تحریک انصاف کے خلاف پاک فوج کا ’اعلان جنگ‘


پاکستان تحریک انصاف نے اگرچہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس میں لگائے گئے الزامات کو فرسودہ کہہ کر مسترد کیا ہے اور کہا کہ وہ صرف ایک شفاف آئینی نظام کے لیے کام کر رہی ہے۔ لیکن گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ تخریبی سیاسی قوتیں اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے تشدد اور غیر قانونی راستے اختیار کر رہی ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے گو کہ اپنی طویل پریس کانفرنس میں کسی سیاسی پارٹی کا نام نہیں لیا لیکن انہوں نے جن وقوعات کا ذکر کیا ور جس سیاسی رویہ کی نشاندہی کی ہے، اس سے کوئی شبہ باقی نہیں رہتا کہ فوج اس وقت ملک کی کس سیاسی قوت کے طریقوں کو ناجائز اور ملکی مفاد کے خلاف سمجھ رہی ہے۔ پاک فوج کے ترجمان نے پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی دہشتگردی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی تشدد اور زبردستی مرضی ٹھونسنے کی پالیسی اختیار کرتی ہے۔ یہ اسی طرز عمل کا تسلسل ہے جس کا آغاز 2014 میں ہوا تھا۔ یہ سلسلہ 9 مئی کے مظاہروں کے علاوہ 26 نومبر کے احتجاج میں جاری رہا۔

فوجی عدالتوں نے حال ہی میں سانحہ 9 مئی کے الزام میں 85 افراد کو مختلف المدت سزائیں دی ہیں۔ پریس کانفرنس کے دوران لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں الٹا سوال کیا کہ ’جو گروہ تشدد سے اپنی بات منوانے پر مصر ہو اس کے ساتھ مذاکرات کس طرح کامیاب ہوسکتے ہیں‘ ۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’دنیا میں اگر مذاکرات سے ہی سارے معاملات طے ہو جاتے تو کوئی لڑائی جھگڑا اور جنگ نہ ہوتی‘ ۔ گویا آئی ایس پی آر کے ڈی جی کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنی موجودہ حکمت عملی کے ساتھ قابل قبول نہیں ہے۔ فوجی ترجمان کی باتوں کو حال ہی میں حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بھی سمجھنا اہم ہے۔ حکومت کو امید ہے کہ مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے اور مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا جا سکے گا۔ تحریک انصاف نے بھی کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے دوسرے دور میں 2 جنوری کو اپنے مطالبات باقاعدہ طور سے پیش کرے گی۔ البتہ تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں فوج کے انتہائی منفی موقف کی روشنی میں ان کی کامیابی کا امکان نہیں ہو گا۔ شہباز حکومت، فوج کی پشت پناہی ملنے پر تحریک انصاف کو کوئی رعایت دینے پر تیار نہیں ہوگی۔

تحریک انصاف کے عمران خان سمیت تمام سیاسی کارکنوں کی رہائی، انتخابی دھاندلی کی تحقیقات اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرتی ہے۔ بظاہر ان مطالبات میں بھی ملکی مسائل حل کرنے کی کوئی تجویز موجود نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے موقف کے مطابق اگر مان لیا جائے کہ 8 فروری کے انتخابات دھاندلی زیادہ تھے۔ پھر اس کا ایک ہی حل ہے کہ اقتدار پی ٹی آئی کے حوالے کر دیا جائے، موجودہ حکومت ایک طرف ہو جائے۔ مسئلہ خود ہی حل ہو جائے گا۔ لیکن پاکستان کے سیاسی مسائل اس تجویز کردہ ’حل‘ سے زیادہ سنگین اور گہرے ہیں۔ عمران خان یا سیاسی کارکنوں کی رہائی کے معاملات عدالتوں میں زیر غور ہیں۔ اصولی طور پر وہی ان پر فیصلے کریں گی۔ سیاسی بات چیت کے ذریعے اس معاملہ پر کسی نتیجے تک پہنچنا شاید ممکن نہیں ہو گا۔

