عاشق حسین بٹالوی بنام مولانا غلام رسول مہر (1)


 مرشدِ من، عثمان قاضی ان دنوں پردیس میں مقیم ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ بہت دن سے’ہم سب‘ میں محفل آرا نہیں ہو سکے۔ اب ایک خاص لطف نامہ ارسال فرمایا ہے۔ لکھتے ہیں….

”آداب۔ غریب الوطنی میں ’ہم سب‘کی روز افزونی دیکھ رہا ہوں اور رشک و فخر ہی ہے جو اس فرقت کو یک گونہ گوارا بناے ہوئے ہے۔ آپ کا شذرہ دربارہ بٹالوی برادران نظر نواز ہوا۔ میں آغا بابر کو غلام عباس کے برابر کا اور بیدی، کرشن چندر، احمد عباس سے اونچے درجے کا افسانہ نگار سمجھتا ہوں۔ ذاتی رائے ہے اور سراسر ذوقی۔ عاشق بٹالوی صاحب کے مجموعہ مضامین کا ذکر دلپذیر بھی دیکھا. اس مجموعہ میں بٹالوی صاحب کے نام مولانا غلام رسول مہر کا ایک خط مشمول ہے جو راج گوپال اچاریہ فارمولہ سے متعلق بٹالوی صاحب کے استفسار کا جواب ہے۔ (غلام رسول ) مہر مرحوم کے صاحبزادے محترم امجد سلیم علوی کی کمال مہربانی سے بٹالوی صاحب کا اصل خط دسترس میں آیا. دیکھیے، ”آگ جب ہم کو دکھائی تو تماشا نکلا….“ کے سامان کی پوٹ ہے۔ اسے طویل غیر حاضری کا جرمانہ سمجھ لیجیے یا گرو دکشنا۔ مجھے گمان غالب ہے کہ آپ کے لئے نئی چیز ہو گی۔ “

جی ہاں نئی چیز بھی ہے اور ایسا در نایاب کہ ’ہم سب‘ کے پڑھنے والوں کو اس سے محروم رکھنا ناانصافی بلکہ خیانت ہو گی۔ مکتوب ملاحظہ ہو (مدیر)

 

40 ایجرٹن گارڈنز

لنڈن SW3

2 جنوری 1954

صدیقی و حبیبی حضرت مولانا مہر ، السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ

میں گزشتہ سال چار مارچ کو لندن پہنچ گیا تھا اور یہاں آنے کے چند روز بعد آپ کا گرامی نامہ بھی ملا تھا ۔ وہ خط اب تک آپ کی محبت و شفقت اور آپ کے لطف و کرم کی ایک قیمتی دستاویز کے طور سے میرے پاس محفوظ ہے۔ اس دوران میں ایک بار نہیں بلکہ بیسیوں مرتبہ آپ کو خط لکھنے کا ارادہ کیا لیکن یکسوئی کی نعمت میسر نہ آسکی۔ یوں بھی طبیعت میں ایک اضطراب اور کشمکش سی جاری رہتی ہے جو بعض اوقات قلم کو چلنے نہیں دیتی۔ میں خود اس کشمکش کا معنوی تجزیہ کرنے سے قاصر ہوں۔ یوں سمجھئے کہ اگر اضمحلال، تکدر، اضطراب، پشیمانی، ندامت ، رنج، غصہ اور بے بسی کو کھرل کر کے ان کے ہم وزن مستقبل کی تاریکی اور مایوسی ملا لی جائے تو شاید یہ مرکب میرے دل و دماغ کی موجودہ کیفیت کی کسی حد تک ترجمانی کر سکے گا۔ تاہم اس دوران میں آپ کو بار بار یاد کیا اور بعض احباب کے ساتھ اکثر آپ کا ذکر آیا۔ اگر قلب اور ضمیر کی صفائی موجود ہے تو یقینا اپ کو بھی چھ ہزار میل کے فاصلے پر اس کا احساس ہوا ہو گا۔ میں اکثر آپ کو حسب معمول برآمدے میں آرام کرسی پر بیٹھے دیکھتا ہوں۔ حقہ سامنے ہے اور پہلو میں تپائی پر کتابیں رکھی ہیں۔ لکھنے پڑھنے میں مصروف ہیں یا کسی ملاقاتی سے باتیں ہو رہی ہیں۔ میرے لیے تو ڈاکٹر اقبال، شیخ عبدالقادر اور ملک برکت علی کے بعد لاہور میں صرف آپ ہی کا آستاں تھا جہاں علم و فضل کی بات کان میں پڑ سکتی تھی۔ بہت مدت غلط فہمیوں میں گزر گئی اور جب میں نے تلافی ملاقات کرنی چاہی تو قضا و قدر نے وطن سے بہت دور یہاں لا پھینکا۔ لاہور میں ہماری معیشت و معاشرت نے جو رنگ اختیار کیا ہے اس کے پیش نظر مجھے یقین ہے کہ آئندہ عرصہ دراز تک آپ کے پائے کا ہمہ گیر انسان ہمارے ہاں پیدا نہیں ہو گا۔ افسوس ہے آپ کا قلم بھی حوادث نے توڑ کر رکھ دیا۔ جس ملک کی علمی فرد مائیگی کا یہ عالم ہو کہ رفاقت کمیٹی سے دس روپے لے کر تقریر کرنے والے علاﺅالدین صدیقی ’علامہ‘ کہلائیں اور محمد باقر ”رئیس شعبہ فارسی پنجاب یونیورسٹی“ کا بلند آہنگ لقب اختیار کرکے کلام اقبال کی شرح لکھے وقت ”یہ آیہ نو جیل سے نازل ہوئی مجھ پر“ کی تفسیر یوں کریں کہ ’نئی انجیل کی یہ آیت مجھ پر نازل ہوئی ہے“۔اس ملک میں غلام رسول مہر کے بعافیت زندہ رہنے کا کیا امکان ہے۔ تاہم مجھے امید ہے کہ آپ نے بھی پامردی کے ساتھ اب تک مصائب کا مقابلہ کیا ہے۔ اسی حوصلہ اور جواں ہمتی سے اس سفلہ پرستی کے دور کو بھی آپ سلامتی سے عبور کر جائیں گے۔

