لیتا ہے جنہوں نے مغلوں کی اشیرباد سے پیر روشان کی مخالفت کی۔
دوسرے باب کا ایک اور ذیلی موضوع قندھار میں درانیوں کے دور حکومت اور صفویوں، مغلوں اور خلجیوں کے ساتھ ان کے تعلقات کے بارے میں ہے جو پشتون کا ایک ذیلی قبیلہ ہے۔ جناب حسن کاکڑ لکھتے ہیں کہ خلجیوں اور درانیوں کے درمیان ہمیشہ اقتدار کی کشمکش اور رسہ کشی ہوتی رہی ہے۔ ان کے مطابق، درانی سلیمان پہاڑی سلسلے کے قریب قسے کے علاقے میں رہتے تھے۔ وہ لکھتا ہے کہ پشتون خانہ بدوش تھے۔ درانی امپریالزم کے بارے میں وہ لکھتا ہے کہ درانیوں نے خلجیوں کے خلاف صفویوں کا ساتھ دیا اور ہرات اور قندھار کو خلجیوں سے چھینا اور بعد میں درانیوں نے صفویوں کو بھی قندھار سے نکال باہر کیا۔ جناب حسن کاکڑ، نادر شاہ افشار کی تعریف کرتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ نادر شاہ افشار نے درانیوں کا قتل عام نہیں ہونے دیا اور صرف ان کی قیادت کو قید کیا۔ جب نادر شاہ افشار کو مارا گیا، تو درانیوں نے جمع ہو کر احمد شاہ ابدالی کو 1747 میں قندھار میں افغانستان کا نیا شہنشاہ مقرر کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب صفویوں کی حکمرانی بھی ختم ہو گئی تھی، جب کہ ہندوستان میں مغلوں کی حکومت زوال پذیر اور کمزور ہو رہی تھی۔ اس دوران احمد شاہ ابدالی نے پورے افغانستان کو متحد کیا جس نے 1747 سے 1773 تک حکومت کی اور ایک قابل رہنما ثابت ہوا۔ جناب کاکڑ نے احمد شاہ ابدالی کے دورِ حکومت کے اچھے اور برے اقدامات، اس کی خامیوں، کمزوریوں اور کامیابیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
محمد حسن کاکڑ قندھار میں خلجی خاندان کی حکمرانی کے بارے میں بھی قلم اٹھاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ درانیوں کو شکست دینے کے بعد خلجیوں نے قندھار پر قبضہ کر لیا اور 18 ویں صدی میں محمود غزنوی، مغلوں اور صفویوں کے ساتھ گرمجوشی سے تعلقات استوار کیے۔ اس باب میں جناب محمد حسن کاکڑ فارس پر افغانوں کی حکومت کے بارے میں لکھتے ہیں اور وہاں پر خلجی کے دور حکومت کا جائزہ لیتے ہیں خاص طور پر محمود خلجی کی حکومت جو میرویس خلجی کا بیٹا تھا۔
محمود خلجی کی 1720 میں فارسیوں کے خلاف جنگ کی بلوچوں اور ہزارہ قبائل نے بھی حمایت کی جس کی مدد سے اس نے سیستان اور کرمان پر قبضہ کر لیا۔ مزید یہ کہ جناب محمد حسن کاکڑ نے محمد زئی پشتون قبیلے کی حکمرانی کے بارے میں بھی لکھتے ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ محمد زئی درانی کا ذیلی قبیلہ ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ 1818 میں جب سدوزئی قبیلے کی حکومت ختم ہو گئی تو بارکزئی قبیلے نے افغانستان پر حکومت کی۔ وہ تخت کے لیے بارکزئی برادران عظیم خان اور فتح خان کی اندرونی جنگوں کا بھی ذکر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مصنف نے امیر دوست محمد خان کی حکمرانی، اینگلو۔ افغان تعلقات اور جنگوں اور سکھ حکمرانوں کے ساتھ افغانوں کے تعلقات بالخصوص رنجیت سنگ کے ساتھ تعلقات پر روشنی ڈالی ہے۔ محمد حسن کاکڑ، امیر شیر علی خان، ان کی پالیسیوں اور ان کے دور حکومت کے اچھے اور برے اقدامات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ اس نے امیر یعقوب خان اور امیر عبدالرحمان خان کے دور حکومت اور ان کے دور حکومت کے فوائد و نقصانات کو بھی کتاب کا موضوع بنایا ہے۔ انہوں نے سردار محمد ایوب خان کے بارے میں بھی بات کی ہے جنہوں نے 1880 میں قندھار کے قریب میوند کی ایک مشہور جنگ میں انگریزوں کو شکست دی تھی۔
زیر نظر کتاب کا ریویو لینے کے بعد یہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں یہ کہ یہ افغان تاریخ، لفظ افغان، پشتون، پختون، روہ، اور پشتونخواہ کے تاریخ اور اس کے معانی کے لحاظ سے ایک منفرد تحقیقی کتاب ہے۔ یہ بے پناہ کتابیات کے ساتھ مستند حوالوں کا زائچہ ہے۔ مزید براں، اگرچہ، مصنف پشتون نسل کی تاریخ کو لکھنے اور اس کا سراغ لگانے میں ناکام رہا ہے، پھر بھی یہ کتاب دلائل کے ساتھ بہت زیادہ معلومات فراہم کرتی ہے اور 10 میں سے 9 نمبروں کی مستحق ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).