9 مئی اور 26 نومبر کی عدالتی تحقیقات کے حوالے سے بہت زیادہ مشکلات اور اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں ایک طرف فوجی عدالتیں 85 لوگوں کو سزائیں دے چکی ہیں۔ اور دوسری طرف جمعہ کی پریس کانفرنس میں جنرل احمد شریف چوہدری نے سوال اٹھایا ہے کہ ’جو گروہ تشدد کے ذریعے اپنی بات منوانا چاہے اسے معاشرے میں کیسے قبول کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کہ‘ 9 مئی کے بارے میں افواج پاکستان کا نقطہ نظر ہے انتہائی واضح ہے۔ یہ افواجِ پاکستان کا مقدمہ نہیں ہے بلکہ عوام کا مقدمہ ہے۔ اگر کوئی مسلح و پُرتشدد گروہ اپنی مرضی سے، اپنی سوچ مسلط کرنا چاہے اور اسے آئین کے مطابق نہ روکا جائے تو پھر ہم اس معاشرے کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ ’

ملک کی ایک اہم پارٹی کے بارے میں یہ اعلان کرتے ہوئے پاک فوج دراصل یہ اعلان کر رہی ہے کہ وہ تحریک انصاف کی موجودہ پالیسی یا قیادت یا دونوں کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال تو یہی پیدا ہو گا کہ کیا ملک کا فوجی ادارہ کسی بھی سطح پر مطالبہ کر سکتا ہے کہ فلاں گروہ اس کے خیال میں تشدد سے سیاسی مطالبے منوانے کی حکمت عملی پر قائم ہے لہٰذا اس کے ساتھ بات چیت نہیں ہونی چاہیے۔ یا یہ کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس سوال کا جواب صرف تحریک انصاف کو نہیں بلکہ اتحادی حکومت کا حصہ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو دینا چاہیے۔ یہ بہت بنیادی اصولی بات ہے کہ کیا ہماری سیاسی پارٹیاں اتنی بالغ النظر ہو چکی ہیں کہ وہ سیاسی امور پر دیگر اداروں کی مداخلت قبول کرنے سے انکار کر دیں۔

2جنوری کو حکومتی پارٹیوں اور تحریک انصاف میں مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہو گا۔ اس موقع پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کے باہم دست و گریباں ہونے اور مطالبات پر پر غور کی بجائے، سب سے پہلے یہ طے کیا جائے کہ سیاسی پارٹیاں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس کو مسترد کریں۔ واضح کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ حالات میں جب فوج خود بھی اپنے ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف کارروائی کر رہی ہے تو فوج کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ملکی سیاسی صورتحال کے بارے میں اظہار خیال کرے۔ اور سیاسی فریقوں کے درمیان مذاکرات کو ناکام بنانے کی کوشش کی جائے۔

جواب میں فوج ضرور کہہ سکتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنی مرضی پر عمل کر سکتی ہیں، فوج نے تو ایک رائے دی ہے۔ لیکن سب سے اہم پہلو تو یہی ہے کہ فوج کو ملکی سیاست کے بارے میں کوئی موقف اختیار کرنے کا حق بھی نہیں دیا جا سکتا۔ اگر ملک میں کسی قسم کا آئینی انتظام جاری رہنا ہے، اگر عدالتوں کو کام کرنا ہے، اگر سیاست دانوں نے ہی حکومتیں بنانی اور چلانی ہیں تو پھر یہ طے کرنا پڑے گا کہ فوج اگر آج کسی ایک سیاسی گروہ کی طرف اشارہ کرتی ہے تو کیا باقی پارٹیاں اسے اپنی صفوں سے نکال دیں؟ یا اس کے آئینی سیاسی حق کی حفاظت کے لیے اکٹھی ہوں؟ تاکہ مستقبل میں پھر کوئی نئی فوجی قیادت یا نیا فوجی نمائندہ یہ نہ کہے کہ اب ہمیں فلاں پارٹی ناپسند ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو سوچنا پڑے گا کہ وہ واقعی ملک میں آئینی جمہوری نظام چاہتی ہیں یا محض اقتدار میں باریاں لینے کے لیے فوج کو راضی رکھنے کی ’آزمودہ‘ ترکیب پر ہی عمل پیرا رہیں گی۔ تاہم یہ بنیادی اصولی مقصد حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کے علاوہ یہ ماننا ہو گا کہ سب پارٹیاں ہی ملکی سیاسی عمل کے لیے اہم ہیں۔