میں یہ معلوم کرنے کے لیے بے تاب ہوں کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں۔ جب میں لاہور سے چلا تھا تو آپ حضرت سید احمد بریلوی اور اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ کے جہاد حریت کی تاریخ لکھ رہے تھے۔ وہ کتاب تو اب تک چھپ چکی ہو گی۔ خدا جانے میں اس کی زیارت سے کب بہرہ ورہو ں گا۔ میں جب یہاں آیا تو ڈاکٹر اشرف بھی چار سال سے لندن میں پڑے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر اشرف تو آپ جانتے ہوں گے۔ 1937-38 ءمیں جواہر لال کے سیکرٹری تھے۔ پھر کمیونسٹ پارٹی میں چلے گئے تھے۔ انہوں نے لندن میں نہایت تنگ دستی اور مصیبت کا وقت گزارا ہے تاہم ان کو اپنے عقائد کی حرمت جسم و جان کی راحت سے کہیں زیادہ عزیز ہے۔اور عقائد کی اس حرمت کی خاطر وہ برسوں آلام کا شکار رہے۔ آپ کا ذکر بڑی محبت سے کرتے تھے اور سید احمد بریلوی پر آپ کی معلومات پڑھنے کا بہت شوق رکھتے تھے۔ انہیں ہندوستان واپس جانے کی اجازت مل گئی تھی چنانچہ آج کل غالبا ً علی گڑھ میں ہیں ۔ آپ کے مرتبہ شناسوں اور قدردانوں میںراز مراد آبادی اور صدیق احمد صدیقی بھی ہیں۔ یہ دونوں یہاں بی بی سی میں مقیم ہیں اور ہمیشہ آپ کا نام ادب و احترام سے لیتے ہیں۔ برادر عزیز اعجاز حسین بیرسٹری کے امتحان سے تو گزشتہ مئی میں فارغ ہو گئے تھے۔ اب لندن کے ایک مشہور بیرسٹر کے ساتھ چیمبر کا کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے حالات سن سن کر گھبراتے ہیں لیکن اب انہیں واپس جانا ہی پڑے گا۔ شاید اپریل میں وطن کا رخ کریں گے۔ میں جب سے یہاں آیا ہوں بیشتر وقت برٹش میوزیم اور انڈیا آفس لائبریری میں صرف کیا ہے۔ انڈیا ہاﺅس کی پوری لائبریری، جو عجیب و غریب نوادر سے بھری ہوئی تھی، ہندوستان کو مل گئی ہے۔ ایک کتاب بھی ہمارے حصے میں نہیں آئی۔ انڈیا آفس لائبریری برطانوی حکومت کی ملکیت قرار پائی ہے البتہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستانی رﺅسا کے ساتھ مختلف اوقات میں جو معاہدے کیے تھے وہ تمام مسودے اس لائبریری کی الماریوں سے نکال کر ہندوستان کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ برٹش میوزیم میں گزشتہ مہینے مشرقی مخطوطات کی ایک بے مثال نمائش لگی تھی جو ہر اعتبار سے دیکھنے کی چیز تھی۔ میں نے اس نمائش کا تبصرہ بی بی سی سے نشر کیا تھا۔ ایٹلی اور بیون سے بھی ملا ہوں۔ اٹیلی تو ہونٹ چبا کر بات کرتے ہیں لیکن بیون صاف گو آدمی ہیں۔ میں نے دونوں سے پوچھا کہ آپ نے ہندوستان کو کیوں تقسیم کیا۔ اٹیلی نے جواب دیا کہ ہم کیا کرتے،مسلمانوں کا مطالبہ تھا۔ بیون نے صاف صاف کہا کہ متحدہ ہندوستان مغرب کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتا تھا۔ ہم نے تقسیم کر کے اسے کمزور بنا دیا۔ لندن میں پاکستانی سفارت خانے کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جو دھاندلی لاہور میں مچی ہوئی ہے اور جو ہڑبونگ کراچی میں جاری ہے ، من و عن اس کا عکس یہاں پاکستان ہاﺅس میں نظر آتا ہے۔ ہر شخص قلیل ترین محنت اور کم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ روپیہ سمیٹ لینا چاہتا ہے اور یہ وصف اب ہمارا قومی شعار بن کر رہ گیا ہے۔ یورپ، ایشیا، افریقہ جہاں جہاں پاکستانی سفارت خانے قائم ہیں وہاں یہ وبا جاری ہے اور ذلت و رسوائی کی حد تک پہنچ گئی ہے۔

