سوال صرف سوال کا ہی تو ہے


حقانی غدار ہے،
وہ ایماندار ہے۔
یہ وہ والا ویزا نہیں۔ وہ یہ والا سفیر نہیں
میرے پیروں میں گر کر معافیاں مانگو گے۔ ۔ ۔
فیس بک، رسولؐ کی حرمت پہ قربان ہے۔
23 مارچ ہم سب کا دن ہے، ہولی منانے پہ معافی مانگو۔
پریڈ دیکھ کر پیٹ میں درد ہو رہا ہو گا
یہ سب باتیں ایک طرف ہیں۔ بالکل ایک طرف۔ اور کچھ لوگ دوسری طرف ہیں۔

آپ نے کہا کہ پنجاب راتوں رات تقسیم ہوا تھا۔ اب پتہ چل رہا ہے کہ سن پینتالیس میں جو پہلا نقشہ ویول نے بنا کر بھیجا تھا اس میں اور سینتالیس کی لکیروں میں فرق نہ ہونے کے برابر ہے
آپ نے بتایا کہ ’پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ‘، اب پتہ چل رہا ہے کہ جناح صاحب نے تو یہ نعرہ ہی مسترد کر دیا تھا۔ ۔ ۔
آپ نے سمجھایا کہ قرارداد مقاصد ہماری بنیاد ہے۔ بنگالی ممبران اسمبلی اور اقلیتی ممبران تو خیر تھے ہی جہنمی، آپ کو سوات کے نفاذ شریعت تک پہنچنے میں اتنے سال کیسے لگے۔
آپ نے نعرہ لگایا۔ روٹی کپڑے اور مکان کا مسئلہ ہے مگر حل دیتے وقت آپ کے دامن سے جمعہ کی چھٹی، شراب کی ممانعت اور پختون قوم پرستی کے بخار کا علاج دو گولی اسلام۔ صبح دوپہر شام ہی نکلا۔
آپ کی وردی، شیروانی اور سائیکل کے کھیل میں نصاب سے چاند تک سب نے آپ کا ہی کلمہ پڑھا اور آپ کے ایمان کو اسلام سمجھا۔
آپ اپنے ملک میں جمہوریت کا جشن مناتے رہتے تو ٹھیک بھی تھا مگر دوسرے ملک میں خلافت کا اہتمام کرنا کیوں ضروری ٹھہرا۔
قرض اتارو۔ ملک سنوارو۔
سب سے پہلے پاکسستان
پاکستان کھپے
بدلا ہے پنجاب، بدلیں گے پاکستان
تبدیلی آ نہیں رہی۔ تبدیلی آ گئی ہے۔
دی لاسٹ بیٹل فار پاکستان۔ ضرب عضب۔
سی پیک زندہ باد۔
لائف لائن۔ گیم چینجر
شکریہ راحیل شریف
رد الفساد
اور ہم سب کا پاکستان

۔ مگر دوسری طرف۔

سری نواس رامانوجن، 1887 میں تامل نادو میں پیدا ہوا۔ پانچ سال کی عمر میں سکول گیا۔ سترہ سال کی عمر میں مقامی کالج تک پہنچتے پہنچتے، ریاضی کی بہت سی پیچیدہ گتھیاں سلجھا چکا تھا۔ 1910 مِں پروفیسر رام سوامی آئیر سے ملاقات کے بعد اسے مدراس کی یونیورسٹی میں ملازمت ملی۔ ایک پروفیسر سے دوسرے پروفیسر تک کسی نے اپنی کم عقلی کی بنیاد پہ اور کسی نے اس کے حلیے کی وجہ سے اسے مسترد کیا۔

جنوری 1913، جب رامانوجن 25 برس کی دہلیز پار کر چکا تھا۔ اس نے پروفیسر گاڈفری ہارڈی کو چٹھی لکھی۔ عین جس وقت ہارڈی اس تذبذب میں تھا کہ رامانوجن سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔ کیمبرج کے کچھ لوگ اس بحث میں مصروف تھے کہ ایک ہندوستانی، اتنا ذہین کیسے ہو سکتا ہے کہ ریاضی کی بنیادی تعلیم حاصل کیے بغیر، دقیق مسائل کا حل نکال سکتا ہو۔ اور ادھر رامانوجن، اس دبدھا کا شکار تھا کہ وہ اپنے براہمن عقیدے کا مان رکھتے ہوئے کبھی سمندر پار نہ کرے یا پانیوں سے پرے اس پردیس کی رخ کرے جہاں لوگ اس کی بات سننا چاہتے ہیں۔

اپریل 1914 میں سری نواس انگلستان پہنچا تو اگلے چار سال زندگی کی ٹھنڈی سڑک پہ دھوپ چھاؤں میں گذرے۔ ایک طرف کامیابی، شناخت، تکریم، اور انسان کی سرفرازی کے نئے نشان تھے اور دوسری طرف، نسل پرستی، نارسائی، تنہائی اور وطن پرستی کے پرانے داغ۔

1919 تک پہنچتے پہنچتے، رامانوجن ٹرینیٹی کالج کا پہلا ہندوستانی فیلو اور ٹی بی کا مستقل مریض بن چکا تھا۔ جس عقیدے کی پائمالی کے سبب وہ کامیابی کے اس مقام تک پہنچا تھا، وہی اعتقاد اس کی ذہانت اولین سرچشمہ تھا۔

انگلستان سے لوٹتے وقت ہارڈی نے رامانوجن کو تحقیق جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور رامانوجن نے ہارڈی کو تشکیک ترک کرنے کا۔ 1920 میں جب رامانوجن کا انتقال ہوا تو وہ صرف 32 سال کا تھا۔ ریاضی کی شریعت میں آج اس کی دستاویزات، صحیفوں کا درجہ رکھتی ہیں۔

مگر یہ کہانی کیوں؟

سری نواس، عبدالسلام، ابن رشد، شیو کمار اور منٹو

نسل انسانی کے وہ معجزے ہیں جن کے تعاقب سے شعور کی منزلیں طے ہوتی ہیں۔

جب انسانوں کا ایک گروہ نعروں اور فتووں کی صورت سوچ پہ تعزیر لگانے کا بندوبست کر رہا ہوتا ہے تو دوسرا گروہ، فکر کے نئی جزیرے دریافت کرنے نکل رہا ہوتا ہے۔

کس گروہ کو روکنا ہے اور کس کو بھیجنا یہ ریاست کا کام ہے۔

آپ سے اختلاف اس بات پہ تو ہے ہی نہیں کہ آپ صحیح ہیں اور باقی غلط۔ آپ سے صرف ایک اجازت چاہیے۔ سوال پوچھنے کی۔ ایک سوال پوچھنے کی۔

آپ کو اس سب سے کیا ملا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).