پاکستان کے معروضی حالات میں یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر فوج ایک سیاسی پارٹی کے بارے میں ’اعلان جنگ‘ کر رہی ہے تو کیا اس کے لیے ملکی سیاست میں فعال رہنا ممکن ہو گا؟ کیا اس پارٹی کے مستقبل کے بارے میں کوئی خوش آئند قیاس آرائی کی جا سکتی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو ملک کو کن معنوں میں جمہوری آئینی نظام پر کاربند کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی بڑی اکثریت تحریک انصاف پر اعتماد کرتی ہے اور اسے ووٹ دے کر اسمبلیوں میں نمائندگی کا حق دیتی ہے۔ کیا اب عوام کو بتایا جائے گا کہ وہ کس پارٹی پر اعتماد کر سکتے ہیں یا یہ مانا جائے گا کہ ملک کا آئین عوام کو اپنی عقل و شعور کے مطابق ملکی حکومت چننے کا اختیار دیتا ہے۔ نہ صرف اس حق کا احترام کرنا ہر شہری و ادارے پر فرض ہے بلکہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا عمل بھی بادی النظر میں آئین شکنی ہو گا۔

اگر ملک کے منتخب سیاستدان چاہتے ہیں کہ فوج یا کسی دوسرے ادارے کو شرائط عائد کرنے کا ’اختیار‘ دے دیا جائے تو چھبیسویں ترمیم کی طرح اس مقصد کے لیے آئین میں ترمیم ضروری ہوگی تاکہ قوم کم از کم اس الجھن سے باہر نکل آئے کہ وہ حق انتخاب میں با اختیار ہے۔ بلکہ انہیں معلوم ہو کہ وہ صرف اسی صورت میں اپنے نمائندے چن سکتے ہیں جب انہیں اس کی ’اجازت‘ دی جائے۔

پاک فوج کے نمائندے کی طرف سے پریس کانفرنس میں کسی سیاسی پارٹی کی کردار کشی ناقابل قبول اور افسوسناک طریقہ ہے۔ اگر مان لیا جائے کہ حالات کے جبر کی وجہ سے فوجی قیادت سیاسی لیڈروں کو ایسے اہم معاملہ پر اپنی رائے سے آگاہ کرنا چاہتی تھی تو اس کے لیے سب سے اچھا فورم ایپکس کمیٹی ہوتا۔ وہاں پر عسکری قیادت حکمران سیاسی لیڈروں کو اپنی رائے سے آگاہ کر سکتی تھی۔ پریس کانفرنس میں ایک سیاسی پارٹی پر الزام تراشی کے طریقے سے ملک کا سیاسی نظام مزید بدحالی کا شکار ہو گا بلکہ اداروں کے بارے میں بھی شبہات مزید بڑھیں گے۔ دوسری صورت میں کسی سیاسی پارٹی کے ہتھکنڈوں پر تشویش کا مسئلہ پارلیمنٹ میں زیر بحث لایا جاسکتا ہے۔ آئین نے کسی سیاسی پارٹی پر پابندی لگانے کا طریقہ وضع کر رکھا ہے لیکن ملکی تاریخ گواہ ہے کہ یہ طریقہ کبھی کامیاب نہیں ہوا۔

تحریک انصاف کے خلاف فوج کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے سربراہ نے ایک اہم نکتہ یہ بھی پیش کیا ہے کہ 2021 میں پی ٹی آئی کی حکومت نے افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کو معاف کرنے اور پاکستان لاکر آباد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اگر یہ فیصلہ عمران خان کی حکومت نے بھی کیا تھا تو فوج بھی اس وقت اس فیصلہ سازی میں شامل تھی۔ فوج کے ترجمان نے اس بارے میں اپنے حصے کی غلطی ماننے سے گریز کیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت اپریل 2022 میں ختم کردی گئی تھی۔ گویا فوج اس حکمت عملی کو جاری رکھنے پر مطمئن تھی لیکن بعد میں یہ صورت حال تبدیل ہوئی۔ معاملات میں دیانتداری کے اصول کے تحت آئی ایس پی آر کو نیا موقف بیان کرتے ہوئے یہ بتانا چاہیے تھا کہ سابقہ موقف سے کیوں رجوع کیا جا رہا ہے۔ اس کا سارا بوجھ تحریک انصاف پر ڈالنا مناسب نہیں ہو گا۔

پاک فوج کی موجودہ قیادت عملی سیاست میں الجھنے سے انکار کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ سیاسی قیادت کی مرضی و منشا کے مطابق فیصلوں میں شامل ہوتی ہے یا رائے دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے بارے میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کے الزامات و موقف کو اگر شہباز حکومت کا بیانیہ مان کیا جائے تو بھی پاک فوج کے عہدیداروں کو اپنے حلف کی روشنی میں فرائض انجام دینے چاہئیں۔ فوجی ترجمان کو حکومت کا نمائندہ بننے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2999 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments