پاکستان کی دفاعی خود مختاری اور امریکی پابندیاں
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ کے حالیہ بیان نے پاکستان کی دفاعی پالیسی اور قومی سلامتی کے حوالے سے ایک اہم اصولی موقف کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ امریکی پابندیوں سے پاکستان کے دفاع اور دفاعی فیصلوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ یہ بیان نہ صرف پاکستان کی خود مختاری کی عکاسی کرتا ہے بلکہ تاریخی پس منظر میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں امریکی پابندیوں کا سامنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 1965 کی جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان پر اسلحے کی پابندی عائد کی تھی جس کا مقصد بھارت کو فائدہ پہنچانا تھا۔ 1971 کی جنگ میں بھی امریکہ کا جھکاؤ بھارت کی طرف رہا۔ 1998 میں پاکستان کے جوہری دھماکوں کے بعد بھی سخت اقتصادی اور عسکری پابندیاں لگائی گئیں۔ ان تمام پابندیوں کے باوجود پاکستان نے اپنی قومی سلامتی اور دفاعی خود مختاری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ آئندہ کبھی کرے گا ان شاء اللہ۔
گزشتہ دنوں امریکہ نے پاکستان کے چار اداروں پر پابندی عائد کی اور یہ الزام لگایا کہ پاکستان ایسے میزائل بنا رہا ہے جو جنوبی ایشیا سے باہر کے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ الزام نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی امن پسند پالیسیوں کے خلاف ایک پروپیگنڈا بھی ہے۔ پاکستان کا میزائل پروگرام خالصتاً دفاعی مقاصد کے لیے ہے اور اس کا مقصد صرف بھارت اور دیگر دشمنوں کی جارحیت کا جواب دینا ہے۔
امریکی پابندیوں کے پیچھے ایک بڑا مقصد بھارت کو خوش کرنا نظر آتا ہے۔ امریکہ چین کے خلاف بھارت کو ایک مضبوط اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کے لیے بھارت کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت جو پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کو خطے میں اپنے تسلط کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کو پاکستان کے خلاف اکسانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
پاکستان کا قومی سلامتی کا نظریہ ممکنہ بھارتی خطرے کے گرد گھومتا ہے۔ 1948، 1965، 1971، اور کارگل جیسے تنازعات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ بھارت خطے میں اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ پاکستان کا میزائل پروگرام اور جوہری ٹیکنالوجی اس کے لیے دفاعی ڈھال ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ میزائل دوڑ کا آغاز بھارت نے کیا تھا اور عالمی طاقتوں کو بھارت کے خلاف اقدامات اٹھانے چاہئیں۔
پاکستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ اس کی دفاعی صلاحیت اس کی خود مختاری اور علاقائی امن کے لیے ضروری ہے۔ امریکی پابندیاں نہ صرف غیر منصفانہ ہیں بلکہ خطے میں طاقت کے توازن کو بھی خراب کر سکتی ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ عالمی برادری کو امن کے لیے تعاون کی پیشکش کی ہے لیکن اس کے دفاعی پروگرام پر تنقید کرنا یا پابندیاں لگانا امریکی حکومت کا ایک امتیازی رویہ ثابت ہو گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ترجمان دفتر خارجہ حکومت پاکستان کا بیان اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ امریکی پابندیاں پاکستان کے دفاعی عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں بلکہ اس کے لیے نئے مواقع پیدا کرتی ہیں کہ وہ خود انحصاری کی طرف مزید قدم بڑھائے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت کی جانب داری چھوڑ کر جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے متوازن پالیسی اپنائے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
- ریکوڈک کو ریلوے نیٹ ورک سے منسلک کرنے کی ہدایت - 22/06/2025
- بھارت کی آبی دہشت گردی: دریائے چناب کا پانی روکنے کی کوشش - 09/05/2025
- پنجاب میں شادی میں نوٹ پھینکنے پر پابندی - 19/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).