مرفی کا قانون اور کڈلن کا حل
مرفی کے قانون کے مطابق جس جگہ غلطی کا امکان ہو وہاں غلطی ضرور ہوتی ہے، دوسرے الفاظ میں جب ہم کسی چیز یا کام کے ہونے سے خوف رکھتے ہیں تو وہ ہو جاتا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟
اس بات کو کچھ روز مرہ کی مثالوں سے سمجھتے ہیں۔ ہم نے اکثر تجربہ کیا ہے کہ جب کار کی سروس کروائیں تو ہمیں بارش کا خطرہ رہتا ہے اور پھر اکثر بارش ہو بھی جاتی ہے۔ ہمارے ذہن میں اس وقت یہ نہیں آتا ہے کہ برسات کا موسم ہونے یا بادلوں کے پہلے سے موجود ہونے کے باوجود سروس کروائی ہے، نہ ہم یہ سوچتے ہیں کہ بارش کے خدشے کو سوچنے میں جتنا وقت ضائع کر دیا اسی میں بارش کا وقت آ گیا۔ سڑک پر رش ہو اور اپنی لین تبدیل کر کے تیز چلتی ہوئی لین میں آ جائیں تو وہی رک جاتی ہے اور باقی چلنے لگتی ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے مرفی کی باتوں میں سچائی تو ہے لیکن وہ صرف مایوسی اور ناکامی کو دیکھتا ہے۔ اس بات پر مجھے مشہور رائٹر تھامس ہارڈی کے الفاظ بھی یاد آ گئے ہیں جس کے مطابق زندگی میں غم اور تکالیف ہی ایک مکمل ڈرامہ ہے جس میں خوشی کبھی کبھی نمودار ہوتی ہے۔
کیا مرفی زندگی کے تاریک پہلوؤں کو ہی دیکھتا تھا یا اس کے قوانین واقعی زندگی کے مختلف مراحل میں رہنمائی کرتے ہیں، اس پر بات کرتے ہیں۔
ایڈورڈ مرفی ایک امریکی ایرو اسپیس انجینئر تھا جس نے ڈیفنس سسٹم کے پروجیکٹ پر کام کیا۔ اپنے ایک منصوبہ میں کامیابی کی امید لگا کر جب غیر متوقع ناکامی ہوئی تو اس نے یہ نظریہ پیش کیا۔
آپ نے کسی تقریب میں جانا ہو، وقت خاص طور پر مقرر کیا ہو اور دیر ہونے کا ڈر ہو تو اکثر کچھ نہ کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ یا تو گھر سے نکلنے میں دیر ہو جائے یا پھر راستے کا رش دیر کروا دیتا ہے۔ کسی باہر والے کے متعلق گھر کے فرد کو میسیج کرنا ہو تو کبھی کبھار اسی کو میسیج کر دیں گے جس کے بارے میں بات کرنی تھی، یوں تعلقات بھی خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ امتحان میں اکثر سوال وہی آتے ہیں جو ہم نے غیر اہم سمجھ کر تیار نہیں کیے ہوتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو سٹوڈنٹ کلاس میں نظر چرا رہا ہو استاد سوال اسی سے کر لیتا ہے۔
مرفی کا قانون در حقیقت ہمیں خوش فہمی، غلط اندازوں اور لاپرواہی سے کیے جانے والے کاموں سے روک کر رہنمائی کرتا ہے کہ کوئی بھی کام کرتے وقت اس کے بد ترین ممکنات پر بھی نظر رکھی جائے۔ برا نہ تو ہر کسی کے ساتھ ہوتا ہے اور نہ ہی ہر دفعہ ہوتا ہے، چونکہ ایسا ممکن ہے اور اکثر افراد بد ترین کو مدنظر نہیں رکھتے اس لئے جب کچھ غلط ہو جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ جیسے ہمیشہ ہی بدترین ہوتا ہے۔
اب اس موضوع کو انسانی سوچ اور دماغ پر اس کے اثرات کے حوالے سے دیکھتے ہیں جس کی تائید نفسیات اور سائنس بھی کرتے ہیں۔
ہم جس عمل کو کرتے ہوئے ڈرتے ہیں وہاں آخر غلطی کیوں ہو جاتی ہے، اس کو جاننے کے لئے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دماغ میں ایک حصہ امیگڈالا کہلاتا ہے جو جذبات، یادداشت اور خطرات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ جذباتی ردعمل میں خوف، غصہ، بے چینی اور خوشی شامل ہیں۔ کسی فرد میں جیسے ہی خوف پیدا ہو تو اس پر فوری قابو پا لینا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ جب دماغ کا یہ جذبات والا حصہ امیگڈالا ایکٹیویٹ ہو جائے تو سٹریس ہارمون ریلیز ہوتا ہے جسے کارٹیسول کہتے ہیں۔ یہ لوجیکل برین پر قابو پالیتا ہے اور پھر عقل کام نہیں کرتی ہے، نتیجتاً جذباتی اور غلط فیصلے ہو جاتے ہیں اور پھر ہم کہتے ہیں کہ جس چیز کا ڈر تھا وہی ہوا۔ ڈر اور خوف ہمیشہ غلط فیصلے کرواتے ہیں اور قصور وار ہم نصیب کو ٹھہراتے ہیں۔
پریشانی اور خوف پر قابو پانے کے بہت سارے طریقے ہیں جن میں سے ایک کڈلن کا قانون ہے جس کے مطابق کسی بھی پریشانی کو لکھنے سے وہ آدھی حل ہو جاتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ لکھنے سے مسائل کے حل کا آدھا راستہ طے ہو جاتا ہے۔
کڈلن دراصل جیمز کلیویل، ایک آسٹریلوی نژاد برطانوی مصنف، کے ایک ناول کا کردار ہے جس نے اس طریقے کو اپنی زندگی کے مختلف چیلنجوں کو حل کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے نام پر اس قانون کو کڈلن لاء کہا گیا۔
لکھنے کا عمل مسائل کے بہترین حل تک پہنچنے میں مدد کرتا ہے۔ اگر آپ کو کوئی فکر لاحق ہے تو پہلے مرحلے میں اس پریشانی کو لکھیں، پھر اس کو حل کرنے کے مختلف طریقے لکھیں، ان پر غور کریں اور بہترین حل کا انتخاب کر کے اس پر عمل کریں۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ دفتر کی پریشانی گھر ساتھ لانے سے گھریلو زندگی پرسکون نہیں رہتی ہے اسی طرح پریشانیوں کو ذہن میں رکھ کر سونے سے نیند پرسکون نہیں رہتی ہے۔ اگر رات کو سونے سے پہلے اپنے کاموں اور پریشانیوں کو لکھ کر سویا جائے تو نیند اچھی آتی ہے۔ آزما کر ضرور دیکھیں۔
- مرفی کا قانون اور کڈلن کا حل - 04/01/2025
- دانی ماں کہاں گئیں؟ - 15/07/2024
- جذبہ انسانیت پر کچھ باتیں - 31/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).