 میں جو کتاب لکھنے کا ارادہ کرتا تھا اس کا بمشکل خاکہ مرتب کر چکا ہوں۔ نہیں کہہ سکتا یہ کام کب شروع ہو گا اور اگر ابتدا کر بھی لوں تو حسب منشا اسے تکمیل تک بھی پہنچا سکوں گا یا نہیں۔ آپ ازراہ کرم ذیل میں چند سوالوں کا جواب عنایت کیجئے۔

1 ۔ جناح نے 1944 ءمیں راج گوپال فارمولا کیوں رد کیا تھا؟

بعض لوگوں کی رائے ہے کہ جناح کو اندیشہ تھا کہ اگر اس نے یہ فارمولاقبول بھی کر لیا تو کیا بعید ہے کہ 1916 ءکے لکھنو پیکٹ کی طرح کل کو کانگریس اس سے بھی منحرف ہو جائے۔ اگر کانگرس کھلم کھلا منحرف نہ بھی ہو تو ممکن ہے وہ مہاسبھا کو آگے بڑھا کر ہنگامہ بپا کر دے اور جناح بے بس ہو کر رہ جائے۔ اندریں حالات جناح چاہتا تھا کہ تقسیم ہند کا فیصلہ انگریز سے کرائے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جناح کانگرس سے کسی قسم کی مفاہمت کرنا چاہتا تھا اگر وہ راج گوپال فارمولا قبول کر لیتا تو اسے لامحالہ کانگرس کا ہم نوا بن کر انگریزی حکومت کے خلاف محاذ قائم کرنا پڑتا۔ ادھر جناح اس قسم کی متحدہ تحریک سے کوسوں دور بھاگتا تھا کیونکہ ایسی تحریک میں اسے یقینا ثانوی حیثیت حاصل ہوتی اور اگر وہ انگریزی حکومت کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرنے میں کانگریس کا ہم نوا نہ ہوتا تو خود مسلم لیگ کا ایک طبقہ کٹ کر اس قسم کے محاذ میں شامل ہو جاتا۔ جناح نے محض اپنی جداگانہ قیادت کی (جو جزوقتی و کلا ً کانگرس کے خلاف تھی) گرم بازاری قائم رکھنے کی خاطر راج گوپال فارمولا رد کیا۔

ان دونوں متذکرہ آرا میں آپ کس کو قابل قبول خیال کرتے ہیں؟

2 ۔ اگر جناح راج گوپال فارمولا قبول کر لیتا تو اس کے کیا نتائج مرتب ہوتے؟

میری ناچیز رائے ہے کہ پہلا نتیجہ یہ ہوتا کہ قلعہ احمد نگر کے دروازے حکومت کو کھول دینا پڑتے اور کانگرس کے تمام لیڈر رہا ہو کر باہر آجاتے اور وہ صمیم قلب سے جناح کے شکر گزار ہوتے۔ ان کی اس شکر گزاری کا سب سے بڑا فائدہ ہمیں یہ پہنچتا کہ ہم تقسیم ہند کا اصول برضا و رغبت منوا کر ان سے بڑی سے بڑی رعایت حاصل کر سکتے تھے اور یہ سارا خون خرابہ کبھی برپا نہ ہوتا۔ کشمیر ہمیں یقینا مل جاتا اور پاکستان کے حدود بھی زیادہ وسیع ہوتے۔

3 ۔ اگر مونٹ بیٹن پاکستان اور ہندوستان کا مشترکہ گورنر جنرل بن جاتا تو کیا نتائج رونما ہوتے؟

میری ناچیز رائے یہ ہے کہ ہمارے حق میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا کہ کشمیر کبھی ہندوستان کے قبضے میں نہ آتا۔ اگر سری نگر ہندوستان سے الحاق کشمیر کی درخواست بھی کرتا تو ماﺅنٹ بیٹن جو پاکستان کا بھی گورنر جنرل تھا، کبھی اس درخواست کو قبول نہ کرتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ کشمیر کے باشندوں کا ریفرنڈم اس وقت ہو جاتا اور ریفرنڈم کے لیے اس وقت کی فضا ہمارے حسب حال تھی۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).